ممتاز ادیب و شاعر پروفیسر حفیظ الرحمن احسن بھی چل بسے

22فروری 2020ء کی صبح پروفیسر حفیظ الرحمن احسن اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ میرا ان سے تعلق شاگردوں اور نیاز مندوں والا تھا۔وہ ایک قدآور ادبی ‘ علمی‘ نظریاتی اور مذہبی شخصیت تھے ‘ ایوان ادب لاہور میں‘ میں ان کے ساتھ بارہ سال تک بطورمعاو ن فرائض انجام دیتارہا ہوں ‘ اس دوران میں نے ان کو ایک بہترین ‘ باعمل مسلمان ‘ فراخ دل اور شفیق انسان پایا ۔غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کرنا ان کی شخصیت کا حصہ تھا ‘ صبرو استقامت کے پیکر اس شخص کا حوصلہ اس وقت دیکھنے والاتھا جب ان کے جوان بیٹے " محمد فاروق "کااچانک انتقال ہوگیا ۔انہوں نے جواں سال بیٹے کی موت کا صدمہ یہ کہہ کر برداشت کرلیا کہ اﷲ کا مال تھا اﷲ کے پاس چلا گیا ۔ زندگی کے معمولات کو پہلے کی طرح جاری و ساری رکھا۔ میں نے ان کی زندگی میں قول و فعل کاکوئی تضاد نہیں دیکھابلاشبہ ایسے ہی لوگ دوسروں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں ۔

پروفیسر حفیظ الرحمن احسن 9اکتوبر 1934ء میں سیالکوٹ کے نواحی شہر پسرور میں میاں عبدالعزیز کے گھر پیدا ہوئے ۔آپ نے تعلیمی مدارج سیالکوٹ کے تعلیمی اداروں میں طے کیے اور زندگی کی پہلی ملازمت کا آغاز بطورمعلم گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج فیصل آباد سے کیا ۔ بعد ازاں گورنمنٹ ڈگری کالج سرگودھا ‘ مرے کالج سیالکو ٹ اور اشاعت تعلیم کالج لاہور میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں ۔آٹھ سال کے بعد سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ کر خود کو مولانائے مودودی ؒ کی شخصیت سے وابستہ کرلیا اور مولاناکے دروس ہائے قرآن و حدیث1962تا 1979ء تک ریکارڈ کرکے کیسٹوں میں منتقل کیے۔یہی کیسٹ مولانا مودودی ؒ کی رحلت کے بعدجماعت اسلامی کے وابستگان اور نظریاتی دوستوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔بعدازاں ممتاز ادیب نعیم صدیقی کی سربراہی میں شائع ہونے والے "ادبی سیارہ "کی ادارتی ذمہ داریاں سنبھال لیں ۔یہ وہ ممتاز اور معروف ادبی مجلہ ہے جس میں برصغیر پاک و ہند کے ممتاز ادیبوں اور شاعروں(جن میں ڈاکٹر عبدالمغنی ‘ ڈاکٹر ابن فرید ‘ ڈاکٹر سید عبدالباری ‘ م نسیم ‘ حفیظ میرٹھی ‘ جیلانی بی اے ‘ محمود فاروقی ‘ سلمی یاسمین نجمی ‘ ڈاکٹر تحسین فراقی ‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ‘ فیروز شاہ جعفربلوچ ‘ اعجازرحمانی ‘ پروفیسر عنایت علی خاں ‘ حکیم سروسہارنپوری ‘ انور مسعود اور نظر زیدی نمایاں ہیں ) کی نگارشات تسلسل سے شائع ہوتی رہیں ۔ بے وسائلی کے باوجود یہ ضخیم ادبی مجلہ پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کی ذاتی محنتوں اور مالی کاوشوں کی بدولت 1984ء سے 2012ء تک مسلسل شائع ہوتا رہا ۔ "مشاہیر ادب کے خطوط بنا م پروفیسر غازی علم الدین "آپ کی آخری مرتب کردہ کتاب تھی ۔ریڈیو پاکستان کی جانب سے انہیں مختلف دینی پروگراموں میں گفتگو کے لیے بلایا جاتا رہا۔پروفیسر حفیظ الرحمن احسن اسلامی ‘ اصلاحی اور تحقیقی ادب میں ایک بلند مقام رکھتے تھے ۔وہ قواعد و انشا کی کتاب" تحسین اردو" کے شریک مصنف بھی تھے ‘ دیگر مصنفین میں آسی ضیائی اور طاہر شادانی شامل تھے ‘ یہ انٹرمیڈیٹ سطح کی پاکستان بھر میں سب سے معیاری کتاب تصور کی جاتی تھی ‘ اس کتاب کے پڑھنے والے پاکستان کے چاروں صوبوں اور آزادکشمیر کے لاکھوں طلبہ و طالبات شامل تھے ۔مولانا مودودی ؒ کے درس حدیث کے مرتبہ مجموعے "کتاب الصوم اور فضائل قرآن " بھی آپ ہی کی نگرانی میں مرتب اور شائع ہوئے جو وسیع حلقہ احباب میں نہایت ذوق و شوق سے پڑھے جاتے رہے ۔ 1965ء کی رزمیہ نظموں کا اولین مجموعہ "گلبانگ جہاد"کی ترتیب بھی انہی کے حصے میں آئی ۔جبکہ آپ کے شعری مجموعوں میں" فصل زیاں ‘ موج سلسبیل ‘ (حمد نعت) ‘ ستارہ شام ہجراں کا ‘ نوائے راز " شامل ہیں ۔ بچوں کے لیے بطور خاص ننھی منی خوبصورت نظمیں اور نرسری رائمزکے بھی آپ مصنف تھے ۔ اردو بازار لاہور میں "ایوان ادب" کے نام ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا جو اردو ‘ سیاسیات اور معاشیات کی نصابی اور امدادی کتب شائع کرتا تھا ۔کہنے کو تو یہ ایک چھوٹے سے کمرے میں اشاعتی ادارے کا دفتر تھالیکن یہاں ہر لمحے ادیبوں اور شاعروں کا ہجوم جمع رہتا ہے ‘ حسن اتفاق سے میں خودبھی جزووقتی فرائض کی انجام دہی کے لیے وہاں موجود ہوتا ‘ میں نے اپنی آنکھوں سے میرزا ادیب ‘ ڈاکٹر تحسین فراقی ‘ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ‘ ‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ‘ پروفیسر یونس حسرت ‘ جعفربلوچ ‘ ڈاکٹر امجد طفیل اور پروفیسر اشفاق ورک جیسے قد آور اور نامور ادیبوں اور شاعروں کو نہ صرف دیکھا بلکہ شریک گفتگو بھی رہا جو یقینا میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے ۔ آپ حلقہ ادب لاہور کے بانی بھی تھے ‘ جس کے ہفتہ وار اجلاس پاک ٹی ہاؤس ‘ باغ جناح ‘ پرانی انارکلی اور دیگر مقامات پر باقاعدگی سے جاری رہتے ۔ آپ کے علم و فن اور شخصیت سے مستفید ہونے والوں کی فہرست خاصی طویل ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پروفیسر حفیظ الرحمن ادب اسلامی کے ایک قدآور شخصیت تھے ‘ جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال ادب اسلامی اور معاشرے میں مثبت قدروں کے فروغ کے لیے صرف کیے ۔ محدود مالی وسائل کے باوجود جو بھی ضرورت مندان کے پاس سوالی بن کے آیا وہ خالی ہاتھ نہ گیا ۔ ہزاروں روپے مہینے کی خیرات دیاکرتے تھے ‘ پھر وہ وقت بھی آیا جب انہیں معدے کی موذی بیمار ی نے چلنے پھرنے سے عاری کردیا وہ اپنے گھر تک محدود ہوکر رہ گئے ‘ ادبی سرگرمیاں بھی اختتام کو پہنچی لیکن ان کا حافظہ اس قدر تیز تھا کہ بیس پچیس سال پرانے واقعے کو پوری تمہید کے ساتھ دھراسکتے تھے ‘اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ادب و صحافت کے میدان میں میری کامیابیوں کا بڑا حصہ پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کا مرہون منت ہے ۔اﷲ انکو غریق رحمت فرمائے۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 662943 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.