ترکی میں شام کے پناہ گزین: ’میں نے چار بار سرحد عبور کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار میں گرفتار ہوا‘

image


حلیل ترکی کے مغرب میں ایک چھوٹے اور ویران ساحل پر پانی کے کنارے کھڑے ہیں۔

ایک جزیرے کی جانب اشارہ کر کے وہ کہتے ہیں کہ ’دیکھو یہ کتنا قریب ہے، مگر اس تک پہنچنا بہت ہی مشکل ہے۔‘

ترکی کے اِس مغربی ساحل سے چند میل دور یونان کا ساموس نامی جزیرہ واضح نظر آ رہا ہے۔

چار برس قبل حلیل جنگ زدہ شام سے ترکی جانے کے لیے بھاگ نکلے تھے۔ وہ گذشتہ چار برسوں سے اپنی اہلیہ، والدہ اور پانچ بچوں کے ہمراہ ترکی میں رہ رہے ہیں۔

گذشتہ ہفتے حلیل نے ایک انسانی سمگلر کو کچھ رقم اس وعدے پر دی کہ وہ ان کو ترکی سے یونان پہنچا دے گا۔

’پچھلے ایک سال سے میرے پاس کوئی روزگار نہیں ہے اور میری معاشی حالت انتہائی نازک ہے۔ اپنے پورے خاندان میں صرف میں نوکری کرنے کے قابل ہوں۔ روزگار کی عدم موجودگی میں اگر میں گھر پڑا رہتا ہوں تو میرے بچے دو وقت کی روٹی کو ترس جائیں گے۔ میرے پاس اور کیا آپشن ہے؟‘

تاہم سمگلر کی مدد سے ان کی ترکی سے یونان بھاگنے کی کوشش ناکام رہی۔

اس کوشش کے دوران ’ہم نے چلانے کی آوازیں سنیں اور ہمیں معلوم ہو گیا کہ ترکی کے سرحدی محافظوں کو ہمارا پتا چل گیا ہے۔ انھوں نے ہم سب کو گرفتار کر لیا، انھوں نے کسی کو بھی بھاگنے نہیں دیا۔‘

سنہ 2015 کے پناہ گزیں بحران کے دوران ترکی نے یورپی یونین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ ترکی نے اربوں یوروز کے عوض پناہ گزینوں کی یورپ تک رسائی روکنے پر اتفاق کیا تھا۔

ترکی نے لمبے عرصے تک اس معاہدے کی پاسداری کی اور ترکی کے فوجیوں نے یورپ کے ساتھ لگنے والی سرحدوں اور سمندری راستوں کی نگرانی کی۔
 

image


مگر گذشتہ ہفتے جمعرات کے روز شام کے شہر ادلب میں ایک فضائی حملے میں درجنوں ترکش فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ترکی نے اعلان کیا کہ وہ اپنی مغربی سرحدیں اور سمندری راستے کھول رہا ہے تاکہ پناہ گزین براستہ ترکی یورپ تک اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔

شام میں جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک ترکی 37 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں پناہ دیے ہوئے ہے۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بارہا یہ دھمکی دی ہے کہ اگر اتحادیوں نے شام کی جنگ میں ترکی کی مزید مدد نہ کی تو وہ ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کو یورپ بھیج دیں گے یا جانے کی اجازت دے دیں گے۔

صدر اردوغان کے مشیر ابراہیم کالین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’پناہ گزینوں کا بحران بڑھتا جا رہا۔ یہ بد سے بدتر ہو رہا ہے۔‘

’چند یورپی ممالک یہ سمجھ رہے ہیں کہ جب تک وہ (پناہ گزین) ہمارے شہروں میں آ نہیں جاتے تب تک ان سے نمٹنا کسی اور (ترکی) کا مسئلہ ہے۔‘

ترکی اس حوالے سے بہت زیادہ دباؤ میں ہے۔ ملک میں موجود پناہ گزینوں کے علاوہ لگ بھگ 10 لاکھ شامی افراد وہ ہیں جو شام کی سرحد پر موجود ہیں اور ترکی میں داخل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ تمام پناہ گزین شام میں جنگ کی باعث دربدر ہوئے ہیں اور ترکی اب انھیں اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ادلب کے جنگ زدہ باسیوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہاں قتلِ عام ہو گا۔ بہت بڑا قتل عام۔‘

ترکی کے مغربی ساحل پر ہمیں ہزاروں پناہ گزیں نظر آئے جو ایسی عارضی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں جہاں بنیادی سہولیات تک موجود نہیں ہیں۔
 

image


یہ پناہ گزین بہت ہی کم پیسوں پر زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ چند پناہ گزینوں نے ہمیں بتایا کہ وہ یومیہ پانچ پاؤنڈ تک ہی کما پاتے ہیں۔ یہ تمام پناہ گزین ترکی سے یورپ جانے کے لیے بےقرار ہیں۔

ایک پناہ گزین فتحی نے ہمیں بتایا کہ ’میں نے چار مرتبہ سرحد عبور کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار میں گرفتار ہوا۔‘

’میری جمع پونجی ختم ہو چکی ہے مگر میں کوشش جاری رکھوں گا۔ میں نے اپنا سب کچھ اس کام کے لیے خرچ کر دیا ہے، یہاں تک کہ اپنی اہلیہ کا زیور بھی۔‘

ترکی کی جانب سے جانتے بوجھتے سرحدوں اور سمندر کی نگرانی کم ہونے کے بعد یونان کے جزیروں تک جانے کے خواہش مند پناہ گزینوں کی کشتیاں لبالب بھر چکی ہیں۔

جب یہ خبر عام ہوئی کہ ترکی کے سرحدی محافظ پناہ گزینوں کے یورپ میں داخلے پر نرمی برت رہے ہیں تو انھوں (پناہ گزینوں) نے یورپ میں داخلے کی کوشش اور سفر دوبارہ شروع کر دیا ہے۔

ترکی میں ایسے بہت سے سمگلر ہیں جو پناہ گزینوں کو سرحد پار کروانے کے لیے تیار ہیں۔ چند سمگلر تو ایسے بھی ہیں جو کھلے عام سوشل میڈیا پر اپنے اس کام کی تشہیر کر رہے ہیں۔
 

image


ایسے ہی ایک سمگلر نے فون پر ہم سے بات کی۔

’جب سمندر پرسکون ہوتا ہے تو ہم روزانہ (پناہ گزینوں سے بھری) دو سے تین کشتیاں روانہ کرتے ہیں۔ فی الوقت ہم پر (حکام کی جانب) زیادہ نظر نہیں رکھی جا رہی ہے۔ سرحد عبور کرنا کچھ زیادہ پُرخطر نہیں ہے۔‘

ترکی کی حکومت کا کہنا ہے کہ انھوں نے پناہ گزینوں سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی مگر اگر ادلب میں جنگی صورتحال برقرار رہتی ہے تو یورپ کی جانب پناہ گزینوں کا آنا جاری رہ سکتا ہے۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یونان نے اپنی سرحدی چوکیوں پر پولیس نگرانی بڑھا دی ہے، مگر اس کے باوجود اب یورپ تک کا سفر آسان نظر آتا ہے۔

حلیل پرعزم ہیں کہ وہ دوبارہ یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔ ’میں یہ بار بار کروں گا، اس وقت تک جب تک میں (یورپ میں) داخل نہیں ہو جاتا۔‘ جب حلیل یہ بات کر رہے تھے تو ان کے پہلو میں بیٹھی ان کی والدہ کے آنسو بہہ نکلے۔

میں نے ان کی والدہ سے پوچھا کہ آیا وہ حلیل کو یورپ نہیں جانے دینا چاہتی ہیں؟ انھوں نے جواب دیا ’اس کو کوشش کرنے دو، یہاں رہتے ہوئے تو یہ اپنے بچوں کا پیٹ بھی نہیں پال سکتا۔‘
 


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: