مولانا قاری شبیر احمد عثمانی
برائے میگزین خصوصی اشاعت جمعہ و ملی ایڈیشن
تحریک ختم نبوت 1953ء میں لاہور، لائل پور (فیصل آباد) گوجرانوالہ،
سیالکوٹ، ساہیوال،سرگودہا، راولپنڈی اور دوسرے تمام شہروں اور قصبوں کی
حالت یہ تھی کہ رضاکار اپنے اپنے بھرتی کے مراکز پر آتے، جسم پر بڑی دلیری
سے زخم لگاتے اور خون سے حلف نامے پر دستخط یا انگوٹھا ثبت کر دیتے تھے۔
رضاکاروں کا یہ جذبہ گفتنی نہیں، دیدنی تھا۔ بس ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے
ان نوجوانوں کے سینوں میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے دل دھڑکنے لگ گئے ہیں
اور یہ دنیا و مافیہا سے منہ موڑ کر خواجہ بطحاصلیﷺکی حرمت پر قربان ہو
جانا چاہتے ہیں۔
تحریک ختم نبوت میں لاہور کی سڑکوں پر ایک مسلمان دیوانہ وار ختم نبوت زندہ
باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ ایک پولیس والے نے پکڑ کر تھپڑ مارا۔ اس پر اس نے
پھر ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ پولیس والے نے بندوق کا بٹ مارا، اس
نے پھر نعرہ لگایا۔ وہ مارتے رہے، یہ نعرہ لگاتا رہا۔ اسے اٹھا کر گاڑی میں
ڈالا، یہ زخموں سے چُور چُور پھر بھی ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتا رہا۔
اسے گاڑی سے اتارا گیا تو بھی وہ نعرہ لگاتا رہا۔ اسے عدالت میں لایا گیا
اس نے عدالت میں آتے ہی ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔جج نے کہا ایک سال سزا۔ اس
نے سال کی سزا سن کر پھر ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ اس نے سزا دو سال کر دی،
اس نے پھر نعرہ لگا دیا غرضیکہ جج سزا بڑھاتا رہا اور یہ مسلمان نعرہ ختم
نبوت بلند کرتا رہا۔ عدالت جب بیس سال پر پہنچی، دیکھا کہ بیس سال کی سزا
سن کر یہ پھر بھی نعرہ سے باز نہیں آ رہا۔ تو جج نے کہا کہ عدالت سے باہر
لے جا کر ابھی اسے گولی مار دو۔ اس نے گولی کا سن کر دیوانہ وار رقص کرنا
شروع کر دیا اور ساتھ ختم نبوت زندہ باد، ختم نبوت زندہ باد کے فلک شگاف
ترانہ سے ایمان پرور اور وجد آفریں کیفیت طاری کر دی۔ یہ حالت دیکھ کر
عدالت نے کہا کہ اسے رہا کر دو، یہ دیوانہ ہے، اس نے رہائی کا سن کر پھر
نعرہ لگایا۔ ختم نبوت زندہ باد۔ تحریک ختم نبوت 53ء میں دہلی دروازہ لاہور
کے باہر صبح سے عصر تک جلوس نکلتے رہے اور دیوانہ وار سینوں پر گولیاں کھا
کر آقائے نامدارﷺ کی عزت و ناموس پر جان قربان کرتے رہے عصر کے بعد جب جلوس
نکلنے بند ہو گئے تو ایک اسّی سالہ بوڑھا اپنے معصوم پانچ سالہ بچے کو اپنے
کندھے پر اٹھا کر لایا، باپ نے ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ معصوم بچے نے جو
باپ سے سبق پڑھا تھا، اس کے مطابق زندہ باد کہا۔ دو گولیاں آئیں، اسّی سالہ
بوڑھے باپ اور پانچ سالہ معصوم بچے کے سینے سے شائیں کر کے گزر گئیں، دونوں
شہید ہو گئے۔ مگر تاریخ میں اس نئے باب کا اضافہ کر گئے کہ اگر آقائے
نامدارﷺ کی عزت و ناموس پر مشکل وقت آئے تو مسلمان قوم کے اسّی سالہ بوڑھے
خمیدہ کمر سے لے کر پانچ سالہ معصوم بچے تک سب جان دے کر اپنے پیارے آقاﷺ
کی عزت و ناموس کا تحفظ کرتے ہیں۔
’’تحریک ختم نبوت میں ایک طالب علم کتابیں ہاتھ میں لیے کالج جا رہا تھا۔
سامنے تحریک میں شامل لوگوں پر گولیاں چل رہی تھیں۔ کتابیں رکھ کر جلوس کی
طرف بڑھا۔ کسی نے پوچھا یہ کیا۔ جواب میں کہا: ہمیشہ پڑھتا رہا ہوں، آج عمل
کرنے جا رہا ہوں۔ جاتے ہی ران پر گولی لگی، گر گیا۔ پولیس والے نے آ کر
اٹھایا تو شیر کی طرح گرجدار آواز میں کہا: ظالم گولی ران پر کیوں ماری ہے،
عشق مصطفی ﷺ تو دل میں ہے، یہاں دل پر گولی مارو تاکہ قلب و جگر کو سکون
ملے۔‘‘ ڈاکٹر اسرار احمد راوی ہیں: ’’1953ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران
بطور ڈاکٹر میری تعیناتی میو ہسپتال میں تھی۔ ہم چند دوست ہسپتال کی چھت پر
کھڑے تھے۔ اچانک دیکھا کہ نسبت روڈ چوک کی جانب سے ختم نبوت کے پروانوں کا
ایک جلوس بڑھتا ہوا آ رہا ہے، جسے روکنے کے لیے فوج نے ہسپتال کے گیٹ کے
آگے ریڈ لائن لگا دی اور انتباہ کر دیا کہ جو بھی اسے پار کرے گا، اسے گولی
مار دی جائے گی۔ یہ ایک ایسا انتباہ اور ایسی وارننگ تھی، جسے عاشقانِ
مصطفی ﷺ کی پوری تاریخ میں کبھی پرکاہ سی اہمیت بھی حاصل نہ رہی، یہاں بھی
یہی ہوا، جلوس نامِ محمدﷺ کی عظمتوں کے ترانے بلند کرتا ہوا اسی آن سے آگے
بڑھتا رہا۔
ریڈ لائن پہ اک لمحے کو رُکا۔ دوسرے ہی لمحے چشم فلک نے دیکھا کہ غلامیِ
رسولؐ پہ ناز کرنے والا ایک خوبرو نوجوان آگے بڑھا، اس نے اپنا سینہ کھولا
اور نعرہ لگایا ختم نبوت زندہ باد اور سرخ لائن کراس کر گیا۔ دوسری طرف سے
قادیانیت نواز کی بندوق سے گولی نکلی اور سرخ سرحد عبور کرنے والا جوان،
عشقِ مصطفی ﷺ کے سفر میں اتنا تیز نکلا کہ ایک ہی جست میں زندگی کی سرحد
عبور کر کے قدم بوسیِ حضورﷺ کے لیے روانہ ہو گیا۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ
اسی رفتار سے دوسرا جوان آگے بڑھا، اس نے بھی گریبان چاک کیا اور پوری قوت
سے نعرہ زن ہوا، ختم نبوت زندہ باد، ظلم و تشدد کی روایت کے مطابق ادھر سے
گولی آئی اور عشق و محبت کی تاریخ کا اک اور صفحہ رنگین کرتے ہوئے گزر گئی،
وہ جوان لڑکھڑایا اور لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ لیے راہی فردوسِ بریں ہو
گیا۔ اس سے پہلے کہ تیسرا نوجوان آگے بڑھتا، ہم چھت سے نیچے آ چکے تھے اور
ادھر خبر ملی کہ ان دونوں جوانوں کے لاشے بھی ہسپتال پہنچ چکے ہیں۔ دورانِ
زیارت معلوم ہوا کہ دونوں جوان سگے بھائی تھے۔‘‘
چودھری نذیر احمد صاحب بھائی پھیرو میں کریانہ کا کاروبار کرتے ہیں۔ 1953ء
کی تحریک ختم نبوت کا واقعہ انہی کی زبانی سنیے اور اپنے ایمان کو تر و
تازہ کیجئے، فرماتے ہیں:’’میری شادی کے چند ماہ بعد تحریک ختم نبوت 1953ء
شروع ہوئی۔ میں تحریک میں بھرپور حصہ لینے کے لیے ننکانہ صاحب سے لاہور،
مسجد وزیر خاں چلاگیا۔ یہاں روزانہ جلسہ ہوتا اور جلوس نکلتے۔ ایک دن
سرفراز، جو غالباً اس وقت لاہور کے پولیس کے ذمہ دار تھے، کے کہنے پر مسجد
کی بجلی اور پانی کا کنکشن کاٹ دیا گیا۔ اس پر مسجد میں ایک احتجاجی جلسہ
ہوا، پھر جلوس نکلا۔ میں اس جلوس میں شامل تھا۔ ہمیں گرفتار کر لیا۔ چند
احباب کے ہمراہ سرسری سماعت کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ میرا نمبر آخر میں
تھا۔ میری باری پر قادیانی میجر جنرل حیاء الدین نے کہا معافی مانگ لو کہ
آئندہ تحریک میں حصہ نہیں لو گے تو ابھی بری کر دوں گا۔ میں نے مسکراتے
ہوئے کہا کہ آپ کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ حضور نبی کریمﷺ کی عزت و
ناموس کا مسئلہ ہو اور ایک امتی کی شفاعت کا ذریعہ ہو اور پھر وہ معافی
مانگ لے؟ اس نے کہا کہ سامنے لان میں چلے جاؤ۔ آدھا گھنٹہ اچھی طرح سوچ لو۔
میں لان میں بیٹھ گیا۔ پھر پیش کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ معافی مانگ لو۔
میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ شاید آپ کو اس مسئلہ کی اہمیت کا علم
نہیں، آپ کی بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اس مسئلہ میں معافی کیا ہوتی
ہے؟ اس پر حیاء الدین نے غصہ کی حالت میں میرے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ
رسید کیا اور آٹھ ماہ قید بامشقت اور 500 روپے جرمانہ کا حکم دیا، جسے میں
نے بخوشی قبول کر لیا۔ میرے نامہ ا عمال میں میری بخشش کے لیے یہی ایک نیکی
کافی ہے۔‘‘
|