مدد

رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی چہار اطراف سناٹا طاری تھا۔ رات کے اس پہر صرف خنک ہوا چاروں سمت گردش کر رہی تھی۔ سنسان سڑک پر چھائی دہند کی دبیز تہ کو جب کوئی انسان اپنی سواری پر سوار چیرتا ہوا جاتا تو وہاں زندگی کا احساس ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی چہار اطراف سناٹا طاری تھا۔ رات کے اس پہر صرف خنک ہوا چاروں سمت گردش کر رہی تھی۔ سنسان سڑک پر چھائی دہند کی دبیز تہ کو جب کوئی انسان اپنی سواری پر سوار چیرتا ہوا جاتا تو وہاں زندگی کا احساس ہوتا۔ ایسے وقت میں سڑک سے متصل ایک تاریک گلی سے سایہ برآمد ہوا تھا، وہ آہستہ آہستہ رینگتا ہوا بڑی سڑک کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کے وہ اب سڑک کے کنارے لگی اسڑیٹ لائٹ کے نیچے پہنچ کر رک گیا، اب اگر اس کو روشنی میں دیکھو تو اس کا وجود واضح طور پر نظر آئے گا۔ وہ ایک بوڑھا آدمی تھا جو کافی جھک کر کھڑا اپنی ناہموار سانسوں کو درست کر رہا تھا اس کی کمر خم کھائی ہوئی تھی جسم پر ناکافی لباس شدید ٹھنڈ کو روکنے میں ناکام تھا اور اپنے کمزور وجود کا آدھا وزن اس نے دائیں ہاتھ میں پکڑی لکڑی کی ڈنڈی پر ڈال رکھا تھا۔ سڑک کے کنارے دو تین قدم اور چل کر وہ اب دوبارہ رک کر سوچ رہا تھا کہ جس مقصد کے لیے یہاں آیا ہے اس کو کرے یا نہ کرے اس نے ایسا کام پہلے کبھی نہیں کیا تھا، لیکن واپس لوٹنا بھی ناممکن تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف کہیں بڑے تو کہیں ان سے قدرے چھوٹے مگر خوبصورت اور دلکش گھر تعمیر تھے۔ اس نے دل میں سوچا باہر سے جتنے اچھے یہ مکان دیکھ رہے ہیں ان کے اندر بستے لوگ بھی اتنے ہی اچھے اور بڑے دل کے ملک ہوں گے، تب ہی اسنے اپنے کام کے لیے اس سوسایٹی کا انتکاب کیا تھا- اگر وہ ایک ایک در پر جا کر فریاد کرتا تو بہت وقت لگجانا تھا لہذا اس نے اپنی جگہ پر ہی موجود رہتے ہوئے اس خاموش ماحول میں اپنی آواز کے ذریعے ارتعاش پیدا کیا تھا، اور کئ بار کیا لیکن اس کی آواز شاید اس سڑک پر بنے تمام گھروں کے اندر سوئے انسانوں کے کانوں تک پہنچ نہیں پائی تھی۔ زور زور سے بولنے کی وجہ سے اس کی سانس بری طرح پھول گی تھی اس نے چند لمحے اپنے آپ کو سنبھالنے کے بعد پھر سے صدا بلند کی '' اے خدا کے بندوں، اپنے علاوہ کسی اور پر بھی رحم کرو'' لیکن اس بار بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ اپنے اندر موجود پوری طاقت کو اپنی آواز میں سماں کر ایک بار پھر کوشش کرتا ہے کہ شاید اب کوئی ذی روح اس کی پکار کو سن کر باہر آجائے لیکن ان مٹی کے مکانوں میں سوئے پتھر کے انسانوں میں سے کوئی بھی نہ جاگ پایا تھا۔ شدید مایوسی کا شکار وہ یہاں سے واپس موڑ کر کہیں اور بھی نہ جاسکتا تھا، اب آخری حل یہی تھا کہ ہر در کو کھٹ کھٹایا جائے۔ پہلا دروازہ، پھر دوسرا دروازہ، تیسرا دروازہ یہاں تک کہ اس نے دائیں جانب کی لین میں بنے تمام مکانوں کے مکینوں کو جگانے کی کوشش کی مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ اب اس کا رخ بائیں جانب کے گھروں کی قطار کی طرف تھا، اس کی کمر کچھ اور جھک گئی تھی اور چال میں بھی لنگڑاہٹ آگئی تھی۔ یہاں آئے اس کو دو گھنٹے ہو گئے تھے پیچھے جس کو وہ چھوڑ کر آیا تھا اور جس حال میں چھوڑ کر آیا تھا وہ سوچ سوچ کر اس کا دل بیٹھے جا رہا تھا اب وہ زرا تیزی کے ساتھ اگے بڑھ رہا تھا۔ اس کا رخ بوگن ویلیا سے ڈھکے ایک گھر کی جانب تھا دور سے دیکھنے میں وہ گھر کیسی باغ کا حصہ معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے اگے آکر اس گھر کی اطلاعی گھنٹی پر جیسے ہی ہاتھ رکھا پورا گھر چڑیوں کی چہچہاہٹ جیسی آواز سے گونج اٹھا، تین دفعہ بجانے پر بھی جب کوئی نہیں آیاتو وہ وہاں سے مایوس ہوکر پلٹنے ہی والا تھا کہ یکدم اس کو گھر کے اندر کٹھکا سا محسوس ہوا۔ وہ آوازسن کر اس کی آنکھوں میں چمک سی آئی تھی، دل کو تھوڑی ڈھارس ہوئی کہ اگر یہ دروازہ کھول گیا تو اس کا کام بن جائے گا مگر یہ اس کی خام خیالی ہی تھی۔ گھر کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور ایک خوش شکل نوجوان اندرسے برآمد ہوا تھا۔ اس کو دیکھ کر جلدی سے اگے بڑھ کر اس نے اپنا مقصد بیان کیا تھا لیکن اس کی بات کے بیچ میں ہی اس نوجوان کی شکل کے زاویے بگڑ چکے تھے۔

" او بابا یہ کون سا وقت ہے ایسے مانگنے کے لیے آجانا جاو ابھی یہاں سے صبح آنا، ساری نیند خراب کر دی"۔

" بیٹا! میں مانگنے والا نہیں ہوں، بہت مجبوری کی حالت میں یہاں آیا ہوں میرا بیٹا شدید بیمار ہے اس کو اس وقت دوائی کی اشد ضرورت ہے مگر آج مجھ بوڑھے کو دیھاڑی نہ ملنے کی وجہ سے میرے پاس اتنے بھی پیسے نہیں کے اس کے لیئے پینے کا صاف پانی ہی خرید سکوں، بیٹا! اللہ تمہیں اور بے تحاشہ دے گا۔ بس چند روپوں کی بات ہے میری مدد کر دو ، ادھار سمجھ کر دے دو میں واپس کر دوں گا"-

یہ ساری بات اس نوجوان نے بگڑے تیوروں کے ساتھ سنی تھی۔

"بابا! تم صبح آجانا، ابھی کچھ نہیں ہے میرے پاس اب جاو"، اس بیزار نوجوان نے کچھ اور بیزار ہو کر کہا۔

" بیٹا! بس تھوڑی رقم دے دو کچھ آسرا ہو جائے گا"، بوڑھا آدمی اب التجایئں کرنے پر آگیا تھا، وہ یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جانا چاہتا تھا۔

" ارے او بڈھے! تجھے سمجھ کیوں نہیں آتی جا یہاں سے یا پھر میں سیکیورٹی کو بلاؤں، تمہیں ادھر آنے کیسے دیا چوکیدار پتہ نہیں کہاں غائب ہے، جس کو دیکھو منہ اٹھا کر گھس آئے ادھر، دفع ہو یہاں سے اب"، یہ کہ کر اس نے دھاڑ سے اس کے میں پر دروازہ بند کر دیا تھا۔

وہ بوڑھا شخص وہیں پر گرنے کے قریب ہو گیا تھا، آنسو تھے کہ روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کرے کیا اتنی دھتکار کے بعد اس میں کیسی اور کے اگے ہاتھ پھیلانے کی ہمت نہیں بچی تھی۔ وہ اب مایوسی اور بے یقینی کی سی کیفیت میں گھرا باہر جانے والے راستے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اچانک ایک خیال اس کے ذہن میں بجلی کی چمک کی طرح کوندا تھا اب تک جس جس کے در پر اس نے دستک دی تھی ان میں سے کیسی نے بھی اس کی صدا نہیں سنی تھی، مگر اس نے غلطی کر دی ان غفلت کی نیند میں مست انسانوں کو چھیڑ کر اس کو تو سب سے پہلے اس کے اگے ہاتھ پھیلانا چاہیے تھا، جو کسی سے غافل نہیں ہے، جو کسی کا محتاج نہیں ہے، جو سب کی پکار کو سنتا ہے اور اپنے در سے کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنے جھکے سر کو آسمان کی طرف کیا، پہلے سے بہتے ہوئے آنسوؤں میں کچھ اور تیزی آگئی تھی۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا تھا اور اس سے مانگا تھا جو بغیر مانگنے ہی عطا کرتا ہے۔ ابھی وہ اپنے لفظوں کو ترتیب دے ہی رہا تھا کہ سڑک کے سامنے سے آتی تیز روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا گئی۔ اس پر روشنی ڈالنے والا جو کوئی بھی تھا اب قدرے پھرتی کے ساتھ آگے آرہا تھا، روشنی کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ بوڑھا آدمی اپنی آنکھوں کو ہاتھوں کی مدد سے ڈھاپنے کی کوشش کررہا تھا۔ اور چند لمحوں بعد اس کو اپنے قریب سے آواز سنائی دی۔

" کون ہو بابا تم! اوررات کے اس پہر یہاں کھڑے کیا کر ہے ہو"، وہ اس سوسائٹی کا چوکیدار تھا جو یہاں کا چکر لگانے کے لیے آیا تھا اور اب اس اجنبی بوڑھے کو دیکھ کر اس سے پوچھ گچھ کررہا تھا۔

"بیٹا میں بس جا ہی رہا تھا یہاں سے"، اس نے آہستہ آواز میں جواب دیا۔

" کیا کسی کے ہاں چوری کے ارادے سے آئے تھے؟ پر شکل سے لگتے تو نہیں آپ ایسے۔"

اس کی بات سن کر وہ اپنی جگہ لرز ک کر رہ گیا کیوں کہ یہ بات تو وہ کسی بھی حال میں نہیں سوچ سکتا تھا۔

" نہیں نہیں بیٹا! میں کوئی چور نہیں ہوں نہ یہاں پر کسی غلط ارادے سے آیا تھا میں تو ۔۔۔۔۔ میں تو۔۔۔۔"، اورپھر ہچکیوں کے ساتھ اس نے پوری روداد اس کو سنا ڈالی تھی۔

"اچھا بابا آرام سے آرام سے، ایک کام کریں آپ آئیں میرے ساتھ تھوڑا پانی شانی پئیں پھر جتنی رقم کی آپ کو ضرورت ہے میں آپ کو دے دیتا ہوں اتفاق سے آج ہی مجھے اپنی تنخواہ ملی ہے۔"، اس نے مسکراتے ہوئے ہلکے پھلکے لہجے میں ان کو مخاطب کر کے کہا۔

اور وہ بوڑھا آدمی حیرت سے، خوشی سے بھر پور چہرہ لیے اس کو تک رہا تھا۔ اس نے تو ابھی اپنی فریاد اس رب کائنات کے آگے صحیح سے بیان بھی نہیں کی تھی کہ مدد آن پہنچی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر یہ کام وہ پہلے ہی کر لیتا تو اتنی ذلت نہ اٹھانی پڑتی لیکن اب وہ اپنے رب کے آگے سجدہ ریز تھا جس نے غیب سے اس کی مدد فرما دی تھی۔ بے شک جو صرف اپنے رب کے آگے ہاتھ پھیلائے گا وہ کبھی رسواء نہیں ہوگا۔
 

Zubia Majid
About the Author: Zubia Majid Read More Articles by Zubia Majid: 4 Articles with 5518 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.