خواتین کا عالمی دن ،عورت مارچ اور ہمارا معاشرہ۔۔۔!

 اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی معاشرے میں غریب اور ان پڑھ، محنت مزدوری کرنے والی خواتین تو سرے سے ہی اس دن سے ناواقف ہیں۔ وہ نہیں جانتیں کہ مغربی دنیا نے ان کے مسائل سے آگہی اور محنت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے عالمی دن مختص کر رکھا ہے۔ ان خواتین سے ہٹ کر ایک طبقے کی خواتین یہ دن پورے جوش و جذبے سے مناتی ہیں۔ یہ خواتین یا تو ہر معاشی فکر سے بے پروا، ایلیٹ کلاس سے منسلک ہیں یا بڑی عمر کی خواتین جو خاندان کے جھمیلوں سے آزاد ہیں۔یا وہ نوجوان غریب ومتوسط طبقہ کی خواتین جو پڑھ لکھ کر حقوق نسواں کی تنظیموں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی وہ آزاد صنف نازک ہیں جو خود کو صنف نازک کہلانے سے نفرت کرتی ہیں یا اپنی روایات و اقدار کو فراموش کرکے کسی نئی دنیا کی تلاش میں نکلی ہیں۔ مغربی خواتین کی آزادی سے متاثرہ خواتین اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ جس راستے کی تلاش میں یہ نکلی ہیں اس کی منزل اولڈ ہوم تک جاتی ہے۔

پہلا بنیادی سوال یہ ہے کہ جن خواتین نے آزادی کے لیے عورت مارچ کیا،مردوں کو اپنے حقوق کا غاصب قرار دیا،احتجاجاً ہر اس کام کی نفی کی جو عورت کو اس کی معراج تک لے جاتا ہے۔ان خواتین کے یہ سارے اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ آزاد ہیں ہر قسم کی بات اور عمل کرنے کے لیے، اب اور کونسی آزادی ہے جس کی وہ طلب گار ہیں۔؟ آزادی مگر کس سے۔؟ روایات سے، معاشرتی اقدار سے، گھر سے، اپنے عورت پن سے، اپنے خمیر میں بے پناہ خدمت اور محبت کے جذبے سے، رشتوں کی زنجیر سے، مرد کے تحفظ سے، اپنے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے سے۔

یوم خواتین میں پاکستانی خواتین کے اصل مسائل کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔ کاروکاری، ونی،وٹہ سٹہ، قر آن سے نکاح، تعلیم کا حق، لڑکیوں کی خرید و فروخت، وراثت میں حصہ، بچیوں سے جنسی زیادتی، جنسی ہراسانی، علاج معالجے کی مناسب سہولیات اور نان نفقہ جیسے معاملات، پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے پورشن بڑھانے، دفاتر کے ساتھ ڈے کئیر سینٹر بنانے اور اہم پوزیشنز پر عورتوں کی تقرری۔

آج کی عورت ہر شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے۔ ملک عزیز کی ان گنت خواتین دنیا کے لیے قابل تقلید مثال ہیں۔ انہوں نے یہ مقام اور مرتبہ اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے حاصل کیا، اس کے لیے انہیں دوپٹہ اتارنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ صنف مخالف پر طعنہ زنی کی۔

مولانا محمد جہان یعقوب معروف سکالر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے عالمی دن کا شورت مچا ہوا ہے ۔یہ دن مغرب سے ہمارے ہاں آیا ہے۔اس دن کومنانے کاجوٹرینڈ چل رہا ہے،وہ بھی مغرب کا ڈیزائن کردہ ہے۔چناں چہ خواتین کے عالمی دن شمعیں روشن کی جاتی ہیں،واکس کا اہتمام کیا جاتاہے،مخلوط محافل منعقد کی جاتی ہیں اور کانفرنسوں،سیمینارزاور ورک شاپس میں خواتین کی عظمت اجاگر کرنے کے بجائے اس دین کو سب سے زیادہ تنقید وتعریض کا نشانہ بنایا جاتا ہے،جس نے عورت کو حقوق کسی بھی دین ودھرم اور ملت ومذہب سے زیادہ دیے۔اسے عزت کا مقام ومرتبہ دیا۔بیٹی ،ماں،بہن ،بیوی ہرروپ میں اسے عظمت وبلندی کی معراج پرپہنچایا۔اسے تصویر کائنات کی رونق قراردیا،ماں ہونے کی حیثیت سے اس کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی ہے ۔دو بیٹیوں کی اچھی پرورش اور نکاح کرنے والے کو نبی کریم ﷺ نے جنت میں اپنا ساتھی بتایا،شوہر کی فرماں برداری پر اسے جنت کی سند دی کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے،اسے میراث میں مردوں کی طرح شریک ٹھہرایا،اسے ذاتی ملکیت کا حق دیا،اس کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت اﷲ کے پیارے حبیب ﷺ نے اپنی حیات طیبہ کے ایک ایک لمحے میں اپنے قول وعمل سے تو کی ہی،دنیا سے پردہ فرماتے ہوئے بھی اسے نہیں بھولے۔

ایسی سنہری اور ابدی تعلیمات جن سے اہل مغرب اور مرتدین بھی روشنی حاصل کرتے پیں انہیں چند مغرب زدہ خواتین عورت کی آزادی کے مارچ کی سرگرمی میں یکسر فراموش کردیتی ہیں آخر کیوں؟۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اب بھی غیرجانب دارغیرمسلم تک اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کی عصمت وعزت کا جو تحفظ کیا ہے،اور اس کے لیے معاشرے میں وقار سے جینے کی جو راہیں متعین کی ہیں،وہ اسلام ہی کا خاصہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغرب ویورپ کی خواتین اب بھی اسلام ہی کو اپنی جائے پناہ سمجھتے ہوئے ایک بھاری تعداد میں اسلام قبول کررہی ہیں۔اعداد وشمار سے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس دن کی مناسبت سے خواتین کی عظمت اور ان کے مقام کو اجاگرکیا جائے،اسے معاشرے میں عزت ووقار سے جینے کا سبق دیا جاتا،جہاں جہاں معاشرتی رسوم ورواج کی جکڑ بندیوں میں عورت کا استحصال ہورہا ہے ،اس کی نشان دہی کی جاتی۔۔۔لیکن مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ اصل ایجنڈا خواتین کی عظمت ہے ہی نہیں ۔اصل ایجنڈا تو اسلام کی تعلیمات کو نشانہ بنانا اور ملک میں خواتین کے حوالے سے ہونے والے منفی رویوں کو،اگرچہ واہ آٹے میں نمک کے برابر ہی کیوں نہ ہوں،اجاگر کرناہے،چاہے اس کے لیے رائی کا پہاڑ ہی کیوں نہ بناکر پیش کرنا پڑے،کہ وہاں سے عطا وانعام اسی بات کے ساتھ مشروط ہے۔جس معاشرے میں عورت کی حیثیت محض ایک شو پیش یاجنسی ضرورت پوری کرنے کے ایک آلے کی سی ہو،وہ خواتین کی عظمت اور ان کے حقوق کو کیا جانے۔جس معاشرے اور تہذیب نے حقوق کے نام پر عورت پر گھر داری کے ساتھ ساتھ ملازمت کا اضافی بوجھ بھی ڈال دیا ہو،اسے عورت کے حقوق سے کیا سروکار۔سو ،ان کی ڈکٹیشن پر نکالے جانے والے جلوسوں ،محافل ومجالس اور پروگرامز میں عورت کے اصل حقوق اور ان کے سب سے بڑے محافظ اسلام کی بات کیوں کی جائے گی!۔

کون نہیں جانتا ،کہ این جی اوز کو تو ایسی عورتوں کی تلاش رہتی ہے،جسے مظلوم بناکر ڈالربٹورے جاسکیں،نہ کہ ایسی خواتین کی جو ایک باعزت زندگی گذاررہی ہوں۔یہاں تو ہر سال نئی نئی مختاراں مائی،ملالہ اور اس نوع کے مختلف کردار تلاشے ہی نہیں ،تخلیق بھی کیے جاتے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ’’ ہمار جسم ہماری مرضی ‘‘ جیسے بے ہودہ سلوگن لے کر اسلامی معاشرے ہی میں نہیں مغربی معاشرے میں بھی سڑکوں پر آنا بھی معیوب سمجھا جارتا ہے ۔اگر پاکستان میں بھی کلبوں کی شاموں کو رنگین بنانے کی آزادی مانگی جارہی ہے تو عملاً ڈھکے چھپے انداز مین ہو تو ایسا ہی رہا ہے صرف ایسے مراکز کے باہر تیز روشنیوں والے نیون سائن بورڈز کی کمی رہ گئی ہے جس کی بہر حال اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ پاکستان کی عدلیہ نے بھی عورت آزادی مارچ کے حوالے سے حدود و قیود کا تعین کیا ہے اور منتظمین کی طرف سے یقین دہانیاں بھی کرائی گئی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ 8 مارچ کو پاکستان کی سڑکوں پر اس کا کس ڈھٹائی سے جنازہ نکالا جاتا ہے ؟۔

Hanif Lodhi
About the Author: Hanif Lodhi Read More Articles by Hanif Lodhi: 51 Articles with 57725 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.