تحریر محمد عدنان فدا سعیدی . ...
تاریخ گواہ ہے عورت ایک عرصہ دراز سے مظلوم چلی آرہی تھی . دنیا کے ہر خطہ
میں بڑی بڑی تہذیبوں نے عورت کو ہر طرح کی ایذا پہنچائی. یونان ، مصر ، چین،
ہند اور عرب تہذیبوں نے عورت کے ساتھ انتہائی برا سلوک روا رکھا . بائبل کے
نام نہاد سکالرز نے عورت کو کمتر بنا کر پیش کیا اور گناہوں کا سبب قرار
دیا.دوسری صدی قبل از مسیح کی کتاب اکلیزی اسٹیکس میں لکھا گیا کہ " گناہ
کی شروعات تو عورت نے کی مگر مرنا ہم سب کو پڑتا ہے " اس جیسے کئی ایسے من
گھڑت بیانات جو طلطلیان وغیرہ نے دیئے کی وجہ سے عورت پر ظلم و ستم کو جائز
قرار دیا گیا .اس پر جبر و تشدد سے بھی گریز نہ کیا گیا.ان کا دعوی تھا کہ
"انسان کی تمام مصیبتوں کی جڑ عورت ہے".یونانی معاشرت میں عورت تمام حقوق
سے محروم تھی۔ ان کے اساطیری ادب (Mythology) میں ایک خیالی عورت پانڈورا (pandora)کو
انسانی مصائب کا موجب قرار دیا گیا
. قبل از اسلام معروف تہذیبوں نے ایسے جلسوں کا انعقاد کیا کہ جس میں یہ
فیصلہ کرنا تھا کہ آیا عورت انسان بھی ہے یا نہیں . کوئی اور مخلوق تو نہیں
تمام مقررین کے بیانات و دلائل کے بعد بہرحال یہ فیصلہ طے پاتا کہ عورت
انسان ہی ہے.. واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ
اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے .ہندو تہذیب میں شوہر کی چتا پر بیوہ کو جلایا
جاتا تھا. چین میں عیش و عشرت کی غرض سے فروخت کیا جاتا تھا اور عرب میں
انتہائی اذیت ناک سزا دی جاتی تھی جسے زندہ درگور کرنے سے تعبیر کیا جاتا
ہے.
جن رشتوں سے ازدواجی تعلقات دنیا کے متمدن علاقوں کے باشند ے ہمیشہ نا جائز
اور غیر قانونی سمجھتے رہے ہیں اور فطری طور پر اس سے نفرت کرتے
ہیں،ایرانیوں کو ان کی حرمت و کراہت تسلیم نہیں تھی ۔ یزدگرد دوم جس نے
پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں حکومت کی اس نے اپنی لڑکی کو زوجیت میں رکھا
پھر قتل کردیا ۔ بہرام جو چھٹی صدی عیسوی میں حکمراں تھا اس نے اپنی بہن سے
اپنا ازدواجی تعلق رکھا ۔‘‘
الغرض کسی بھی تہذیب نے عورت کو مقام انسانیت سے گرا کر حیوان کی منزل تک
لا کھڑا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نا رکھی. اگرچہ بعد میں چند ایک تہذیبوں نے
عورت کو کسی حد تک بنیادی حقوق دینے پہ سوچ و بچار کیا سماجی حقوق دیے مگر
عورت پھر بھی مظلوم و مقہور رہی . یہ جو مغرب آج عورت کی آزادی و خود
مختاری کا دم بھرتا ہے یہی پابندیاں لگانے میں پیش پیش تھا انگلینڈ کے
آٹھویں بادشاہ ہینری 8 نے اپنی پارلیمنٹ میں یہ قانون پاس کیا تھا کہ عورت
انجیل مقدس کو نہیں ہاتھ لگا سکتی کیونکہ وہ ناپاک و نجس ہے. عورت کو
ارتقائے تہذیب نے بھی وہ مقام نہ دیا جس کی مستحق تھی حتی کہ عورت کو ناپاک
و کمتر سمجھ کر اس کی مزید تحقیر کی گئی. عورت کی عزت و مرتبہ سبھی اسلام
کی مرہون منت ہے.سب سے پہلے اسلام نے عورت کو تحفظ دیا جو لڑکی کی پیدائش
پر منہ چھپائے پھرتے تھے ان کو نوید سنائی گئی کہ لڑکی کی پیدائش تو باعث
رحمت ہے . جو لڑکی زندہ درگور کی جاتی تھی وہاں انہیں بتایا گیا کہ لڑکی کی
اچھی طرح پرورش کرنے والا اسے زندہ درگور نہ کرنے والا اس کی اچھی تعلیم و
تربیت کرنے والا جنت میں رسول اکرم شفیع مکرم کے ساتھ ہوگا..جس عورت کا
وجود موجب ذلت و عار تھا اس عورت کو اسلام نے ماں کی صورت میں پیش کرتے
ہوئے کہا کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے. جس عورت کو ناپاک سمجھ کر نجس
قرار دیا جاتا تھا اسے بیوی کی صورت میں بہترین خزانہ بنا کے پیش کیا گیا.
جس معاشرے میں بیٹی کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اس معاشرے میں رسول
اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی لخت جگر سیدہ طیبہ طاہرہ سیدہ فاطمہ
زہرہ کے استقبال کے لئے خود کھڑے ہوکر پیغام دیا کہ لوگو بیٹی تو رحمت
خداوندی کا موجب ہے بیٹی تو جہنم کی آگ سے نجات کا ذریعہ ہے باپ کے لیے
رحمت ہے.
سوائے اسلام کے کسی بھی تہذیب نے عورت کو اس کا صحیح مقام و مرتبہ نہیں
دیا. اسلام نے زندگی کے تحفظ سے لیکر وراثت تک کے حقوق دیئے. مرد کے شانہ
بشانہ عورت کو لا کھڑا کیا عزت و اکرام سے جینے کا حق دیا اور مرنے کے بعد
تک احترام کا وہ سلسلہ عطا کیا کہ صاحب فہم و فراست عش عش کر اٹھے.
رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عورت کا وہ مقام بیان فرمایا کہ عورت
بیٹی کے مقدس روپ میں رحمت ہی رحمت نظر آئی. عورت بیوی کی صورت میں بہترین
خزانہ دکھائی دی. عورت ماں کے روپ میں جنت میں داخلے کا ذریعہ بن گئی.عورت
بہن کے روپ میں پاکیزہ محبت کا سرچشمہ نظر آئی..عورت کو معاشرے میں قابل
احترام بنانے والی تہذیب کا نام ہی اسلام ہے .
اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر وسیع تر
عزت و احترام سے نوازا. بیوی کو محض جنسی تسکین و گھر کے کاموں کے لیے
"استعمال" کرنے والوں کو بتایا گیا کہ یہ گھر کی زینت ہے گھر کی شان ہے
پیٹھ پیچھے تمہاری عزت و ناموس کی پاسبان ہے اس پہ ظلم و زیادتی کی بجائے
الفت و انس سے لگن پیدا کی جائے. یہ محکوم نہیں یہ مقہور نہیں یہ مغلوب
نہیں بلکہ تمہارے گھر کی شان ہے تمہاری رفیق حیات ہے جس کی دنیا شوہر سے
شروع ہوکر شوہر پر ہی ختم ہوتی ہے. رسول معظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر
کے کام کاج میں ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹاتے ، حتی کہ کپڑے پر خود پیوند لگا
لیتے ، جوتے کی اصلاح فرما لیتے اور پھٹا ہوا پانی کا ڈول درست فرما
دیتے.(صحیح ابن حبان 5676). جب ماں کے احترام کی بات آتی ہے تو سنت رسول
عربی ہمیں وہ نظارہ دکھاتی ہے کہ وہ چادر جس کی قسمیں اللہ کریم نے قرآن
میں اٹھائیں وہ مدثر کی چادر وہ مزمل کی چادر رضاعی ماں سیدہ حلیمہ سعدیہ
کے بیٹھنے کے لیے بچھا دی جاتی . رضاعی بہن کا مقام نبی محتشم نے خوب ظاہر
فرمایا کہ جب سیدہ حلیمہ سعدیہ کی بیٹی سیدہ شیما اپنے قبیلے کے جنگی
قیدیوں کی رہائی کا اظہار فرما دیں تو بغیر فدیہ کے جنگی قیدی چھوڑ دیے
جاتے ہیں. اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا جس کی تمنا ہزاروں سالوں سے سے
مقہور و مظلوم عورت کرتی رہی. اگر آج کوئی کہے کہ اسلام نے محدود حقوق دیے
تو یہ بات سراسر غلط ہوگی . موجودہ مغربی تہذیب نے عورت کو گمراہ کرنے کا
جال خوب بچھایا عورت کو نام نہاد آزادی کے نعروں سے فحاشی تک لانے میں اہم
کردار ادا کیا . خود مختاری کی آڑ میں باپ اور شوہر کے آئینہ اعتماد کو
کرچی کرچی کرکے رکھ دیا.میرا جسم میری مرضی جیسے بےہودہ و فحش نعروں نے اس
مغربی تہذیب کی گندی ذہنیت کا پول کھول کے رکھ دیا. حقوق نسواں کے بل
پارلیمنٹ میں اس انداز سے پیش کیے گئے کہ گویا مرد محکوم ہے اور عورت حاکم
ہے . عورت کا جو من چاہے کرے اگر مرد نے پوچھ لیا تو سزا کا مستحق. آج
مختلف غیر ملکی این جی اوز کے ذریعے عورتوں کو سڑکوں پر تماشہ بنا کے پیش
کیا جاتا ہے کبھی تو وہ میرا جسم میری مرضی کا راگ الاپتی نظر آتی ہیں کبھی
حقوق نسواں مجھے آزادی چاہیے کے نعروں سے خود کو "روشن خیال" ثابت کرتی نظر
آتی ہیں. یہ مغربی تہذیب نے کس موڑ پہ لا کھڑا کیا ہے ہمیں یہ اندھی تقلید
ہمیں کس گہری کھائی میں لیے جا رہی یے کبھی سوچا ہے؟ کبھی غور کیا یے کہ یہ
تہذیب ہمیں ہماری مذہبی اقدار سے کتنا دور لے جا چکی ہے .کہاں رہ گئی مشرقی
روایات کی پوٹلی کہاں رہ گیا حجاب کا آئینہ کہاں گئی وہ شرم و حیا وہ اپنی
ناموس کی حفاظت کا ولولہ تو یقینا ہمیں قرطاس وقت پہ یہ دل دوز حقائق لکھے
ملتے ہیں کہ مشرقی روایات کا خزانہ مغربی تہذیب کے ڈاکوؤں نے لوٹ لیا .حجاب
کے آئینے کو ماڈرن فیشن کی آڑ میں پاش پاش کردیا گیا. شرم و حیا کو فحش
گوئی و فحاشی نے نگل لیا اور ناموس کی حفاظت کا خیال تو ایسے غائب ہوا جیسے
گدھے کے سر سے سینگھ. خدارا غور کیجئے کس سمت میں ہم جارہے ہیں .کس تہذیب
کی اندھی تقلید ہم پر مسلط کی جارہی ہے وہی تہذیب جس نے عورت کے کمتر و نجس
قرار دیا تھا وہی عورت کے حقوق کی بات کرے گی وہی تہذیب عورت کو معاشرے میں
باعزت بنائے گی جس میں ابھی تک عورت کو صرف اور صرف" یوز" کیا جاتا ہے .
اپنی نسلوں کو سنبھالیے اپنے آپ کو سنبھالیے بچائیں خود ایسی تہذیب سے جس
کا مقصد عورت کو استعمال کرنا ہے نا کہ حقوق دینا جس کا مقصد عورت کو جنسی
تسکین کے لیے استعمال کرنا ہے نا کہ قابل احترام بنانا... اسلام سے بڑھ کر
کوئی تہذیب عورت کو اس کا اصل مقام نہیں دے سکتی یہ بات روز روشن کی طرح
عیاں ہے کہ سبھی تہذیبوں نے عورت کو کمتر و ناپاک سمجھا باعث عار گردانا
سوائے اسلامی تہذیب کے جس نے عورت کو وہ مقام دیا وہ مرتبہ دیا جس کی حقدار
تھی- |