اسلام کے سوا دوسرے تمام مذاہب خاص قوموں اور محدود
زمانوں کے لئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم تمام بنی نوع انسان کے لئے مبعوث کئے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے
فرمایا۔ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ
جَمِيعًا کہ آپ اعلان کردیں کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف رسول ہوکر
آیا ہوں۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا۔ کَانَ النَّبِیُّ
یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً وَ بُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ کَافَّۃً۔ کہ
پہلے نبی اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوا کرتے تھے مگر میں سب قوموں کی طرف
مبعوث ہوا ہوں۔ آپؐ نے ساری قوموں کو دعوتِ اسلام دی اور سب کو پیغام حق
پہنچایا۔آج دنیا بھر میں اہل ایمان ایک ارب85 کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں،
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہر طرح کی نعمتوں سے بھی مالا مال کیاہے ،
انسانی صلاحیتیں بھی بے مثال ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عصر حاضر میں
مسلمان انتہائی پرالم وپرخطر حالات سے دوچار ہیں کہ ہرجانب سے دشمنوں کا ان
پر تسلط ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہر میدان میں تنزلی کی جانب جا رہے ہیں۔ ان کا
رعب ختم ہوتا جا رہا ہے۔ عددی لحاظ سے زیادہ ہونے کے باوجود اپنے سے کئی
گنا کم دشمن کے زیر دست ہیں۔ اغیار کی ذہنی غلامی کر رہے ہیں۔ ان کی زبان،
رسم و رواج ، ثقافت اور انداز معاشرت کو اختیار کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔
ان کی باتوں میں اثر ہے اور نہ ہی کہیں شنوائی ہوتی ہے۔
کفار تو شروع زمانے سے ہی اسلام کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ
حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا﴾ (البقرة:217)ترجمہ:
اور ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر
بن پڑے ۔
یہود و ہنود اور نصاری مسلمانوں کے کبھی خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ اسلام کا
عروج انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ مسلمان اپنے دین کو
چھوڑ کر دنیا کی محبت اختیار کر لیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ انکی سازشوں کا
مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟
اس کا جواب قرآن و حدیث سے معلوم کریں تو پتا چلتا ہے کہ امت مسلمہ پر واجب
ہے کہ دین میں کوتاہی چھوڑ دیں اور احکام الہیہ کو بجا لائیں۔ایک حدیث میں
ہے۔”إِذَا عَصَانِي مَنْ يَعْرِفُنِي سَلَّطْتُ عَلَيْهِ مَنْ لا
يَعْرِفُنِي‘‘ ترجمہ: اگر وہ میری نافرمانی کرے جو مجھے جانتا ہے (یعنی
مسلمان اور نیکوکار) تو میں اس پر اسے مسلط کردوں گا جو مجھے نہیں جانتا
(یعنی کافر اور فاسق وفاجر))۔
ہمارے سامنے بنی اسرائیل کی مثال موجود ہے۔یہ اللہ کی بڑی پسندیدہ قوم تھی۔
اللہ تعالیٰ نے انکو تمام جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی تھی۔سورۃ البقرۃ میں
ہے۔﴿يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ
عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾. ترجمہ:اے اولاد
یعقوب یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ اس سارے زمانہ
پر تمہیں بڑائی دی-
لیکن جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کی اور معاشرے میں
بگاڑ پیدا کیا تو ان پر ذلت و رسوائی مسلط کر دی گئی.﴿وَضُرِبَتْ
عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ
ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ
النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا
يَعْتَدُونَ﴾. ترجمہ: اور ان پر مقرر کر دی گئی خواری اور ناداری اور خدا
کے غضب میں لوٹے یہ بدلہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور
انبیاء کو ناحق شہید کرتے یہ بدلہ تھا ان کی نافرمانیوں اور حد سے بڑھنے
کا-
انکو سزا یہ ملی کہ اللہ تعالیٰ نے انکو ذلیل ترین قوم بنا دیااور انہیں
دھتکارے ہوئے بندربنا دیا۔﴿فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ﴾.
ترجمہ: تو ہم نے ان سے فرمایا کہ ہو جاؤ بندر دھتکارے ہوئے۔
انکے قصہ میں ہمارے لیے واضح سبق موجود ہے کہ اگر ہم نے بھی انکی روش
اختیار کی تو ہمارا انجام بھی انکی طرح ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کی اصلاح کے لیے جو حل قرآن پاک میں ارشاد فرمایا
ہے اس میں غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ خود قوم کو چاہیے کہ انفرادی اور
اجتماعی سطح پر اپنی اصلاح احوال پر توجہ دیں۔اپنے مسائل کا ادراک کریں پھر
انکے اسباب تلاش کریں،
اسکے بعد ان کے تدارک کے لیے کوشش کریں۔اللہ تعالی کافرمان ہے: ﴿إِنَّ
اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ
وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ
مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ﴾(الرعد: 11)ترجمہ:بیشک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت
نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں ، اور جب کسی قوم سے برائی
چاہے تو وہ پھر نہیں سکتی، اور اس کے سوا ان کا کوئی حمایتی نہیں۔
اس عظیم مقصد کے لیے معاشرے کے ہر ذی شعور فرد کو ذمہ دار بنایا گیا
ہے۔انفرادی سطح پر ہر صاحب ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کواور پھر
اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچانے کا اہتمام کرے۔قرآن پاک میں ہے۔﴿يَا
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ
نَارًا﴾.ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے
بچاؤ۔
اسی طرح ذمہ داری کے بارے میں صحیح البخاری میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ہے۔"تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے (اس کی رعیت کے بارے
میں) سوال ہو گا۔ پس امام حاکم ہے اس سے سوال ہو گا۔ مرد اپنی بیوی بچوں کا
حاکم ہے اور اس سے سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے مال کا حاکم ہے اور اس سے
سوال ہو گا۔ غلام اپنے سردار کے مال کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہو گا ہاں
پس تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہو گا۔"
اسلام کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کے لیے ہم چند نکات میں امت مسلمہ
کی اہم ذمہ داریوں کو بیان کرتے ہیں جن کو عملی شکل دینے سے اسلام کا رعب و
دبدبہ بحال کیا جا سکتا ہے۔
نبی اکرمﷺ کے ساتھ رشتے اور تعلق کی مضبوطی
عشق وہ والہانہ جذبہ ہے جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کو
دوسری اقوام سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کو ایک جست میں
بلندی اور آفاقیت تک لے جاتا ہے۔ اس قوت سے یقین و ایمان میں پختگی آتی ہے۔
اور اسی جذبے کے ساتھ مسلمانوں نے نصف دنیا پر حکومت کی ہے۔
عشقِ مصطفےٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لبریز فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے
علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
ہر کہ عشقِ مصطفےٰ سامانِ اوست
بحر و بردر گوشہ دامانِ اوست
مغرب غلامان مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس قیمتی متاع پر ہمیشہ
ڈاکے ڈالنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ان کے سامنے مسلمانوں کو فتح کرنے میں
حائل سب سے بڑی رکاوٹ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مضبوط تعلق
اور رشتہ ہے۔ وہ اس رشتے کو کمزور سے کمزور کرنے کے لیے ہر وقت سوچ و بچار
میں مشغول رہتے ہیں اور نت نئے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ مغرب کی اسی سازش
کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ فرماتے ہوئے کہا تھا۔
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیںکبھی
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
خود علامہ اقبال عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا قیمتی
سرمایہ قرار دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
قوت واسباب تیار رکھنے کا حکم
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طاقتور مومن کو کمزور مومن سے بہتر قرار
دیا ہے۔ اسی طرح طاقتور قوم بھی کمزور قوم سے بہتر ہوگی۔اس لیے مسلمان
حکومت کو بھی ہر وقت قوت و طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے اپنی فوج کو تیار
رکھنے کا حکم فرمایا گیا۔اس لیے مسلمان حكمرانوں کو چاہیے کہ وہ ہر وقت
بہترین فوج، مناسب اسلحہ اور کارگر قوت مدافعت تیاری رکھیں تاکہ دشمنان دین
کی آنکھ میں ڈال کر بات کریں اور انکی ہر سازش کو ناکام بنائیں۔جیسا کہ
اللہ تعالی نے حکم ارشاد فرمایا ہے:﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ
مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ
وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ
يَعْلَمُهُمْ﴾ (الانفال: 60) ترجمہ: اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت تمہیں
بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو
اللہ کے دشمن ہیں اور ان کے سوا کچھ اوروں کے دلوں میں جنہیں تم نہیں جانتے
اللہ انہیں جانتا ہے ۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ فوج کی تیاری کا مقصد اللہ کے دشمن کو خوفزدہ
کرنا ہے نہ کہ آپسی اختلافات کے لیے استعمال کرنا۔ مسلمانان عالم پر کہیں
بھی ظلم و ستم ہورہا ہو، ان کو غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جارہا
ہو تو وہاں مسلمانوں کی فوج کو متحد ہو کر دشمن کا دشمن کا مقابلہ کرنا
چاہیے تاکہ کوئی بھی اسلام اور مسلمان کی طرف میلی نظر اٹھا کر نہ دیکھ سکے
اور اسلام کا رعب و دبدبہ قائم رہ سکے۔یہ بھی معلوم ہوا مسلمانوں کو چاہیے
کہ جغرافیائی سرحدوں کی بجائے نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کریں ۔دشمن کی آنکھ
میں آنکھ ڈال کر سینہ تان کر مقابلہ کریں۔
پس غلبہ اسلام کی مہم کیلئے ایسے ہی جاں نثاروں اور مجسمہ ایمان ویقین
افراد کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ زندہ ایمان ویقین ہی اس منزل پر پہنچنے کا
پہلا اور بنیادی مرحلہ ہے۔
اتحاد و اتفاق
امت مسلمہ کی اکثریت چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منقسم ہو چکی ہے۔ یہ تمام گروہ
باہم برسر پیکار ہیں اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ نتیجتا
اسلام کا رعب و دبدبہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔اسلام دشمن قوتیں،استعمار و اغیار
مکر و فریب سے غلبہ پا رہے ہیں۔غلبہ دین کے راستے مسدود کرکے آسمانی آفات
در آ رہی ہیں اور نت نئے مسائل ، بحران اُمت کو پارہ پارہ کررہے ہیں۔
حکیم الامّت ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے اس مرض كى تشخيص كرکے علاج بھی بتایا
ہے ۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی،دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرم بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
باہمی انتشاروافتراق کی یہ صورتحال مسلمانوں کے زوال کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس
بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی شان و شوکت کا راز مسلمانوں کے اتحاد و
اتفاق میں ہی مضمر ہے۔جہاں بھی اسلام پر آنچ آرہی ہو وہاں امت مسلمہ کو
یکجان ہو کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَاعْتَصِمُوا
بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ (آل عمران:103)ترجمہ: اور
اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں نہ
بٹ جانا)۔
اور اس انتشاروافتراق کے عواقب کی طرف بھی راہنمائی فرمائی ہے۔ سورۃ
الانفال میں ہے۔﴿وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ
وَاصْبِرُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ﴾(الانفال: 46) ترجمہ: اور
آپس میں جھگڑ و نہیں کہ پھر بز د لی کرو گے اور تمہاری بندھی ہوئی ہوا جاتی
رہے گی اور صبر کرو، بیشک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔
غلبہ اسلام کا مشن باقاعدہ اور منظم روحانی فوج کا تقاضا کرتا ہے ۔﴿اِنَّ
اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا
کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ﴾ترجمہ: "بیشک اللہ دوست رکھتا ہے انہیں
جو اس کی راہ میں لڑتے ہیں پرا (صف) باندھ کر گویا وہ عمارت ہیں رانگا
پلائی (سیسہ پلائی دیوار)۔"ایسی ہی فوج کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے۔﴿ اَ
لَا اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغَالِبُوْنَ ﴾۔ کہ بیشک اللہ ہی کا گروہ
غالب ہے۔
احسن طریق سے تبلیغ
مذاہب عالم کے بانیان و علماء اپنے مذاہب کی تبلیغ اپنے بیانات اور عقلی و
نقلی دلائل سے کرتے ہیں ۔ان کے بیانات کی تردید اوران کے مقابل اسلام کے
معقول اور دل پر اثر کرنے والے دلائل کا جاننا اور ان کا بہترین رنگ میں
دنیا کے کناروں تک ،تمام بنی نوع انسان تک پہنچانا یہ غلبہ اسلام کے لیے
ایک ضروری امر ہے۔ قرآن مجید فرماتا ہے۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ
أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ
الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ کہ مسلمان اس لئے خیر امت ہیں کہ وہ
لوگوں کو نیکی کاحکم دیتے ہیں اور بدیوں سے روکتے ہیں ۔پس تبلیغ اسلام ہر
مسلمان کا فرض ہے ۔ اپنے اپنے دائرہ میں ہر مسلمان کو پیغام حق دوسروں تک
پہنچانا چاہیے۔
قرآن پاک ہمیں یہی پیغام بھی دے رہا ہے۔﴿وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ
أَحْسَنُ﴾۔اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو۔
پس یہ دلائل معلوم بھی ہونے چاہئیں اوران کے عمدہ طور پر پیش کرنے کا طریق
بھی جاننالازمی ہے ۔ اس لیے نت نئے اٹھنے والے سوالات کے جدید انداز سے
جواب دے کر اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے دن رات سرگرم عمل رہنا
چاہیے۔
دنیاوی آسائشوں سے پرہیز
انگریزی میں ایک محاورہ ہے۔ “ MONEY IS THE ROOT OF ALL EVILS”یعنی مال
ودولت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ یہودونصاری چونکہ مسلمانوں کے ابدی دشمن ہیں
اس لیے وہ اس ادنیٰ سی دنیا کو ہمارے نوجوانوں کے لیے خوب سے خوب تر اور
خوشنما بناکر پیش کرتے ہیں اور انکو عیش پرستی کے سمندر میں غرق کرنے کی
کوشش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد مسلمانوں کو فضول اور بے معنی کاموں میں مبتلا
رکھنا ہے تاکہ انہیں اپنی کھوئی ہوئی شان وشوکت کی واپسی کی کوششوں کا کوئی
موقع باقی نہ رہے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے بازاروں کو عیش پرستی اور
بے حیائی کے سامانوں سے سجادیا ہے اور وہاں اسبابِ عیش و عشرت کا انبار لگا
دیا ہے ۔ جس سے عام لوگوں کے دل و دماغ متاثر ہوکر دنیا اور عیش پرستی کی
طرف مائل ہوجاتے ہیں ۔
نبی اکرم ﷺنے چودہ صدیوں پہلے اس خدشہ کا اظہار فرما دیا تھا۔ امام ابو
داؤد نے اپنی سنن میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث نقل کی ہے،کہتے
ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:"قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ
پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں"، تو ایک کہنے والے نے
کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:"نہیں؛ بلکہ تم اس
وقت بہت ہوگے،لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے
دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں "وہن" ڈال دے
گا"، تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول ! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے
فرمایا:"یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے"۔
رسول اللہ کی مذکورہ پیش گوئی مسلمانوں کے لیے پیغام عبرت ہے۔ امت مسلمہ
پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دنیاوی آساشات و لذات سے منہ موڑ کر فقر و
غنا کی روش اختیار کریں۔اسی میں امت کی بھلائی ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ مسلمانوں میں ایسے جانبازوں کا
گروہ ہروقت موجود رہنا چاہیٔے جو اپنی زندگیوں کو اشاعت اسلام کے لئے وقف
کردیں۔ دن رات ان کا ایک ہی کام ہو یعنی اشاعتِ دینِ اسلام ۔ اللہ تعالیٰ
فرماتاہے۔﴿وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ
وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ
هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾۔ترجمہ: اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ
بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں اور یہی
لوگ مراد کو پہنچے۔
پس غلبہ اسلام کے لئے بے لوث علماء کا وجود ہےضروری ہے جو ہمہ تن اس کام کے
لئے وقف ہوجائیں۔
اخلاقی اقدار کا تحفظ
اسلام میں شرم و حیاء کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ، یہ درحقیقت ایک اسلامی
معاشرے کی بنیادی شناخت ہے ۔ سرور کائنات حضرت محمد ﷺکاارشاد گرامی
ہے’’حیاء ایمان کابنیادی شعبہ ہے ،جب تم حیاء کو کھودو تو جو چاہے کرو
‘‘۔۔۔انسانی زندگی سے شرم و حیاء معدوم ہوجائیں تو ایسی قوم اور افراد کی
کوئی قدر و منزلت نہیں ہوتی ۔ آج کا دور ، بدتہذیبی ،عریانی ، بے حیائی کو
فروغ دینے کا دور ہے ۔
اشاعت اسلام کے لیےوقف ِ زندگی
اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ مسلمانوں میں ایسے جانبازوں کا
گروہ ہروقت موجود رہنا چاہیٔے جو اپنی زندگیوں کو اشاعت اسلام کے لئے وقف
کردیں۔ دن رات ان کا ایک ہی کام ہو یعنی اشاعتِ دینِ اسلام ۔ اللہ تعالیٰ
فرماتاہے ۔﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ
وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ
وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ ۔کہ اے مسلمانو! تم میں ایک ایسی امت
اور جماعت ہونی چاہیٔے جو قرآن مجید کی طرف دعوت دیتی ہو۔ امر بالمعروف
اورنہی عن المنکر ان کاکام ہو۔ یہی لوگ کامیاب ہوں گے۔
قلم اور کتاب کے ساتھ مضبوط تعلق
ازروئے قرآن مجید غلبۂ اسلام کے لئےقلم کا استعمال بہت ضروری ہے ۔غارحراء
میں سیدِ ولدِ آدم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی اس
میں ارشاد باری ہے۔﴿ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ﴾ ترجمہ:" اور تمہارا رب ہی سب سے
بڑا کریم، جس نے قلم سے لکھنا سکھایاآدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔"
اسلام دلیل وبرہان کا مذہب ہے ۔ ادیان باطلہ پر غلبہ کا اصل ذریعہ قلم ہے
تلوار نہیں ۔
نیک نمونہ
غلبۂ اسلام یا اشاعت دین کا قول وفعل ، تقریر وتحریر کے علاوہ مؤثر ترین
ذریعہ نیک نمونہ ہے۔ اولین مسلمانوں کے نیک نمونوں نے ہی کافروں کے دل فتح
کئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ
تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ
تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ﴾۔ترجمہ : اے ایمان والو وہ بات کیوں کہتے
ہو جو کرتے نہیں،کیسی سخت ناپسند ہے اللہ کو وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔
اصل تبلیغ نیک نمونہ سے ہی ہوتی ہے اور یہ اشاعت اسلام کا بہترین ذریعہ ہے۔
صوفیاء اسلام کی یہی روحانی کشش لاکھوں انسانوں کو اسلام میں داخل کرنے کا
موجب ثابت ہوئی ۔
اگر امت مسلمہ ان نکات پر غور کرے اور انفرادی و اجتماعی سطح پر ہر فرد
اپنی ذمہ داری محسوس کرے، اسلام کی سربلندی و شان و شوکت کو اپنا نصب العین
قرار دے، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق اور رشتہ کو
مضبوطی سے قائم رکھے، معاشرے میں انفرادی و اجتماعی سطح پر حکومت و عوام ہر
ایک دشمنان اسلام کی سازشوں کا غیرت و حمیت کے ساتھ مقابلہ کریں تو کوئی
بھی طاقت ان کو غلبہ اسلام سے نہیں روک سکتی۔
|