پھوپھا اور بہنوئی

کسی بھی تحریک یا تنظیم کو اگر کامیاب کرنا ہے تو اس میں اراکین کی تعداد سے زیادہ مخلص ،ایک دوسرے پر فوقیت دینے والے، رضائے الٰہی کیلئے قربانیاں دینے والے اورجزائے خیر کی امید رکھنے والے لوگوں کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ ایسے لوگوں کے بغیر کوئی بھی تحریک یا تنظیم کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اکثرشادیوں یا دیگر تقاریبات میں کچھ لوگ ایسے دکھائی دیتے ہیں جنہیں پھوپھا اوربہنوی کے طور پر نشاندہی کی جاتی ہے۔ یہ لوگ عام طور پر شادی کی تقریب میں بلا وجہ خلل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اوروہ سوچتے ہیں کہ انکے بغیر شادی نہیں ہوگی اورنہ ہی دلہن کی رخصتی ہوگی۔ان لوگوں کا سوال رہتا ہے کہ فلاں کام ہم سے پوچھ کر نہیں کیا گیا ، فلاں فیصلہ ہمارے بغیر ہی کرلیا گیا، فلاںرسم میں ہمیں کوئی پوچھنے والانہیں تھا ، ہمیں دلہے والوں نے عزت نہیں دی، ہمیں دلہن کے یہاں مخصوص کھانا نہیں کھلایا گیا۔ اسطرح کی شکایتیں عام طور پر ہوتی ہی رہتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے شادی تو ہوہی جاتی ہے مگر جو مزا شادی کا آنا چاہئے وہ نہیں آتا۔بالکل ایسے ہی پھوپھا اوربہنوی ہر پارٹی ، تنظیم اور تحریک میں پائے جاتے ہیں اوروہ سمجھتے ہیں کہ انکے بغیر کوئی کام ہوہی نہیں سکتا۔ ملک بھر میں این آرسی، سی اے اے اور این پی آرکے خلاف جو تحریک چل رہی ہے وہ محض اس وجہ سے سست رفتار سے چل رہی ہے کہ جن لوگوں نے قوم کی رہبری کا بیڑا اٹھایا تھا وہ اسی طرح کے گلے شکوئوں میں مصروف ہیں۔ اگر اخلاص سے کام کرنے والے 50 فیصد قائد ہر تنظیم ہوجاتے تو یقیناًبہت بڑا کام ہوسکتا تھا، لیکن یہاں اخلاص سے کام کرنے والوں کی تعداد کم ہے بلکہ گل پوشی، شال پوشی اوراسٹیج پر جگہ اور مائک کا نشہ کرنے والے لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں۔ چھوٹے سے نام کیلئے بڑے بڑے جلسے واحتجاجات اورپروگرام تباہ کردیتے ہیںاوراسطرح کی غلط بیانیاں شروع کردیتے ہیں کہ جیسے کہ وہ سنگھ پریوار کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ملک میں جاری قوانین کی وجہ سے حالات بالکل اسطرح کے ہونے والے ہیں جسطرح روز محشر کے تعلق سے ہم بات کرتے رہے ہیں۔ اگر یقیناً سب کو عہدے چاہئے، سب کو اقتدار چاہئے، سب کو مائک چاہئے لیکن یہ سب اسی وقت مل سکتے ہیں جب کہ ہم اخلاص سے کام کرتے ہوئے جو مدعا لےکر چلے ہیں اسے حل کرلیا جائے۔ سی اے اے ، این آرسی کے تعلق سے جو احتجاجات ہورہے ہیں وہ احتجاجات صدفیصد ہمارے لئے جہاد کی طرح ہیں اوراس میں فی سبیح للہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کامیابی کتنی ملےگی اورکامیاب کون ہوگا یہ خالق کائنات ہی بہتر جانتا ہے ، لیکن نتائج کی فکر کرتے ہوئےہمارے حقیقی کام کو چھوڑ دینا درست نہیں ہے ، این پی آر اورسی اے اے کے خلاف جو لوگ احتجاج کررہے ہیں اورجن لوگوں نے قربانیاں دی ہیں ان قربانیوں کو رائے گاں ہونے دینا نہیں چاہئے، بڑی مشکل اوربڑی دیر کے بعد ملک میں مسلمانوں نے دوسری قوم کے لوگوں کو ساتھ لیکر احتجاج کا جھنڈا اٹھایا ہے اگر ہم اورآپ محض احتجاج کے جھنڈے کی بنیا دکو دیکھتے بیٹھیں تو یقیناً اسکے بڑے نقصانات ہوسکتے ہیں، آنے والی نسلیں ہمیں مورد الزام ٹھہرائے گی اورآنے والی نسلیں ہمیں بالکل اسی طرح غدار، منافق، ڈروپوک، بزدل اورجاہل کے طور پر دیکھے گی جسطرح سے آج ہم میر صادق کو دیکھ رہے ہیں۔ اب سڑکوں پر پھر ایک مرتبہ اترنا ہوگا، کام کرنا ہوگا، صرف کام کرنا ہوگا، پھوپھا وبہنوی کو نظرانداز کریں اوراپنی آنے والی نسلوں کے تعلق سے سنجیدگی سے کام کریں۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.