امریکہ طالبان امن معاہدہ

اﷲ اکبر کے نعروں میں امریکہ اور طالبان نے طویل عرصہ سے امن مذاکرات کے بعد معاہدہ قطر پر دستخط کر دئیے ہیں۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ قطر کے اہم نکات:
٭امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کی سرزمین سے اندر 14ماہ میں تمام غیر ملکیوں بشمول عسکری، نیم عسکری، ٹھیکیدار، نجی سیکیورٹی اہلکار اور مشیران کا انخلا مکمل ہوگا۔
٭امریکہ اتحادیوں سمیت پہلے135دنوں میں فوجیوں کے انخلا کو یقینی بنائے گا۔
٭امریکی اور اتحادی 5ملٹری بیس سے اپنی تمام فوج کو ہٹالیں گے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی ساڑھے 9ماہ کے دوران ملٹری بیس سمیت افغانستان کے تمام حصوں سے باقی ماندہ فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔
٭بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے پہلے روز یعنی 10مارچ 2020کو طالبان کے 5ہزار اور طالبان کی قید میں موجود ایک ہزار قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی۔
٭بین الافٖغان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی امریکہ، افغانستان پر عائد تمام پابندیوں سے متعلق نظرثانی شروع کر دے گا اور 27اگست2020تک پابندیاں ختم کر دے گا۔
٭بین الافٖغان مذاکرات کے ساتھ ہی امریکہ، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے سفارتی سطح پر رابطہ قائم کر کے 29مئی 2020تک اس امرکو یقینی بنائے گا کہ افغانستان کے خلاف عائد کردہ تمام پابندیاں ختم کر دی جائیں۔
٭امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کی سیاسی وریاستی خودمختاری کے خلاف بیان بازی سے گریزاں رہیں گے۔
٭طالبان اپنے یا کسی بھی گروہ یا انفرادی شخص بشمول القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہو۔
٭طالبان واضح طور پر پیغام دیں گے کہ امریکہ اور اتحادیوں کو سیکیورٹی رسک دینے والوں کے لئے افغانستان میں کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔
٭طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی عسکری ٹریننگ اور جنگجوؤں کی بھرتی کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
٭طالبان بین الاقوامی مائیگریشن قوانین کی پاسداری کریں گے۔
٭طالبان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے خطرہ سمجھے جانے والے شخص، گروہ اور تنظیم کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اخراجات یا قانونی دستاویزات فراہم نہیں کریں گے۔

یہ تھے معاہدے کے وہ نکا ت جس پر طالبان کے نمائندے ملا عبدالغنی اور امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان امن عمل زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے۔ امن معاہدہ پر دستخط سے متعلق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقدہ تقریب میں طالبان، افغان حکومت، قطر، امریکہ اور پاکستانی حکام نے خصوصی شرکت کی۔

ہمیں یہاں اس امر کو بھی نہیں بھولنا چاہئیے کہ سرزمین افغانستان سے کوئی بیرونی جارح ملک پہلی دفعہ معاہدہ کرکے مسلمہ شکست کے ساتھ اپنا بوریا بستر گول نہیں کر رہاہے۔ بلکہ 19ویں صدی میں اسی نوع کا ایک معاہدہ اس وقت سپر پاور برطانیہ اعظمیٰ بھی افغانوں سے کر چکا ہے اور بعدازاں20ویں صدی کے اختتام سے محض بارہ سال قبل اسی طرح کا ایک معاہدہ1988ء میں جنیوا میں سویت یونین اور افغان مجاہدین کے درمیان بھی ہوا تھااور اب تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرارہی ہے اور اب اس وقت کی عالمی سپر طاقت امریکہ اور اس کے اتحادی نہتے بوریا نشین افغانوں کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے امن معاہدے کی بھیک مانگ کر یہاں سے ذلت ورسوائی کے ساتھ رخصتی کی تیاری میں مصروف کار ہے۔

یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2001ء میں امریکی سربراہی میں ایک بین الاقوامی اتحاد نے جس میں نیٹوسمیت 48ممالک کی افواج موجود تھیں، القاعدہ کو پناہ دینے کے الزام میں طالبان حکومت کو ختم کرکے بون معاہدہ کے تحت پہلے تین سال تک امریکہ اور بھارت نواز حامد کرزئی کی قیادت میں ایک عبوری افغان حکومت قائم کی بعد ازاں افغانستان میں ایک نیا صدارتی آئین نافذ کر کے اس کے تحت 2004ء 2009ء 2014ء اور اب سابقہ الیکشنز کی طرح جعلی فرضی2019ء کے صدارتی انتخابات کراکر پھر اسی امریکہ اور بھارت نواز اشرف نخی کو دوبارہ صدر بنادیا گیا ہے۔تاہم گزشتہ تمام انتخابات میں طالبان کو حق الیکشن سے محروم رکھا گیا۔ ان گزشتہ بیس سالوں میں طالبان نے بھی ایک لمحے کے لئے نہ تو امریکہ بہادر اور اس کی اتحادی افواج کو سانس لینے کا موقع دیا اور نہ ہی اس کو کٹھ پتلی افغان حکومتوں کو اور نہ ہی اس کی پروردہ سیکیورٹی فورسز اپنا کنٹرول ممکن بنا سکی ہیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلے بیس برسوں کے دوران ہر آنے والا دن طالبان کی فتح اور دیگر ممالک روس، چین، پاکستان، ایران، قطر، یواے ای میں سفارت کاری میں اضافہ ہوا ہے اس کے برعکس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست کا سامنا رہا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ افغان امن معاہدہ اپنا کردارادا کرے یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ بہادر کو پاکستان کا سہارا لے کر طالبان سے امن معاہدے کی بھیک مانگنی پڑی ہے۔ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس وقت بھی افغانستان کے ایک بڑے رقبے پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ ایف ڈی ڈی لانگ وار جرنل کے مطابق طالبان ملک کے 70اضلاع پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں، جبکہ 190اضلاع ایسے ہیں جہاں حکومت اور طالبان میں جنگ جاری ہے یعنی وہ بھی حکومتی تعریف میں نہیں ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں جبکہ طالبان کا مؤقف رہا کہ وہ امریکہ سے براہ راست بات کریں گے کیونکہ افغان حکومت امریکہ اور بھارتی کٹھ پتلی ہیں۔ امریکہ نے بالٓاخر طالبان کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز 2018ء میں کیا تھا جس میں پاکستان، قطر اور بعض دیگر اسلامی ممالک کا ایک کلیدی کردار رہا۔ اس مجوزہ امن معاہدے کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کا تمغہ اگلے صدارتی الیکشن سے قبل ہر حال میں اپنے سینے پر سجانا چاہتے ہیں جس کا وعدہ انہوں نے گزشتہ انتخابی مہم کے دوران بڑی شدومد سے کیا تھا۔ تاہم کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ پیش رفت امن معاہدہ کے باوجود زیادہ امید افزا نہیں ہے۔کیونکہ یہ کوئی جامع معاہدہ نہیں اس کے بارے میں فی الحال وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ افغانستان امن بحالی کے لئے ہے یا فقط امریکی اتحادی افواج کے انخلا کی راہ ہموار کرنے یا امریکی صدارتی الیکشن کے لئے کیا اس معاہدے سے امریکہ اپنی مسط کردہ جنگ کو ختم کر سکے گا؟ کیا اس معاہدہ کے بعد افغانستان میں امن ممکن ہے؟ کیا اس معاہدہ کے بعد افغان حکومت کو تسلیم کر لیا جائے گا؟ کیا گمبھیر صورتحال میں آخر طالبان کو کہاں اور کیسے ایڈجسٹ کیا جائے گا؟ کیا اس معاہدہ سے افغانستان کے اندرون گرہوں میں تنازعات ، مذاکرات سے حل ہو جائیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جس کا فوری جواب دینا مناسب نہیں اس لیے ہمیں آنے والے دنوں کا انتظار کر نا ہوگا۔۔۔

Muhammad Idrees Jami
About the Author: Muhammad Idrees Jami Read More Articles by Muhammad Idrees Jami: 26 Articles with 22170 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.