"اسلام علیکم۔۔آنٹی۔۔! "
ڈور بیل بجنے پر امی نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے نادیہ کھڑی تھی۔
"وعلیکم السلام بیٹا۔!آؤ اندر آجاؤ۔۔" امی نے دروازے کے آگے سے ہٹتے ہوئے
اسے راستہ دیا۔
"رمشا کہاں ہے آنٹی؟: اندر آتے ہوئے نادیہ نے سوال کیا۔
"اپنے کمرے میں ہے۔آجاؤ۔"وہ آگے آگے چلتے ہوئے رمشا کے کمرے کی طرف
بڑھیں۔نادیہ بھی ان کے پیچھے ہی چل پڑی۔
"رمشا..!نادیہ آئی ہے۔"امی نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوتے
ہوئے کہا۔
رمشا جو گود میں لیپ ٹاپ لیے صوفے پر بیٹھی تھی۔نادیہ کو دیکھ کر
مسکرائی۔لیپ ٹاپ میز پر رکھا کھڑی ہوئی اور نادیہ سے گلے لگ کر ملی۔
"کیسی ہو؟"ساتھ ہی سوال بھی کیا۔
"میں ٹھیک ہوں۔تم بتاؤ..!کیا حال ہے۔؟"نادیہ نے جواب کے ساتھ سوال بھی کیا۔
"ٹھیک"مختصر سا جواب دے کر اس نے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔"بیٹھو..!"
"کالج ختم ہونے کے بعد غائب ہی ہوگئی ہو تم۔کیا ہوا ہے۔؟"نادیہ نے بیٹھتے
ہوئے اس سے پوچھا۔
"بس یار..!کچھ نہیں..! یونہی..!"اس نے اکتاہٹ کے ساتھ جواب دیتے ہوئے بات
کو ٹالنے کی کوشش کی۔
"پھر بھی..! سب خیریت تو ہے نہ..!ایسا کیا ہوا ہے جو تم گھر پر ہی بیٹھ گئے
ہو.."مگر نادیہ نے بات کو ٹالنے نہیں دیا۔"دعوت، پکنک،پارٹی..کہیں نہیں آتی
جاتی ہوا کیا ہے آخر...؟"سوال کو مکمل کیا۔مگر لہجے میں پریشانی در آئی
تھی۔
"ہونا کیا ہے یار!"اکتاہٹ بھرے انداز میں اس نے کہنا شروع کیا۔"یہ جو میرے
گھر والے ہیں نہ ایسا لگتا ہے 1947 سے اٹھ کر آگئے ہیں۔"لہجے میں غصہ شامل
ہوگیا تھا۔"ہر بات پر ٹوکنا۔ہر چیز سے منع کرنا۔"وہ دل برداشتہ ہونے لگی۔
نادیہ بغور اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔"تفصیل سے بتاؤ گی۔کیا ہوا ہے۔"
_____∆∆∆_____∆∆∆_____
کیا ہوا ہے۔۔۔!؟
وہ نک سک سے تیار آئینے پر آخری نظر ڈال کر مسکرائی۔وہ شادی پر جانے کے لیے
مکمل تیار تھی۔بس چوڑیاں رہ گئی تھیں جنھیں وہ پہنتے ہوئے کمرے سے باہر
نکلی۔
"بھائی جلدی کریں۔مجھے مریم کی شادی پر چھوڑ کر آئیں۔"
صوفے پر لیٹے ہوئے موبائیل چلاتے ہوئے بھائی نے موبائیل پر سے نظر اٹھا کر
اس کو دیکھا۔اٹھ کر بیٹھا۔:"ایسے جاؤ گی تم۔۔!"ہاتھ سے اشارہ کر کے گویا
اسکے حلیے پر سوال کیا۔
اس کے چہرے کا زاویہ بدلا."کیا مطلب۔۔۔؟ایسے۔۔؟"تنک کر اسی انداز میں ہاتھ
سے اپنی طرف اشارہ کر کے کہا۔
"مطلب! ایسے۔۔شریف لڑکیاں ایسے ہی نہیں منہ اٹھا کر نکل پڑتیں":جواب امی نے
دیا تھا۔جو نہ جانے کب اس کے پیچھے آ کر کھڑی ہوگئی تھیں۔ اور اس جواب پر
اس کا پارہ چڑھ گیا تھا۔
"یہ تھان لپیٹا ہوا تو ہے۔ابھی بھی شریف نہیں لگ رہی۔۔۔!! شفون کے دوپٹے کو
جو کندھوں پر پھیلایا ہوا تھا دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ماں کو دکھاتے ہوئے
انتہائی غصے سے کہا۔
"نہیں۔۔!"امی کی آواز بھی اب اونچی ہوگیٔ۔"جاؤ اندر سے جاکر چادر اوڑھ کر
آؤ۔چلو۔۔!"
"ہر بار ایسا ہی کرتی ہیں آپ میرے ساتھ۔۔۔!میں نے نہیں پہنی چادر۔۔!"اس کا
لہجہ بھی سخت تھا۔
"بغیر چادر کے تو تم جاؤ گی بھی نہیں۔۔۔!"وہ بھی ماں تھیں اسکی۔۔۔
"میں نے جانا ہی نہیں ہے۔۔!"وہ غصے سے کہہ کر پیر پٹختی ہوئی واپس پلٹ گئی۔
"اس کا دماغ کیوں اتنا خراب ہوگیا ہے۔"اس کے جانے کے بعد بھائی نے امی کی
طرف دیکھ کر سوال کیا۔
"اللہ جانے..! کیا ہوتا جارہا ہے اسے۔۔۔ ہاتھوں سے ہی نکلی جارہی ہے۔"امی
نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے فکرمندی سے کہا۔
"گھر میں بٹھائیں اس کو۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں ہے اس کو آگے پڑھانے کی۔"اب کی
بار بھائی نے غصے سے دو ٹوک فیصلہ کھڑکایا۔
______∆∆∆_____∆∆∆_____
کیا ہوا ہے۔۔۔!؟
وہ لاؤنج میں داخل ہوئی۔تو ابا صوفے پر بہٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔
"ابا! مجھے شاپنگ پر جانا ہے۔!" اس نے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
"ہمم۔۔!جب کہو تب چلتے ہیں۔"ابا نے اخبار سے نظر ہٹائے بغیر جواب دیا۔
"نہیں ابا!وہ مجھے اپنی فرینڈز کے ساتھ جانا ہے۔"اس نے وضاحت کی۔
"اچھا۔!ابا نے اب نظریں اخبار سے ہٹا اس کی جانب موڑیں۔"کب جانا ہے۔؟"
"ابھی۔؟"اس کے چہرے پر خوشگواری چھائی۔کہ ابا کا یہ سوال ان کی نیم رضامندی
کو ظاہر کرتا تھا۔
"ابھی!"حیرت سے ابا نے بھویں سکیڑیں۔"اس وقت تو شام ہورہی ہے بیٹا۔!"حیرت
کی وجہ سامنے آئی۔
"جی۔! کیونکہ اس کے بعد باہر ڈنر کا پلان بھی ہے۔!"اس نےوضاحت دے کر بات کو
بگڑنے سے بچانے کی کوشش کی۔
"بیٹا!اسوقت لڑکیوں کا اکیلے باہر گھومنا پھرنا کچھ مناسب نہیں ہے۔"ابا نے
پریشان کن لہجے میں جواب دیا تھا۔
"اکیلی کہاں ہیں۔۔!ہم پانچ دوستیں ہیں۔۔!"وضاحت جاری تھی۔
"تو اکیلی لڑکیاں ہی ہیں نہ۔۔!گھر بلا کر مل لو۔سب کو ڈنر بھی کروا
دینا۔۔!"بات بگڑ چکی تھی۔
"آپ کو اپنی بیٹی پر بھروسہ نہیں۔۔!"جذباتی ہربہ استعمال کیا گیا۔
"اپنی بیٹی پر ہے۔ مگر اس معاشرے پر نہیں۔۔۔!"دوٹوک انداز نے اس ہربے کو
ناکام کر دیا۔
"معاشرے کے ڈر سے ہم گھر بیٹھ جائیں۔آور یہ معاشرہ دلیر بنتا جائے۔۔!
اختلاف نے اس کے ذہن میں جنم لیا۔
"معاشرے کو دلیر۔۔ ہمارا ڈر نہیں۔!ہماری لا پرواہی بناتی ہے۔!"ابا نے اس کے
اختلاف کو رد کیا۔
"آپ بھائی کو نہیں روکتے۔۔۔کیوں۔۔؟اس نے دل برداشتہ ہو کر سوال کیا
تھا۔"کیونکہ وہ لڑکا ہے۔۔!"جواب بھی اس نے خود ہی دیا۔پرانا اعتراض تھا۔مگر
تھا۔۔!
"بلکل۔۔!"ابا کی آواز سخت ہوگئی۔۔"ہر ایک کی اپنی حدود بنائی گئی ہیں۔اور
ہمیں ان کو فولو کرنا ہوگا۔یہی فطرت کا قانون ہے۔۔۔اور تمہاری حدود تمہارا
گھر ہے۔۔!"آخری جملے پر زور دیا گیا۔۔پرانی دلیل تھی۔مگر تھی۔۔!
"مگر یہ برابری نہیں ہے ابا۔۔۔؟"دکھ کے ساتھ کہتی ہوئی وہ اٹھ کر چلی
گئی۔۔۔۔ابا نے اسے جاتے ہوئے دیکھا۔۔"غلطی کہاں ہوئی ہے۔۔!" لمبی سانس لیتے
ہوئے وہ سوچنے لگے۔۔۔
______∆∆∆______∆∆∆______
"اُف۔۔۔!!تمہارے پیرنٹس بھی اتنے کنزرویٹو مائنڈڈ ہیں۔!سوری ٹو سے
یار۔۔مگریہی پرانی اور فرسودہ سوچ ہے۔۔جو ہماری ترقی کی راہ میں حائل
ہے۔۔!"رمشہ کی داستان سن کر نادیہ نے پہلے حیرت سے اور پھر افسوس سے کہا۔
"تم ویسٹرن کنٹریز کو دیکھو۔۔! عورتوں کو مردوں کی برابری حاصل ہے ہے تو کس
قدر ترقی یافتہ ہیں وہ لوگ۔۔۔اور جو ممالک ان کے پیچھے چل پڑے ہیں اب وہ
بھی کامیابی کے آسمان پر ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں۔۔مگر ایک ہم ہیں وہی
پرانی یا گھسی پٹی سوچ۔۔۔!"نادیہ کا انداز اب سمجھانے والا ہوگیا۔
"دیکھو یار۔۔! عورت کو بھی فریڈم آف رائیٹ ہونا چاہیے۔۔!"وہ جیسے اسے
رضامند کرنا چاہتی تھی۔
"تم صحیح کہہ رہی ہو.. مگر کیا کر سکتے ہیں ہم۔۔؟؟اس نے گہری سانس لے کر
کہا۔
"بہت کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ عورت جاگ چکی ہے۔تعلیم یافتہ ہو چکی ہے۔اپنے
حقوق سے باخبر ہے۔ اور اپنے حقوق لینا بھی جانتی ہے۔"نادیہ نے پرجوش انداز
میں فوراً جواب دیا۔
"تمہیں پتا ہے۔۔! جس این جی او کو میں نے جوائن کیا ہے۔وہ ایسے ہی پروگرامز
آرگنائزڈ کرواتی ہے۔ جس میں عورتوں کو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی دی
جائے۔اور ہم اس عورت مارچ میں بھی پارٹیسیپیٹ کر نے والے ہیں۔۔"وہ مدعے کی
بات پر آ چکی تھی۔
"اس سے کیا ہوگا۔۔؟"وہ اب بھی مایوسی کا شکار تھی۔
"چینج آئے گا۔۔!ابھی نہ سہی آہستہ آہستہ ہی۔۔! آخر قطرہ قطرہ ہی سمندر بنتا
ہے۔۔۔ اور ایک دن آئے گا جب مرد اور عورت کے حقوق میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
جاتے جاتے اپنے حصے کی نیکی کرتے جائیں۔۔ اپنے حصے کا دیپ جلاتے جائیں۔"
نادیہ نے جذباتی کارڈ کھیلا۔
"تم صحیح کہتی ہو۔! اب آواز اٹھانی ہوگی۔۔!"کارڈ چل گیا۔۔
"میں کل تمہارے ساتھ چلوں گی ۔"اس نے فیصلہ کرلیا۔۔
"ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے۔آزادی کی اس تحریک میں کہیں تو میں بھی اپنا حصہ
ڈالوں۔۔۔کہیں تو میرا بھی نام ہوگا۔۔کہیں تمہیں بھی یاد کی جاؤں گی۔۔"
اس نے سوچا تھا۔۔۔مگر دل پر اب بھی کوئی بوجھ تھا۔جو ہلکا نہیں ہورہا
تھا۔۔کہیں اب بھی کوئی راز تھا۔جو افشاں نہیں ہو رہا تھا۔۔۔کچھ کھویا
ہواتھا جو مل بھی نہیں ر ہا تھا۔۔
______∆∆∆______∆∆∆______
اگلی ہی صبح وہ نادیہ کے ساتھ جاکر این جی او جوائن کر آئی تھی۔
جہاں اسے میڈیا ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔۔کیونکہ وہ زیادہ تر باہر آ جا
نہیں سکتی تھی اس لئے فی الحال گھر بیٹھ کر ہی وہ ان کا ساتھ دے گی۔۔۔!
وہ پرامید تھی۔۔۔یا ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔۔دل کا بھاری پن ابھی بھی ویسا
ہی تھا۔
"ہماری محنت رنگ لائے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔!"اس نے خود کو تسلی دی
تھی۔۔۔۔جھوٹی ہی سہی۔۔!
_______∆∆∆_____∆∆∆_______
مغرب ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی اور اندھیرے نے تقریباً سب کو اپنی لپیٹ میں
لے لیا تھا۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھی اپنی گود میں لیپ ٹاپ رکھے۔۔بس اسے دیکھ
رہی تھی۔۔۔اسکی چمکتی اسکرین میں کچھ کھوج رہی تھی تھی۔۔کچھ ڈھونڈ رہی
تھی۔۔وہی جو گم ہوگیا تھا تھا۔۔!جو مل نہیں رہا تھا۔۔۔! کیا۔۔؟؟ معلوم بھی
نہیں ہو پارہا تھا۔۔۔!
موبائل کی گھنٹی پر وہ چونکی۔۔! جو سامنے میں اس پر رکھا بج رہا تھا۔۔اس نے
فون اٹھا لیا۔
"ہائے۔۔! کیسی ہو۔؟"دوسری طرف سے آواز آئی تھی۔اس نے پہچان لیا۔وہ میڈیا
ٹیم کے مینیجر تھیں۔
"میں ٹھیک ہوں ۔۔!آپ بتائیں۔!"مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"کام کا وقت آگیا ہے۔۔!"دوسری طرف سے ہنستے ہوئے کہا گیا۔۔
"جی جی آپ بتائیں کیا کرنا ہے۔۔؟"اس نے بھی قدرے مسکرا کر کہا۔
"ہاں! تم ایسا کرو کہ ان تمام خواتین کے بارے میں انفارمیشن کلیکٹ
کرو۔جنہوں نے مردوں کی شانہ بشانہ کھڑے ہو کر کام کیا ہے اور ہسٹری میں
اپنا نام بنایا ہے
اور اس پر ایک پریزنٹیشن تیار کرو۔۔" ٹھیک۔۔۔!"دوسری جانب آواز سنجیدہ
ہوگئی تھی۔
"جی جی ٹھیک۔۔! میں سمجھ گئی۔۔"اس نے فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا۔
"اور ہاں! یہ پوائنٹ بھی ہائی لائٹ کرو کہ ان تمام عورتوں نے معاشرے کے
جاہلانہ قوانین کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔۔! اور یہ پروو کیا کہ عورت چھپ
کر اور دب کر رہنے والی چیز نہیں۔۔!بلکہ وہ مردوں کی طرح ہر کام کر سکتی
ہے۔مگر اس کے لئے اسے اتنی ہی آزادی چاہیے جتنی ایک مرد کو حاصل ہے۔ اور یہ
اس کا حق ہے۔۔!"مزید ہدایات دی گئیں۔۔۔
"بلکل۔۔! میں تیار کر لیتی ہوں۔ پھر آپ کو دکھاتی ہوں۔۔!"اس نے سمجھتے ہوئے
کہا۔۔
"دیٹس گڈ۔۔۔ اوکے۔۔۔بائے۔۔"دوسری طرف سے سے مسکراتے ہوئے الوداع کیا گیا۔۔
"خدا حافظ.."اس نے کہتے ہوئے فون رکھ دیا۔۔۔
بھاری دل کے ساتھ اس نے لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلانا شروع کیں۔۔
"دنیا کی بڑی تحریکوں میں حصہ لینے والی خواتین"
لکھ کر اس نے سرچ کیا۔
صفحہ کھلتے ہی اس پر کچھ تصاویر آئیں۔جن پر اس کی نظر رک گئی۔
قائد اعظم اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ کھڑی وہ واحد خاتون۔۔۔۔وہ بھی ۔۔برقعے
میں۔۔؟؟
"یہ کون ہے۔۔یہاں کیا کر رہی ہے۔۔؟ہم تو ااس کے بارے میں کچھ نہیں
جانتے۔۔!" اس نے سوچا۔۔۔تجسس بڑھا۔کچھ دیر کی محنت سے نام مل گیا۔۔"امجدی
بانو بیگم"۔۔۔اس نے زیرِ لب کہا۔کچھ دیر بیٹھی وہ اسے دیکھتی رہی۔۔!دل کا
بوجھ بڑھ گیا تھا۔۔!اسے نظر انداز کرنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔اسے لگ رہا تھا
کہ یہ خاتون کچھ کہہ رہی ہیں۔۔کوئی خاموش پیغام دے رہی ہیں۔۔مگر اسے سنائی
نہیں دے رہا۔۔آواز واضح نہیں ہو رہی تھی۔اس نے محسوس کیا۔کانوں پر بھی کوئی
وزن تھا۔۔پردے پڑ گئے تھے کیا۔۔۔؟اس نے بے اختیار کانوں کو ہاتھ لگایا۔وہاں
کچھ نہیں تھا۔۔!
سر جھٹک کر اسنے لیپ ٹاپ کے بٹن دبائے۔۔اسکرین پر "امجدی بانو بیگم" کا نام
آیا۔۔سرچ کے خانے پر کلک کیا۔۔"امجدی بانو بیگم"کون تھیں۔۔۔؟
معلوم ہوا۔۔۔۔!
اسنے لیپ ٹاپ کو بند کرتے ہوئے لمبی سانس لی۔۔!
"امجدی بانو بیگم۔۔!ایک با پردہ خاتون اور تحریک پاکستان میں اتنا اہم
کردار۔۔!پاکستان ریزولوشن کو نام دینے والی۔۔اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی
کسی درسی اور علمی کتاب میں کوئی ذکر ہی نہیں۔۔!طنزیا مسکراہٹ اس کے چہرے
پر آئی۔۔
"سوال یہ ہے کہ۔۔! فلاحی٫رفاعی اور سیاسی میدان میں جھنڈے گاڑنے والی اس
خاتون کے پردے نےکبھی اس کا راستہ کیوں نہ روکا۔۔۔؟"
"بات میں تاثر اور شعلہ بیانی۔۔!"اسنے لکھے ہوئے الفاظ دہرائے۔۔"کوئی
یونیورسٹی٫کالج یا کو ایجوکیشن نہیں۔۔!اس کے بعد بھی ایسا
کانفیڈینس۔۔!"سوالات ذہن میں پیدا ہونے لگے۔
"مسلم لیگ کی پہلی ورکنگ کمیٹی کی واحد خاتون میمبر۔۔!"اسکرین پر موجود
الفاظ اس کی آنکھوں میں ٹھہر گئے تھے۔۔۔"میمبر سے اختلاف نہیں۔۔۔!لیکن
برقع۔۔۔؟"ذہن نے پھر سوال اٹھایا۔
"مطلب قائد اعظم تو لندن سے پڑھ کر آئے تھے نہ۔۔! پھر انہوں نے ایک بیک ورڈ
خاتون میں کیا دیکھا۔۔؟؟اس نے اپنے اختلاف پر دلیل دی۔۔۔!
"گھر کی چار دیواری میں صرف مذہبی تعلیم حاصل کرنے والی عورت مردوں کے شانہ
بشانہ کیسے چل سکتی ہے۔۔؟"
"ایسی بہادری کیسے دکھا سکتی ہے۔۔۔!کہ دشمن بھی تعریف کرے۔۔۔!!سوالات ذہن
میں ایک کے بعد ایک اٹھ رہے تھے۔۔۔جوابات کون دے گا۔۔؟؟
"ہر ایک کی اپنی حدود بنائی گئی ہیں۔اور ہمیں ان کو فولو کرنا ہوگا۔یہی
فطرت کا قانون ہے۔۔۔اور تمہاری حدود تمہارا گھر ہے۔۔!"کہیں سے ابا کی آواز
کانوں میں گونجنے لگی۔۔
"گھر میں بٹھائیں اس کو۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں ہے اس کو آگے پڑھانے کی۔"بھائی
کی ڈانٹ یاد آئی۔۔
"تم ویسٹرن کنٹریز کو دیکھو۔۔! عورتوں کو مردوں کی برابری حاصل ہے ہے تو کس
قدر ترقی یافتہ ہیں وہ لوگ۔۔۔اور جو ممالک ان کے پیچھے چل پڑے ہیں اب وہ
بھی کامیابی کے آسمان پر ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں۔۔مگر ایک ہم ہیں وہی
پرانی یا گھسی پٹی سوچ۔۔۔!"نادیہ کی دیکھائی ہوئی وہ امید بھی ایک بار پھر
نظر آئی۔۔۔مگر یہ امید دھندلی سی تھی۔۔۔!
دماغ میں کشمکش چل رہی تھی۔۔"کون صحیح ہے اور کون غلط۔۔؟"کچھ سمجھ نہیں
آرہا۔۔۔!اس نے سوچا تھا۔۔۔!تھک کر اس نے سر کو صوفے سے ٹکا کر آنکھیں بند
کر لیں۔۔۔۔!
"محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو دکھلادے"
شفقت بھری۔مگر بارعب آواز اس کی سماعتوں میں اترنے لگی۔۔۔!
اس نے حیرت سے چونک کر آنکھیں کھولیں۔۔
اور اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔صوفے پر اس کے سامنے وہ خاتون
بیٹھیں تھیں۔برقع پہنے۔۔۔!
"آپ۔۔۔آپ۔۔۔آپ۔۔کون۔۔یہاں کیسے۔۔۔؟؟وہ ہچکچاتے ہوئے بڑی مشکل سے بول پائی
تو بس اتنا۔۔۔سمجھ بھی نہیں آراہا تھا۔۔۔وہ کون تھیں۔۔وہ جانتی تھی۔۔مگر
یہاں ۔۔!وہ ہکا بکا دیکھے جارہی تھی۔
"تڑپ شدید ہو تو زمزم کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔۔۔!"امید بھری آواز میں امجدی
بیگم نے کہنا شروع کیا۔
"ہر کوئی ہاجرہ تو نہیں ہوتی۔۔۔!"مگر اس بات نے اس کو جذباتی کردیا۔
"درست۔۔!ہاجرہ تو بس وہ ہوتی ہے جو اطاعت گزار ہو۔۔مالک کی رضا میں
راضی۔۔۔"امجدی بیگم نے اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے وضاحت بھی کردی۔
"مگر حکم تو خدا کا تھا۔۔۔!"اس نے فوراً تصحیح کی۔
"خلیل اللہ کی زوجہ تھیں۔۔۔!کہہ سکتی تھیں کہ کہیے اپنے دوست سے کیوں ڈالتا
ہے آپ کے بیوی بچے کی تکلیف میں۔۔؟مگر وہاں تو بس ایمان تھا۔!نہ کوئی
سوال۔۔!نہ کوئی اعتراض۔۔!!ان کے پاس بھی دلیل تھی۔
"پھر۔۔؟"وہ بلا ارادہ پوچھ بیٹھی۔۔کچھ تھا ان کی باتوں میں۔۔جو متاثر کرتا
تھا۔۔سننے پر مجبور کررہا تھا۔
"پھر کیا تھا۔۔؟صبر کے بیابان زمین پر زمزم سکون بن کر بہنے لگا۔۔۔!مسکرا
کر انہوں نے جواب دیا۔۔یہ مسکراہٹ دل میں اتر رہی تھی۔
"صبر اور اطاعت عورت ہی کے حصے میں کیوں ڈالا گیا ہے۔۔۔؟بات وہیں آکر رک
گئی۔۔"امجدی بیگم کا موقف بھی انہی تمام لوگوں جیسا ہے۔"اسے یہ اچھا نہیں
لگا تھا۔
"صبر تو نبیوں کی وراثت ہے۔اور اطاعت مومن کی میراث۔۔! کس قدر خوش قسمت ہے
وہ جس کے حصے میں یہ دونوں آجائیں۔۔!"انہوں نے اسے لاجواب کردیا۔
"عورت کی اطاعت مرد کو حاکمیت کے نشے میں مست کر دیتی ہے۔"اختلاف اب بھی
موجود تھا۔
"قصور اس تربیت کا ہے جس نے یہ غلط تاثر ڈالا ہے کہ مرد حاکم ہے۔قرآن نے تو
مرد کو قوّام کہا ہے۔۔۔! معاملات میں درستگی رکھنے والا۔۔ حفاظت و نگہبانی
کرنے والا ۔۔ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار۔۔! جواب بھی موجود تھا۔
"حفاظت و نگہبانی کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو چار دیواری میں قید کردیا
جائے۔۔؟"جواب سے سوال نکالنا ہماری قوم کو خوب آتا ہے۔
"ہرگز نہیں۔۔! اسلام تو عورت کو اس چار دیواری سے باہر لایا۔۔جہاں یا تو وہ
کونے میں پڑی ایک شے تھی یا دل بہلانے کا سامان۔۔!
اسلام نے جب اسے گھٹن زدہ ماحول سے نکال کر اپنی ذات سے روشناس کرایا تو
مکہ کی سرزمین پر بیٹھ کر ملکوں ملکوں تجارت کرتی ہے۔اور کہیں وہ صحابہ کو
دین کے اہم امور کی تعلیم دے رہی ہے تو کہیں وہ دلیری سے خیمے کی چوب اکھاڑ
کر یہودی کے سر پر دے مارتی ہے۔کہیں وہ بیٹھی ایک پیغمبر کو مشورہ دے رہی
ہے اور کہیں تو عالم یہ ہے کہ داخل ہوتی ہے اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم استقبال میں کھڑے ہو جایا کرتے ہیں۔"جوش سے انہوں کہا۔۔"اب تم ہی
بتاؤ۔۔۔! قیدیوں کے ساتھ ہوتا ہے یہ سلوک۔۔؟نرمی سے سوال کیا۔۔
اس کے سوال کے جواب میں اسے ایک سوال دیا گیا۔مگر اس سوال کا جواب اس کے
پاس نہیں تھا۔
مگر کچھ تھا اس کے پاس اس وقت ۔۔وہ جو کھوگیا تھا اب آہستہ آہستہ جیسے مل
رہا تھا۔وہ راز افشاں ہو رہا تھا۔۔
"اس طرح کی دلیلیں پیش کرکے جب وہ نکلتی ہے تو پھر اس کے لباس کو نشانہ
بنایا جاتا ہے۔۔ بقول اسلام کے ہر شعبے میں مرد کی برابری کرنے والی عورت
لباس میں مرد کی برابری کیوں نہیں کر سکتی۔۔؟
مدعا اب کھڑا ہوا تھا۔۔
"منع کس نے کیا ہے۔۔؟مگر جب وہ خود اس میں بھی کرپشن کرنے لگ جائے تو پھر
اعتراضات تو بنتے ہیں۔۔۔!"وہ امجدی بیگم تھیں۔۔۔اٹھتے ہوئے فتنوں کو بخوبی
جان لیا کرتی تھیں۔
"کرپشن۔۔لباس میں۔۔۔؟؟"وہ حیران ہوئی۔
"کرپشن جانتی ہو۔۔!کسے کہتے ہیں۔۔۔؟"انہوں نے اس سے پوچھا۔
"کسے۔۔؟"وہ جانتی تھی۔۔مگر کہہ نہ سکی۔۔۔کیونکہ اس نے تو بس دولت کی کرپشن
سنی تھی۔۔لباس میں کوئی کرپشن کیسے کر سکتا ہے۔۔؟وہ الجھن کا شکار تھی۔
"بے ایمانی۔۔!منافقت کی حد تک۔"وہ فتنوں کے خلاف آواز اٹھانا بھی جانتی
تھیں۔۔
"کیسی بے ایمانی؟ کس طرح کی منافقت۔۔؟"بات اب بھی اسے نہیں سمجھ آئی۔۔
"جو مرد تھری پیس سوٹ کو اپنی شان سمجھتا ہے۔۔اس کی برابری کرنے کے لئے وہ
خود کو برہنہ کر دیتی ہے۔۔! بھلا ہمیں کوئی بتائے۔۔! یہ کیسی برابری
ہے۔۔۔؟"وہ فتنوں کا خاتمہ کرنا بھی جانتی تھیں۔۔۔
سو انہوں نے کردیا۔۔۔ان سے جواب مانگا گیا تھا۔۔ انہوں نے دے دیا۔۔!
وہ خاموش ہوگئی۔۔چب چاب بس انہیں دیکھے گئی۔۔پھر کچھ کہنے کے لیے لب کھولے
ہی تھے کہ میز پر رکھا اس کا فون بجنے لگا۔اس نے جھپٹ کر فون کی طرف ہاتھ
بڑھایا۔جیسے وہ فون اٹھا کر بند کر دینا چاہتی تھی۔وہ فی الحال کسی چیز کو
اس بات چیت کے درمیان نہیں آنے دینا چاہتی تھی۔مگر تیزی کی وجہ سے ہاتھ زور
سے میز کو لگا۔زوردار چوٹ کی وجہ سے اس نے کر رہا کر آنکھیں کھول لیں۔۔
یہ منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔کہ وہ صوفے پر سر پیچھے کی طرف ٹکا کر
آنکھیں موندے سو گئی تھی۔سامنے والے صوفے پر کوئی نہیں تھا۔اور اس کا فون
مسلسل بج رہا تھا۔وہ حیران پریشان سامنے دیکھتی رہی۔
اسی حیرت کے عالم میں اس نے فون اٹھایا۔جو کب سے بجا رہا تھا۔
"ہیلو۔۔کیسی ہو۔۔۔؟"دوسری طرف چہکتی ہوئی آواز کے ساتھ نادیہ نے کہا۔
"میں ٹھیک ہوں۔۔۔تم بتاؤ۔۔!"اس نے سنبھلتے ہوئے کہا
"میں ٹھیک ہوں یہ بتاؤ تیاری کیسی چل رہی ہے۔۔؟"نادیہ نے سوال کیا۔
"کس چیز کی تیاری۔۔؟"وہ سمجھ نہیں پائی۔جیسے ابھی ابھی وہ کسی اور دنیا سے
آئی ہو۔
"ارے۔۔! عورت مارچ کی اور کس کی۔۔؟"نادیہ نے اسے یاد دلایا تھا۔
"اچھا یہ بتاؤ تم عورت مارچ میں ڈریس کس طرح کا پہنوگی۔۔؟"نادیہ ںے بات کو
جاری رکھا۔نادیہ کو اس کے لباس سے ہمیشہ ہی مخالفت رہی۔کیونکہ وہ اپنے گھر
والوں کی وجہ سے ٹپیکل لڑکیوں جیسے کپڑے پہنتی تھی۔تو اس کو ڈر ہوگا کہ
کہیں اب بھی وہی لباس نہ اوڑھ لے۔
مخالفت تو اسے خود بھی تھی۔۔مگر اب۔۔۔؟
"کس طرح کا پہننا چاہیے؟ تم بتاؤ۔۔؟"سوال۔۔! وہ سوال ہی تو کرتی آرہی تھی۔۔
"پتا ہے پوری دنیا کی نظریں ہم پر ہیں اس مارچ میں۔۔! ہمارا لباس ہیں ہمارا
لوگو ہوگا ۔۔۔وہ بتائے گا کہ ہم کیا چاہتے ہیں ۔۔! تو میرا خیال ہے۔۔۔! کہ
ہمیں آزاد عورت کے لباس کے تقلید کرنی ہوگی۔۔!"نادیہ نے اسے سمجھانے والے
انداز میں کہا۔کہ جیسے اس کے دل میں بات اتر جائے۔
"آزاد عورت کے پاس لباس ہی کہاں ہے جسے میں پہنوں۔۔؟طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا
کہ بات تو پہلے ہی دل میں اتر چکی تھی۔"کیوں نہ میں حجاب پہن کر آؤں۔۔؟"ذہن
کی گرہیں بھی کھل چکی تھیں۔
"جس جاہلیت دہشتگردی اور بیک ورڈ سوچ کے خلاف ہم کھڑے ہو رہے ہیں۔۔! تم اسی
کو پروموٹ کروگی...؟ حجاب کے اس بے ہودہ فلسفے سے جب تک ہم باہر نہیں آئیں
گے تب تک ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتے۔۔"نادیہ کو اس کی ہنسی بری طرح
کھلی تھی وہ بپھر گئی تھی۔"
"کہاں گئے وہ تمہارے فریڈم آف رائیٹ کے نعرے لگانے والے۔۔!"اس نے تحمل سے
پوچھا۔"جن کی اصلیت در حقیقت یہ ہے کہ وہ برہنگی کو تو تحفظ فراہم کرتے ہیں
مگر حجاب کو ویپن قرار دیتے ہیں۔۔!"اور سختی سے بتایا۔
دوسری طرف فون بند ہوگیا۔۔۔!
اس نے فون کو کان سے ہٹا کر دیکھا۔۔اور مسکرائی۔۔
"آہ۔۔!بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار"
اقبال کی نظم کا ایک مصرہ یاد آگیا۔۔
دل ہلکا ہوگیا تھا۔۔۔راز افشاں ہو گیا تھا۔۔اطمینان مل گیا تھا۔۔ہاں یہی تو
کھو گیا تھا۔۔۔یہی سکونِ قلب۔۔!
کیوں کہ برائی وہی ہے جو دل میں کھٹکتی ہے۔اور نیکی وہ تو سکون ہی عطا کرتی
ہے۔۔
"مگر بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔بلکہ برائی کا سدِباب کرنا بھی مسلمان کا
فرض ہے۔۔۔!"
اس نے سوچا تھا۔
"وقتِ فرصت ہے کہاں۔۔کام ابھی باقی ہے۔۔!"
|