جنون سے عشق تک - قسط :-تیسری

صبح کے دس بج رہے تھے ۔۔۔۔لیکن حامد اب بھی گہری نیند سو رہا تھا ۔۔۔۔

اس کو نیند میں دو دفعہ انس کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔لکین وہ اب بھی گہری نیند سو رہا تھا ۔۔۔۔

اخیر کر انس نے پانی کا جگ اٹھا کے اس کے اوپر پانی ڈال دیا جس پر حامد چلا کے اٹھا ۔۔۔

انس کے بچے کونسی بیوی مر گئی ہے جو اسے جگا رہے ہو ۔۔۔۔

ہاہاہا بیوی تو نہیں لکین تو مرنے والا ہے تجھے پتا ہے نہ کے آج رزلٹ ہے ۔۔۔۔

رزلٹ کا سن کے تو حامد چپ ہی ہوگیا ڈر کے مرے ۔۔۔۔

چل یار ایسے ہی ڈرتیے رہو گے تو ہمیں رزلٹ کا پتہ ہی نہیں چلے گا۔۔۔۔۔۔

شکر ہے کہ آج کالج سے ہماری جان چھوٹ جائے گی۔۔۔۔

انس نے حامد کو گھسیٹنے کی ایک اور ناکام کوشش کی۔۔۔۔۔

بس یار پانچ منٹ میں چلتے ہیں آیت الکرسی دعائیں علم اور پتا نہیں کیا کیا حامد پڑھنے لگا ۔۔۔۔

کیوں کہ اے پلس لانے اور آرمی جوائن کرنے کے لئے اب دعا کےعلاوہ وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔آرمی حامد کا جنون تھا پاگل پن تھا ۔۔۔۔۔

*----------------------------*

سلمان خان مالک اور صائمہ خان کے دو بیٹھے تھے ۔۔۔حارس خان اور حامد خان ۔۔۔۔

حارث نے امریکا سے اسٹڈی کے بعد اپنے ڈیڈ سلمان خان مالک کا بسنسس سمبھالا ۔۔۔۔

جب کے حامد خان نے ابھی سیکنڈ یر کے پپیرس دیے تھے جس کا آج رسلٹ تھا ۔۔۔۔۔

انس حامد کے بچپن کا دوست تھا ۔۔۔۔عدنان خان اور اسما عدنان کا لاڈلا بیٹا تھا ۔۔۔۔

عدنان خان ایک سائکولوجسٹ تھے اور ان کا اپنا کلینک تھا ۔۔۔۔۔

*----------------------------*

ہر کوئی اپنا اپنا رزلٹ دیکھ کر آیا تھا ۔۔۔۔حامد خان اور انس اب کالج آگئے جب لوگ واپس جا رہے تھے ۔۔۔۔

تو روک میں دیکھ کے آتا ہوں انس حامد کو روکھنے کا بول کے خود رزلٹ دیکھنے گیا ۔۔۔۔

حامد کی تو دل کی دھڑکنے روکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔۔۔

تبھی انس نے واپس اکے حامد کے کان میں ہلکی سی آواز میں سر گوشی کی ۔۔۔۔

مبارک ہو فیوچر ڈاکٹر +A فرسٹ پوزیشن۔۔۔۔۔۔

ک ک ک ۔۔۔کیا ۔۔۔؟؟

حامد دوبارہ پوچنے لگا جیسے اسے بھروسہ نہ ہو کے اس نے ٹھیک سنا ۔۔۔

خوشی سے انس کے گلے سے لگ گیا ۔۔۔۔

آج اس کی زندگی کا سب سے خوشی کا دن تھا کیوں کے آب وہ آسانی سے آرمی جوائن کر سکتا تھا ۔۔۔۔

*----------------------------*

آج حیا کا بھی رزلٹ تھا ۔۔۔اس کا بھی A پلس آیا ۔۔۔۔

آج اس کی زندگی کا بھی بہت خاص اور خوشی کا دن تھا ۔۔۔۔۔

جب ارادوں کی تکمیل نہ ہو تو دل برا نہ کیا کریں، سوچا کریں کہ میرے ارادوں سے زیادہ اچھےاللہ کے ارادے ہیں جو اپنے وقت پر پورے ہوں گے،

اور اتنی پلاننگز نہ کیا کریں، کچھ چیزیں وقت کے ساتھ خود ہی ہو جاتی ہیں، کیوں کہ زیادہ سوچنے سے ہم خود ہی مایوس ہو جاتے ہیں۔ اور مومن تو مایوس نہیں ہوا کرتا۔۔۔۔

حیا راستے میں اپنے ساتھ ہی سوچ رہی تھی ۔۔۔۔۔

گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے اماں کو آواز دی ۔۔۔اماں گھر میں نہیں تھی ۔۔۔۔۔

تو اداس ہو کے وہی بیٹھ گئی اماں کا انتظار کرتے کرتے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔۔۔۔

تبھی دروازے پے بل بجی ۔۔۔حیا نے دروازہ کھولا تو سامنے علی خون کے کپڑو سے لت پت کڑھا زمین پے گرنے والا تھا کے حیا نے اسے پکڑ لیا ۔۔۔۔

علی کس نے کیا ہے یہ بتاؤ علی ۔۔۔۔۔

علی نے آتی جاتی سانس کے ساتھ بہت ہمت کر کے جسٹ نوفل بولا ۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد اس کی سانس بند ہو گئی اور وہ اللہ‎ کو پیارا ہو گیا ۔۔۔۔۔

حیا پھر بھی اسے ہسپتال لے گئی لیکن مایوس ہو گئی آب بہت دیر ہو چکی تھی ۔۔۔۔

*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*

کبھی جو ہم نہیں ہوں گے
کہو کس کو بتاؤ گے
وہ اپنی الجھنیں ساری
وہ بے چینی میں ڈوبے پل
وہ آنکھوں میں چھپے آنسو
کسے پھر تم دکھاؤ گے
کبھی جو ہم نہیں ہوں گے
بہت بے چین ہو گے تم
تنہا بہت رہ جاؤ گے
ابھی بھی تم نہیں سمجھے
ہماری ان کہی باتیں
مگر جب یاد آئیں گے
بہت تم کو رلائیں گے
بہت چاہو گے پھر بھی تم
ہمیں نہ ڈھونڈ پاؤ گے
کبھی جو ہم نہیں ہوں گے..!!

حیا علی کی ڈائری میں ایک غزل پڑھ کے روتی جاتی ہے ۔۔۔۔۔

علی کی ڈیتھ کے بعد حیا بہت کمزور بن گئی نہ کچھ کھاتی نہ بولتی ہے ۔۔۔۔

جیسے اس کی زندگی ایک جگہ پہ روک گئی ہو ۔۔۔۔

اس کی ہر خواہش کہی دفن ہو چکی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔

اماں اپنی بیٹی کا یہ حال دیکھ کے اسے سائکولوجسٹ کے پاس لے جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔!!



( ناول :- جاری ہے )
 

Aiman Shah Bangash
About the Author: Aiman Shah Bangash Read More Articles by Aiman Shah Bangash: 4 Articles with 7176 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.