جتنے حقوق اورجتنی آزادی اسلام نے عورت کودی ۔اتنے حقوق
اوراتنی آزادی کسی اورمذہب نے خواتین کونہیں دی ہوگی۔اسلام کی روشنی پھیلنے
سے پہلے توبچیوں کوپیدائش کے ساتھ ہی زندہ درگورکیاجاتاتھا۔وہ عورت جسے
اسلام اورہمارے دین نے ماں ،بہن،بیوی اوربیٹی کادرجہ دے کرنہ صرف گھرکاملکہ
بنایابلکہ دنیااورمعاشرے میں بھی دوسروں پرممتازکردیااس عورت کواسلام سے
پہلے نہ جانے نحوست، چڑیل سمیت کیاکچھ نہیں کہاجاتاتھا۔دین اسلام سے
ناآشناء اوراﷲ کے آخری رسول حضرت محمدﷺکے مبارک ارشادات وتعلیمات سے بے
خبرلوگ شائدکہ آج بھی اس عورت کوماں ،بہن،بیوی اوربیٹی کی بجائے چڑیل،نحوست
یاکوئی اورنام دیتے ہوں لیکن مسلم معاشروں میں ایساہرگز نہیں بلکہ کوئی بھی
مسلمان ماں،بہن،بیوی اوربیٹی کی ذرہ سی گستاخی اورتوہین کے بارے میں کبھی
سوچ بھی نہیں سکتا۔پاکستان سمیت تمام مسلمان ممالک اورمسلم معاشروں میں آج
بھی دین اسلام کی تعلیمات اورقرآن وحدیث کی روشنی میں عورت کوماں ،بہن،بیوی
اوربیٹی کادرجہ دے کردل وجان سے نہ صرف اس کااحترام کیاجاتاہے بلکہ
ہرمسلمان اپنی جنت بھی اسی عورت کے پاؤں تلے تلاش کرتاہے۔اس کے مقابلے میں
غیرمسلم معاشروں کے اندرعورت کومحض جنسی تسکین کے لئے استعمال
کیاجاتاہے۔امریکہ،برطانیہ سمیت دیگرمغربی ممالک میں عورت کی آج کیاحالت
ہے۔۔؟یااس پرکیاگزررہی ہے۔۔؟یہ حقیقت جاننے کے بعدانسان کادل پھر پھٹنے
لگتاہے۔ان ممالک میں اس عورت جسے اسلام نے ماں ،بہن اوربیٹی کادرجہ
دیاکوٹشوپیپرسے کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔چندرنگین راتیں گزارنے
اورشراب وشباب کی کچھ محفلیں سجانے کے بعدوہاں یہ عورت پھرمرتے دم تک
دردرکی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے۔آج اس ملک میں عورت کی آزادی کاجوپرفریب
نعرہ لگایاجارہاہے یہ درحقیقت عورت کی آزادی نہیں بلکہ عورت کی اس تباہی
اوربربادی والا نعرہ اوربنیاد ہے جس پرقبل ازاسلام بچیوں کوزندہ درگورکرکے
عورت کے وجودکوختم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔اس پاک دھرتی پر،،میراجسم میری
مرضی ،،کے نعرے لگانے والی غیروں کی آلہ کاریہ چندمیک اپ زدہ خواتین کیا
امریکہ،برطانیہ سمیت دیگرمغربی ممالک میں،،میراجسم میری مرضی ،،کے قاعدے
اورکلیے کے مطابق زندگی گزارنے والی عورت کاانجام بھول گئے۔۔؟وہ عورت جس کے
پاؤں تلے جنت کی بشارت دی گئی وہ اگر،،میراجسم میری مرضی ،،کی وجہ سے اولڈ
ہوم میں ایڑھیاں رگڑرگڑ کربے یارومددگاروبے سہارامررہی ہویاآہیں اورسسکیاں
لیکرایک بیٹے،ایک بھائی اورایک بہن کے لئے ترس وتڑپ رہی ہوتواس سے بڑی
اذیت،تکلیف اور قیدپھراورکیاہوگی۔۔؟عورت کی اصل آزادی تویہ ہے جواسے دین
اسلام نے باپ،بیٹے ،بھائی اورشوہرکی طاقت اورمحبت کے ذریعے دی ہوئی
ہے۔درحقیقت قیدتووہ عورت ہوتی ہے جس کاباپ ہوتاہے نہ بھائی، نہ کوئی
بیٹااورنہ شوہر۔ باپ،بیٹا ،بھائی اورشوہر جن کوعورت ذات کے لئے ایک ڈھال
بنایاگیاان کی مثال توعورت کے لئے اس سائے جیسی ہے جس سائے کے نیچے عورت
پھر مرنے تک چین سکون،آرام اورآزادی سے اپنی زندگی گزارتی ہے ۔مسلم معاشروں
میں اسلامی تعلیمات کے مطابق حقیقی معنوں میں زندگی گزارنے والی کسی عورت
کوہمارے خیال میں کم ازکم مزیدکسی آزادی اورحقوق کی ہرگزکوئی ضرورت نہیں ۔وہ
عورت جوایک ماں ،بیوی،بہن یابیٹی کے روپ میں گھرکی رونق،زینت اورملکہ بنی
ہوئی ہے اس عورت کواورکیاچاہیئے۔۔؟مسلمان ماؤں،بہنوں،بیٹیوں اوربیویوں
کوتوگھراورمعاشرے میں اسلامی حدودکے اندرہرقسم کی آزادی اورمکمل تحفظ حاصل
ہے۔ایک عورت گھرکی ملکہ اورخاندان پرحکمرانی کرے اس کے لئے اس سے بڑھ
کراوراعزازکی بات کیاہوگی۔۔؟مسلمان عورت محض جنسی تسکین کے لئے تماشابنتی
ہے نہ ہی دل کی ٹھنڈک کے لئے اسے کوئی نوالہ بنایاجاتاہے بلکہ جنت پانے کے
لئے مرتے دم تک بطورایک ماں اس کے قدم چومے جاتے ہیں ۔صرف ایک ماں کی مسلم
معاشرے میں کتنی عزت ہے اوراس ماں کوکتنی آزادی حاصل ہے۔۔؟ یہ کوئی غیروں
کے اشاروں پرناچنے ،جھومنے اورچیخنے وچلانے والی ان لبرل آنٹیوں سے پوچھنے
کی بجائے اس ماں سے پوچھے جوآج بھی شہر،قصبے،دیہات اورگاؤں میں آزادی
اورخوشی کے ساتھ زندگی گزاررہی ہے۔اس ملک میں عورت کی آزادی یاحقوق کی
اگراس طرح کوئی بات ہوتی یاکوئی مسئلہ ہوتاتوسب سے پہلے سڑکوں پریہ ماں
نکلتی۔مگرکتنی عجیب بات ہے وہ ماں جو عورت کی بھی ماں ہے اسے حقوق کاکوئی
مسئلہ ہے نہ ہی اسے کہیں قیدکی کوئی شکایت اورکوئی گلہ ہے۔وہ تومعمول کے
مطابق آج بھی تہجدکے وقت اٹھ کرپورے پورے خاندان پرحکمرانی کے مزے اڑارہی
ہے مگروہ عجوبے جنہیں عورت کانام دینابھی عورت کی توہین ہوگی۔ آج آسمان
سرپراٹھائے حقوق حقوق اورآزادی آزادی کے نعرے لگاتے پھررہی ہیں ۔جولوگ
میراجسم میری مرضی کے نعرے لگاتے ہیں انہیں پھراسی طرح
ماراماراپھرناپڑتاہے۔اﷲ کے کاموں میں جولوگ انگلیاں مارتے ہیں وہ پھراسی
طرح تماشابنتے ہیں ۔عورت مارچ یہ خواتین کے حقوق کے لئے کوئی جدوجہدنہیں
بلکہ اﷲ پاک ایسے مارچوں کے ذریعے دنیاکویہ دکھاناچاہتاہے کہ جولوگ اﷲ
تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔اسلامی تعلیمات کوپس پشت ڈال کرقدرت
کے بنائے ہوئے حدودکوپھلانگتے ہیں وہ پھرکس طرح چوکوں ،چوراہوں ،بازاروں
اورشاہراہوں پرتڑپ تڑپ کرماتم کرنے پرمجبورہوتے ہیں ۔ عورت مارچ کی بجائے
اس مارچ کواگرغارت مارچ کانام دیاجائے توزیادہ مناسب ہوگا۔کیونکہ ایسے
مارچوں کااصل مقصدخواتین کے حقوق یاانہیں کوئی آزادی دلوانا نہیں بلکہ مسلم
معاشروں میں خاندانی نظام کوتباہ اورخواتین کودنیاکے سامنے تماشابنانے کی
ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔اس ملک میں ایسے بے ہودہ مارچوں کاراستہ
روکناہوگا۔ہم خواتین کے حقوق اورعورت کی آزادی کے خلاف نہیں ۔ہمارے دین
اوراس ملک کے آئین وقانون نے خواتین کوجوحقوق دیئے ہیں وہ کہیں پراگرکسی
عورت کونہیں مل رہے تووہ ضروراسے ملنے چاہئیں۔اس ملک میں رہنے والے ہم سب
ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں والے لوگ ہیں ۔جہاں ہماری ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کے
حقوق اورآزادی کی بات ہوگی وہاں اوروں سے آگے ہم ہونگے۔اس ملک میں آج تک
عورت پرجہاں کہیں بھی کوئی ظلم اورستم ہواپوری قوم پھراس عورت کے ساتھ کھڑی
ہوئی ۔آئندہ بھی انشاء اﷲ جہاں کہیں کسی ماں ،بہن اوربیٹی کے حقوق کی بات
ہوگی یہ قوم پہلے صف میں کھڑی دکھائی دے گی ۔مٹھی بھرعناصراگرخواتین
کااستحصال کرتے ہیں ان سے اس قوم کاکوئی تعلق نہیں۔ ہم نے ایسے درندوں
کوکبھی اچھی نظرسے نہیں دیکھا۔ایسے عناصرکے خلاف اگرکوئی آوازاٹھتاہے توآج
بھی پوری قوم ان کے ساتھ ہے لیکن کسی بیرونی ایجنڈے اورایک سوچی سمجھی سازش
کے تحت اگرکوئی عورت مارچ یاخواتین کے حقوق کے نام پراس ملک کواکھاڑہ بنانے
کے خواب دیکھے گاتویہ قوم ان کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیواربنے گی۔یہ
ملک کلمہ طیبہ کے نام پربنا۔یہاں ماں کے روپ میں عورت کے قدموں تلے جنت
ضرورتلاش ہوگی مگرمیراجسم میری مرضی کانظام کبھی نہیں چلے گا۔یہ سب کچھ
ہمیں اﷲ نے دیاہے اوروہی اس کااصل مالک اورہماراخالق ہے پھر،،میراجسم میری
مرضی ،،کے یہ نعرے کیسے۔۔؟ یہاں پرمیراجسم اﷲ کی مرضی کانظام چل رہاہے
اورانشاء اﷲ اس دھرتی پرجب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے یہی نظام چلتارہے
گا۔کسی کواگرمیراجسم میری مرضی کاکچھ زیادہ شوق ہے تووہ پھرکہیں اورکارخ
کردیں کیونکہ یہ ہماری نہیں ان کی مرضی ہے۔
|