کوئی زیادہ پرانی بات نہیں، صرف چودہ سو سال پہلے دنیا کی
انسانی آبادیوں میں بھی جنگل یعنی طاقت کا قانون چلتا تھا. تقریباً ایک
لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بنی آدم علیہ السلام کو اللہ کا پیغام زبانی و
تحریری ہر دو صورت میں دے کر جا چکے تھے لیکن حضرت انسان کو اللہ کا دین و
قانون سمجھ نہ آیا تھا.
بیت اللہ کا طواف کرتے مگر برہنہ، عورتیں رکھتے مگر بنا نکاح (لونڈی)،
کمزور کی معاشرے میں جگہ تھی مگر غلام، لڑکیوں کو بھی دفنایا تو جاتا تھا
مگر پیدا ہوتے ہی زندہ، وغیرہ وغیرہ.
اور پھر خاتم النبیین تشریف لائے، اللہ کا پیغام دیا اور صرف تیرہ سال کے
قلیل عرصہ میں دنیا کا نقشہ بدل گیا. قرآن مجید نازل ہوا جس میں اللہ تعالیٰ
نے بنی آدم سے خود مخاطب ہو کر فرمایا کہ یہ کتاب اور نبی کی زندگی تمہارے
لئیے مشعلِ راہ ہے، میں نے تمہیں اشرف المخلوقات بنایا، چاہتا ہوں کہ تم
اپنی زندگیاں میری مرضی سے گزارو، اسی میں تمہارے لئیے نجات و فلاح ہے.
بنی آدم میں رشتے وضع کر دئیے گئے، ہر حیثیت سے حقوق و فرائض بتا دئیے گئے
اور ان کے استحصال کو حرام و قابل گرفت قرار دے دیا گیا.
تمام فرق مٹ گئے، فوقیتیں ختم ہوگئیں، بتا دیا گیا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے
جو زیادہ متقی و پرہیز گار ہو گا، واضح کر دیا گیا کہ عربی کو عجمی پر،
گورے کو کالے پر، امیر کو غریب پر اور مرد کو عورت پر کوئی فوقیت نہیں.
ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا کہ خاندانی و عائلی نظام جو اسلامی معاشرے کی
اساس اور خوبصورتی ہے کو بہترین انداز میں چلانے کے لئیے صنفی تفرق سے
بالاتر ہو کر صرف اور صرف احترام، احساس، ذمہ داری، حقوق و فرائض کی بنیاد
پر جو مقام تفویض کئیے گئے ہیں ان کے حفظِ مراتب کا خیال رکھنا ورنہ نہ صرف
اس کا شیرازہ بکھر جائے گا بلکہ اللہ کے ہاں جوابدہی و سزا کا سامنا بھی
کرنا پڑے گا.
جہاں بچوں کو بڑوں، اولاد کو والدین اور بیوی کو شوہر کی اطاعت،
فرمانبرداری اور احترام کا حکم دیا گیا وہیں بڑوں کو بچوں، والدین کو اولاد
اور شوہر کو بیوی کے ساتھ شفقت، حسن سلوک اور محبت کا حکم بھی دیا گیا.
زمانہ گواہ ہے کہ جب تک ہمارے معاشرے میں اللہ کی کتاب اور نبی کی زندگی کو
مشعل راہ سمجھا گیا حقوق و فرائض میں نہ تو کبھی کوئی ابہام پیدا ہوا اور
نہ جھگڑا.
یہ مسئلہ صرف ان معاشروں میں تھا جہاں انسانوں نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق
حقوق، فرائض اور حفظ مراتب طے کرنے کی کوشش کی.
خالقِ کل کائنات سے بہتر کوئی بھی ہمارے جذبات، احساسات، خواہشات، مسائل
اور ضروریات کو جان اور سمجھ ہی نہیں سکتا، اسی لئیے اس طرح کی تمام کوششیں
اور تجربات نہ صرف بری طرح ناکام ہوئے بلکہ اگر ان معاشروں کا بغور جائزہ
لیا جائے تو وہاں پر مرو نے ان حقوق، فرائض اور حفظ مراتب کی تقسیم کے نام
پر بالکل ویسے ہی فائدہ اٹھایا جو بچوں کی ایک کہانی میں بندر نے دو بلیوں
کے درمیان روٹی تقسیم کرتے ہوئے اٹھایا تھا اور عورت بیچاری صرف ایک نام
نہاد برابری کی خواہش میں اپنی عزت، آبرو، مقام اور احترام سب کچھ گنوا
بیٹھی.
بد قسمتی یہ ہے کہ آج انہی معاشروں سے متاثر چند مغرب زدہ اور بیمار ذہن
خواتین و مردوں نے ہمارے معاشرے میں کچھ جہلا کے ہاتھوں ہونے والے انفرادی
اقدامات کو بنیاد بنا کر اور اجتماعی رنگ دے کر ہماری سادہ لوح خواتین اور
مردوں کو ورغلا رکھا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف ان کو استعمال کرتے ہوئے
اپنی دکان چمکا کر سستی شہرت اور چند ٹکے حاصل کرنا ہے.
سچ تو یہ ہے کہ عورت کو حقوق دلوانے کے لئیے ہمارے معاشرے میں کسی نام نہاد
"عورت مارچ" کی نہیں بلکہ اللہ کی کتاب اور نبی کی زندگی کو پھر سے مشعل
راہ بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ خالقِ کل کائنات سے بہتر نہ تو کوئی ہمارے
جذبات، احساسات، خواہشات، ضروریات و مسائل جانتا اور سمجھتا ہے اور نہ ہی
کوئی ان کو سامنے رکھ کر مکمل غیر جانبداری سے اصول و ضوابط وضع کر سکتا
ہے.
مجھ ناچیز کو یقین واثق ہے کہ اگر ہم آج اس چودہ سو سال پہلے سے روز روشن
کی طرح عیاں حقیقت کو تسلیم کر لیں تو اگلے سال یا آئندہ کسی بھی سال کسی
نام نہاد "مارچ" کی ضرورت کبھی بھی نہیں پڑے گی.
انشاءاللہ... |