|
وادیٕ سندھ کا صحرائے تھر فطرت کا ایک اوپن میوزیم ہے۔ ریت کے اونچے نیچے
ٹیلوں کے بیچ نیلے پانیوں سے بھری جھیلیں۔ ۔ ان پر پرندوں کی روپہری اڑان
اور درختوں کے جھنڈ وہ ریت کے اس ویرانے میں وہ حسین نظارہ پیش کرتے ہیں کے
دیکھنے والے کی آنکھوں پر خواب کا سا گمان ہونےلگے۔۔
یہ ریگستان اچھڑو تھر کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یعنی سفید ریگستان۔ مقامی
لوگ اسے اچھیو تھر بھی کہتے ہیں جس کی سرحدیں عمر کوٹ سے شروع ہوکر پنجاب
میں بابا فرید کے چولستان سے جا ملتی ہیں اور اراضی کے اعتبار سے یہ
پاکستان کا سب سے وسیع صحرا مانا جاتا ہے۔
|
|
٢٣ ہزار کلومیٹرز پر پھیلے ہوٸے اس ریگستان میں سو کے قریب کھارے اور میٹھے
پانی کی وسیع جھیلیں پاٸی جاتی ہیں۔ جن میں سے کچھ جھیلوں میں مچھلی کا
شکار ہوتا ہے۔ سانگھڑ شہر کے قریب واقع چوٹیاریوں ڈیم انہی جھیلوں میں سے
٦٠ جھیلوں کے ایک سلسلے کو آپس میں جوڑ کر بنایا گیا۔۔
صحراٸے اچھڑو تھر اپنی ریت کی سفیدی اور دلدلوں کے اعتبار سے سندھ کے تھر
پارکر ریجن سے منفرد مانا جاتا ہے۔ اس علاقے میں انسانی آبادی نہ ہونے کے
برابر ہے۔ مگر موجود آبادی کے گزر بسر کا واحد ذریعہ نمک کی جھیلوں میں
کھٹن مزدوری اور مویشی ہے۔
|
|
بارشیں ہوتی ہیں تو قدرتی طور پر اگنے والی گھاس مویشیوں کے چارے کے کام
آتی ہے اور انسانوں اور جانوروں کے پینے کے لیٸے بارش کا پانی سیمنٹ سے بنے
ٹانکوں (ٹنکیوں) میں سال بھر کے استعمال کے لیے جمع کر کے رکھا جاتا ہے۔
ہتہونگو ایک چھوٹا سے قریباً دس ہزار آبادی والا شہر اچھڑو کی طرف گیٹ وے
کا درجہ رکھتا ہے جہاں سے کچھ فاصلے پر نمک کی سات جھیلیں موجود ہیں ۔ ان
جھیلوں سے روزانہ ہزاروں ٹن نمک نکالا جاتا ہے۔ یہ سفید پھیلی ہوٸی جھیلیں
دور سے یوں دکھاٸی دیتی ہیں جیسے اس ویرانے کے بیچ برف پھیلی ہوٸی ہو اور
جھیلوں کے قریب ہی اونچے ریتیلے ٹیلوں پر نمک نکالنے والے غریب و نادار
مزدوروں کی جھونپڑیاں دکھاٸی دیں گی جو نمک سے کسیلی زندگی جی رہے ہوتے ہیں۔
|
|
یہ وہ ریگستان ہے جہاں دکھ کے ہزار مرحلوں کے بیچ زندگی جینے کے بہانے
ڈھونڈھ لیتی ہے اور یہ لوگ ہنستے۔گاتے۔ اپنی روایات سے جڑ کر چلے آ رہے ہیں۔
فقیرانہ راگ یہاں کی موسیقی کی خاص پہچان ہے جس میں یہ لوگ اپنے مرشد کی
ثنا خوانی کے ساتھ لوک کرداروں کے درد اور خوشیاں بیان کرتے رہتے ہیں۔
اچھڑو تھر میں پانی کے بہت ہی گہرے کنویں پاٸے جاتے ہیں جو دو دو تین تین
سو فٹ گہرے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان سے دو تین لوگ مل کر پانی کا برتن
لمبی رسیوں سے کھینچ کر نکالتے ہیں اور اس سلسلے میں اونٹ اور گدھے کی مدد
بھی لی جاتی ہے۔
|
|
اچھڑو تھر کی خاص پہچان یہاں موجود ریت کے دلدل مانے جاتے ہیں ۔ جس سے کسی
اجنبی کا گزر ناممکن ہے۔ ریت کے اس دلدل کے حوالے سے مقامی باشندوں کا کہنا
ہے کہ یہ دلدل راتوں میں چلتے ہیں یعنی ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ اپنی شکل
بدلتے رہتے ہیں اور انجان مسافر ان کے بیچ راستہ بھٹک کر موت کی بھینٹ چڑھ
جاتا ہے۔ انگریز سرکار سے جنگ کے دوران حر گوریلوں کے لیے یہ دلدل کسی
دیوار پناہ کا درجہ رکھتے تھے۔ نامور جنگجو شیخیو راجڑ نے انگریز راج سے
انہی سفید ٹیلوں کے بیچ میدان سجایا تھا۔
اچھڑو تھر کے ان دلدلوں کے بیچ پور چنڈ جھیل ست رنگے پانیوں کا عجب نظارہ
پیش کرتی ہے۔ لوگوں یہاں اپنی مرادوں کے لیے آتے ہیں اور یہ جھیل طوفان نوح
سے منسوب ہے۔
|
|
اسی دلدل کے بیچ نخلستان بھی ملتے ہیں جہاں کھجور اور بیری کے درخت پاٸے
جاتے ہیں جنہیں کوچھر کہتے ہیں۔ یہاں ہاتھ سے زمین کھودنے پر میٹھا پانی
نکل آتا ہے۔
صحراٸے اچھڑو تھر ہاتھ کے ہنر کے حوالے سے بھی اپنی ایک الگ ہی پہچان رکھتا
ہے۔ مقامی زبان میں یہاں گاؤں گوٹھوں کو تڑ کہا جاتا ہے اور تڑ پانی کے
کنویں کو کہتے ہیں ۔ اور ہر گاؤں کی عورتیں رلی ۔ گج۔ رنگب رنگی جھمکوں
والے ناڑے۔ پراندے۔ موڑ یعنی دولہے کے سر پر سجانے والے سہرے وغیرہ بامے کا
کام کرتی ہیں اور کھوہ گپنی نامی ایک گاٶں میں چرخے پر بھیڑ کی اون سے
دھاگہ تیار ہوتا ہے جس سے کھڈیوں میں بہت ہی خوبصورت شالیں اور کھتھے (شال
کی ایک روایتی قسم) تیار ہوتے ہیں۔
|
|
ثقافتی اعتبار سے دیکھا جاٸے تو اس ریگستان سے امیر کوٸی اور خطہ نہیں ہو
سکتا مگر غربت اور پسماندگی فن اور ثقافت کو کھا جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ
ہاتھ کے ہنر سے دور ہوتے ۔ ان کے ہنر کی بزار میں نہ وہ قدر رہ گٸی ہے ۔ نہ
مناسب قیمت مل پاتی ہے۔ یوں اس ریگستان کو بھوک۔۔ پیاس اور افلاس نے اپنے
شکنجے میں قریب ِمرگ پنہچا دیا ہے۔
|
|
|
|
|
|