ثقافت یاد رکھیں

روز ازل سے ثقافت ہرقوم پہچان ٹھہری ہے کوئی بھی قوم ہواپنی ثقافت سے محبت کرتی ہے دنیا میں کئی تہذیبوں نے جنم لیاجن میں ہرعلاقے کے جغرافیائی اعتبارسے زبان رسم ورواج پہناوے مختلف ہوتے ہیں اوران کونمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں اسی وجہ سے سرائیکی قوم بھی ہرسال 6مارچ کو سرائیکی اجرک ڈے اور16اپریل کوسرائیکی ثقافتی ڈینہہ کے حوالے سے یہ دن CELEBRATEکرتے ہیں اورصرف خوشی کا اظہارنہیں کرتے بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے ان لوگوں کی عید ہے پاکستان کے علاوہ اب یہ تہوار پوری دنیا میں جہاں پرسرائیکی بولنے اورسمجھنے والے رہتے ہیں وہاں پریہ دن منائے جاتے ہیں ۔سرائیکی اجرک کارنگ صوفیانہ رنگ اورمحبت کی علامت ہے سرائیکی اجرک دن بدن مقبول ہورہی ہے اجرک کو عربی میں ازرق کہتے تھے کیونکہ کیونکہ عرب سے کئی لوگ دین کی تبلیغ میں آئے تھے اس لیے ازرق سے لفظ اجرک میں تبدیل ہوگیا اس کی مقبولیت یہ ہے کہ راقم کوسوشل میڈیاپرپاکستان کے مختلف شہروں اور دنیاکے مختلف ملکوں سے دوست سرائیکی اجرک کی فرمائش کرتے ہیں کینیڈامیں ہرسال سرائیکی اجرک ڈے دھوم دھام سے منایاجاتاہے اوراس کاکریڈٹ سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے سیکرٹری جنرل آصف خان کوجاتاہے ماہرین کے مطابق قدیم عمارتوں پرملتانی رنگ جابجاموجود ہیں جوہماری صدیوں کی پہچان ہیں سرائیکی قوم ہرسال 6مارچ کو سرائیکی اجرک ڈے مناتے ہیں جوسرائیکیوں کیلئے عیدکاسماں بن جاتاہے اورایک دوسراکوسرائیکی اجرک کے تحفے ،کارڈ،میسجزاورعورتوں کیلئے سرائیکی اجرک کے رنگ کے کپڑے دے کر اپنی خوشی کااظہارکرتے ہیں ۔سرائیکی قوم کئی دہائیوں سے الگ صوبہ کی تحریک کو دیکھا جائے تو اس میں غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ شامل تھے عین اسی طرح جس طرح پاکستان کی تحریک شروع ہوئی انتہا سے لے کراب تک تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں اسی طرح الگ صوبہ کی تحریک سے لیکر ادبی تحریک سے لے کرسیاسی تحریک تک کا ایک لمبا سفر ہے جن میں قربانی دینے والے لوگوں کے نام میرے ذہن میں آتے ہیں جن میں چند نام بیرسٹرتاج محمدلنگاہ،استاد فداحسین گاڈی،ملک منظوراحمدبوہڑ،مولانا نوراحمد،سیدزمان جعفری،سیدولایت حسین گردیزی،قاری نورالحق،واحدخان رند اور ایسے سینکڑوں نہیں ہزاروں نام ہیں جو اپنے اپنے پلیٹ فارم سے آواز اٹھاتے رہے انہوں نے ہمیشہر صوبہ سرائیکستان کی حمایت کی اب بھی ان پارٹیوں کے لوگ جن میں اسلم خان،نخبہ لنگاہ،حمیداصغرشاہین،عاشق ظفربھٹی۔صوفی تاج گجرگوپانگ،عاشق خان بزدار،مجاہدجتوئی،کانجواورایم اے بھٹہ جیسے لوگ آج بھی تحریک کا حصہ ہیں اب سرائیکی تحریک میں ،رانامحمدفرازنون،ظہوردھریجہ، شاہنوازمشوری ،ملک اﷲ نواز وینس ، کرنل جبارعباسی،ملک اﷲ نواز وینس،آصف خان،خواجہ صاحبان جیسے لیڈروں نے کمانڈ سنبھالی ہوئی ہے کیونکہ سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی سرائیکی تحریک کی سب سے بڑی پارٹی ہے جو صرف ملتان، مظفرگڑھ نہیں، راجن پور،ڈی جی خان،علی پورجتوئی،کوٹ ادو،شجاع آباد،لہورسے ہوتی ہوئی پشاورپھرحیدرآباد کراچی یہاں تک کہ پورے پاکستان میں اس کے ذمہ داران موجود ہیں اور محنت سے کام کررہے ہیں ۔ سیاست میں سب سے بڑااشوالگ صوبہ ہے کیونکہ پنجاب پورے ملک کا 63فیصد ہے اور سب جانتے ہیں کہ اگر پنجاب جیت لیا تو پورے ملک پرحکومت کریں گے اسی وجہ سے جنوبی پنجاب صوبہ کی رٹ لگائی ہوئی ہے ۔جیسے جیسے بات 100دن کے قریب ہوتی جارہی ہے سوشل میڈیا،پرنٹ میڈیا،الیکٹرونک میڈیا سب پر الگ صوبہ کا اشو ہے چندماہ پہلے اسلام آباد میں سرائیکیوں نے پریس کلب سے پارلیمنٹ تک ریلی نکالی جس میں ہزروں سرائیکی شامل تھے اور اپنے صوبے کے حق میں نعرے مارتے جدوجہدکرتے نظرآئے اس کیبعد ملتان میں ٹھاٹھیں مارتا سمندر جس میں ہزروں لوگوں نے شرکت کی کچہری چوک سے قاسم قلعہ تک ریلی نکالی،جس میں سرائیکی لوگ سانجھ،سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی،سوجھل دھرتی واس کے علاوہ تمام سرائیکی پارٹیاں موجود تھیں جس میں لوگوں نے تخت لہور سے انتقام لینے کیلئے کھلا چیلنج کیا ہوا تھا جس میں چارٹ فلیکس یہاں تک کہ کپڑوں پر بھی تخت لہور کے خلاف نعرے درج تھے جسے دیکھ کر اقتدار کے بھوکے سیاستدان اور بھی بوکھلاہٹ کا شکا ہوگے ہیں ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماملک الطاف کھوکھرنے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹوملتان آئے توبہاولدین ذکریاملتانی کے دربارپرحاضری کیلئے گئے دربارکو بوسہ دیا اوردیواروں پرہاتھ لگاکرکہا الطاف یہ دیکھویہ نیلی ٹائلیں دیکھو یہ رنگ ابدیت کی علامت ہیں جن سے مجھے محسوس ہوتا ہے ملتان کبھی ختم نہ ہوگااگرمیں کہوں ذولفقارعلی بھٹونے صحیح کہا تھا توغلط نہ ہوگا کیونکہ پوری کائنات کا رنگ بھی تونیلا ہے۔سرائیکی اجرک کا رنگ بھی نیلا ہے جو آسمان اورسمندروں کارنگ ہے اوراوپرسفیددھاریاں اورنقش ہیں جوزمین کارنگ ہے اس لیے توسرائیکی اجرک امن کی علامت اورخوشحالی کا پیغام ہے ۔آپ ﷺ کو فرمان عالی شان ہے کہ ایک دوسرے کو تحفے دیا کروتحفے سے دشمنی(کینہ )ختم ہوتی ہے۔نبی پاک کے اسی فرمان کو مدنظررکھتے ہوئے سرائیکی وسیب کے لوگ سرائیکی اجرکیں تحفے میں دیتے ہیں سرائیکی اجرک کارنگ امن،سلامتی، بھائی چارے،تحمل،بردباری اورایک دوسرے کو برداشت کرنے کا درس دیتا ہے۔کچھ لوگ لکھتے ہیں پاکستان میں 7کروڑ لوگ سرائیکی بولنے والے ہیں توکچھ 8کروڑ لکھتے ہیں مگرمیں یہ بتاناچاہوں گاپاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں سرائیکی رہتے ہیں جیسے بھارت کے راجستھان میں سرائیکی بولنے اورسرائیکی لباس والے لوگ موجود ہیں مگرپاکستان میں سرائیکی اجرک پہنے لوگوں کی اپنی خاص ہی پہچان ہے ۔ایس ڈی پی کے چیئرمین رانا فرازنون نے بتایا کہ سرائیکی اجرک کا نام کیسے بنا:جب محمدبن قاسم نے عربی فوجیوں کے ساتھ ملتان سلطنت کو فتح کیا تو عربی فوجیوں نے مزاروں پرلگی اینٹوں کو دیکھ کے عربی میں کہنے لگے ’’ازرق ازرق ‘‘اس سے مراد نیلا ہے کیونکہ ملتانی اینٹوں پر نیلے رنگ سے کاشی گری کی جاتی تھی توازرق کو مقامی لب ولہجے سے اجرک میں تبدیل کردیا گیا۔ویسے توسرائیکی زبان پورے پاکستان میں بولی اورسمجھی جاتی ہے اس کے علاوہ سرائیکی زبان بولنے والے کئی لاکھ لوگ پاکستان سے باہرموجود ہیں مگرجن علاقوں میں سرائیکی زیادہ بولی اورسمجھی جاتی ہے ان میں بلوچستان صوبہ کے اضلاع:موسیٰ خیل،نصیرآباد،جعفرآباد،صحبت پور، جھل مگسی،ضلع لہڑی،ضلع بولان۔صوبہسندھ کے اضلاع:کشمور،جیکب آباد،شکارپورلاڑکانہ،قمبرشہدادکوٹ،گھوٹکی ،سکھر،خیرپور،نوشہرو،بے نظیرآباد،دادو۔پنجاب کے اضلاع:ڈیرہ غازی خان،بہاولپور،ملتان،بہاولنگر،راجن پور،رحیم یارخان ،مظفرگڑھ، میانوالی، خوشاب، سرگودھا،وہاڑی ،پاکپتن،ساہیوال،خانیوال،ٹوبہ ٹیک سنگ،لودھراں،لودھراں چنیوٹ یہاں تک کہ لاہورمیں بھی سرائیکی سمجھنے کے ساتھ ساتھ بولنے والے بھی لاکھوں کی تعدادمیں موجود ہیں ۔ قرآن پاک کا سرائیکی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے جسے:ڈاکٹرمہرعبدالحق سومرو،پروفیسردلشادکلانچوی،پروفیسرصدیق شاکر،ڈاکٹرطاہرخاکوانی،ریاض شاہد،عبدالتواب ملتانی،حفیظ الرحمان شامل ہیں ۔ سرائیکی میں ڈیڑھ ہزارسال پہلے کی شاعری موجود ہے جن میں سچل سرمست،خواجہ غلام فرید کوٹ مٹھن سرکار،بیدل سندھی،لطف علی،حمل لغاری،غلام رسول ڈڈا،ممتازحیدرڈہر۔نوجوان نسل کے شاعروں میں جن کا شمارہوتا ہے وہ احمدخان طارق،شاکرشجاع آبادی،شاکرمہروی ،سیف اﷲ خان سیفل،دلنورنورپوری،اصغرگرمانی،رفعت عباس،امان اﷲ ارشد،سفیرلاشاری،جمشیداقبال ناشاد،مخمورقلندری،بشیرغمخار،بیدارفریدی، سچدل علی پوری،اسماعیل عاطر،سائرخان جنپوری،عاشق صدقانی وغیرہ ہیں۔جوتہذیبیں زمین سے جڑی ہیں وہی زندہ رہتی ہیں وہی تہذیبیں اورثقافتیں امن سلامتی اورخوشحالی کی پیمبرہیں سرائیکی کلچرڈے منانے کا مقصدصرف یہی ہے کہ زمین پرخوشحالی چاہتے ہیں ہم اپنی آنے والی نسلوں کوآبادوشاددیکھناچاہتے ہیں ہمارایہی پیغام ہے اوریہی سرائیکی کلچرڈے کا میثاق بھی ہے۔مجھے یاد آتا ہے عطااﷲ عیسیٰ خیلوی کا ایک گانے کے بول ہیں’’دنیا کی جانے ساکوں کئیں کئیں لٹیااے‘‘اس گانے کو اگرسیاسی انداز میں لے جائیں تو غلط نہ ہوگا کہ ہمیں پہلے پیپلزپارٹی اورن لیگ سرائیکی صوبہ کا لولی پاپ دیتی رہی ہے اس بار پاکستان تحریک انصاف نے یہ لولی پاپ دیا جن میں کوئی فرق نہیں ان لوگوں کو صرف اپنی کرسی سے پیارہے مگراب سرائیکی قوم بیدارہوچکی ہے ۔
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 224215 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.