تحریر۔۔۔عمیر خان
اکثر اوقات ہم دوسروں کی غلطیاں نکالنے میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ
ہمیں اپنی غلطیاں نظر نہیں آتیں یا پھر ہم اپنی غلطیاں دیکھنا ہی نہیں
چاہتے کیونکہ ہم ہمیشہ خود کوصحیح سمجھتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی بُرا عمل ہے
کیونکہ اس عادت کی وجہ سے ہمیں اپنے اردگرد صرفمنفی چیزیں نظر آتی ہیں۔ ہم
دوسروں کو ضرورت سے زیادہ جج کرنے لگتے ہیں جب کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا
کہ وہ کن حالات سے گزر رہے ہیں۔ اس عادت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارے
ساتھ جب بھی بُرا ہوتا ہے ہم اسکے لئے دوسروں کو مودرِ الزام ٹھہراتے ہیں
جب کہ ہمارے ساتھ ہونے والی تمام بُری چیزوں کے ذمہ دار ہم خود ہی ہوتے
ہیں۔ ہم سب اپنے حالات میں مثبت تبدیلی کی خواہش تو کرتے ہیں لیکن اس
تبدیلی کیلئے خودسے کچھ کرنے کو نہیں ہوتے صرف دوسروں سے ہی اُمیدیں وابستہ
کر لیتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے کچھ ایسا کریں کہ ہمارے حالات سدھر جائیں جو
کہ یقینا ایک ناقابل عمل بات ہے۔ہم نے تبدیلی کیلئے جس طریقہ کار کے متمنی
ہیں وہ حقیقت کے برعکس ہے۔ کیونکہ ہم خواہش کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ اپنے
رویے تبدیل کر لیں اور معاشرہ ایکدم سے ٹھیک ہو جائے۔ درحقیقت سب سے پہلے
ہمیں خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تب ہی ہماری اس تبدیلی کا اثر معاشرے
میں بھی نظر آنے لگے گا۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی سے انتہائی بُرے اور
غیر مناسب رویے سے پیش آتے ہیں تو ہم کبھی بھی سامنے والے سے یہ اُمید نہیں
کر سکتے کہ وہ بدلے میں ہمارے ساتھ اچھا رویہ اختیا کرے۔ دوسری جانب اگر ہم
اپنے مزاج میں اچھے رویے کا انتخاب کرتے ہیں تو سامنے والا کبھی بھی بُرا
رویہ اختیا ر نہیں کرے گا بلکہ ہمارے اچھے مزاج سے متاثر ہو کر وہ بھی اپنے
مزاج میں تبدیلی لائے گا۔بالکل اسی طرح ہم بے ایمانی، کرپشن اور دھوکے بازی
کر کے کبھی بھی یہ اُمید نہیں کر سکتے کہ معاشرے میں دوسرے لوگ یہ سارے کام
کرنا چھوڑ دیں جبکہ معاشرے میں اپنی ایمانداری کی ایک اعلیٰ مثال قائم کر
کے ہم دوسرے پر خود کو تبدیل کرنے کا ایک گہرا اثر چھوڑ سکتے ہیں۔ جب بات
خود کو تبدیل کرنے کی ہوتی ہے تو ہمیں اپنے مسائل پر رونا آ جاتا ہے اور
اسکا ذمہ دار بھی ہم دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔
ہم معاشرے میں تبدیلی لانے کیلئے پہلے خود کو تبدیل کرنا ہوگا، معاشرے میں
تبدیلی خود بخود آنے لگے گی ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیاکے ہر انسان
کو کبھی نہ کبھی بُرے وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ بُرا وقت ہی ہوتا
ہے جو ہمیں مستقبل میں آنیوالی مشکلات سے نمٹنے کیلئے تجربہ دیتا ہے۔ اگر
آپ کے پاس تجربہ ہے تو آپ ہر طرح کے مشکل حالات کا سامنا کر لیں گہ لیکن یہ
تجربہ بھی مشکل حالات کا سامنا کرنے سے ہی ملے گا۔ دوسرے مرحلے میں اپنی
کسی بھی مشکل یا پریشانی کی صورت میں طیش میں مت آئیں اور نہ ہی اپنی
مشکلات کا الزام دوسروں پر لگائیں۔ آپ کو صرف پُر سکون ہو کر اپنے حالات کا
جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اپنے مشکلات کے تمام ممکنہ حل سوچ کر ایک بہتر
لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے تب ہی آپ کا مسئلہ حل ہو سکے گا جبکہ دوسروں
کو الزام دینے سے یا ہر ایک کے سامنے رونے سے مسائل اپنی جگہ برقرار رہیں
گے۔ دوسروں کو اپنی پریشانیوں کو ڈھنڈورا دینے سے آپکے مسائل اور زیادہ بڑھ
سکتے ہیں۔ آپ پریشانیوں کا جتنا زیادہ تذکرہ کریں گے اتنا ہی ڈپریشن کا
شکار ہوتے رہیں گے۔ آپ کا دھیان صرف پریشانی پر رہے گا کبھی اسکی حل کی
جانب نہیں جائے گا۔جب آپ اپنے مسائل حل کرنے کے قابل ہو جائیں تو اپنی
سوسائٹی میں اپنے اردگرد کے لوگوں کے حالات اور مشکلات کا جائزہ لیں اور
انکے مسائل حل کرنے میں نہ صرف ایک اچھا مشورہ دیں بلکہ اپنی صلاحیت کے
مطابق اُنکی مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ
ہمیں نہ صرف سکون اور اطمینان دیتا ہے بلکہ اسکی برکت سے ہماری اپنی کئی
پریشانیاں آنے سے پہلے ہی ٹل جاتی ہیں۔ جب تک ہم اپنی منفی سوچوں کو خود سے
الگ نہیں کریں گے ہم بدلے میں کبھی بھی مثبت نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے
اور جب ہم اپنے اردگرد مثبت چیزیں تلاش کرنے لگیں گے تو ہمیں ہر چیز مثبت
دکھائی دینے لگے گی۔ہمارے معاشے میں بے روزگاری سے لے کر مہنگائی تک
لاتعداد مسائل موجود ہیں۔ ہمارے لئے بہت ہی آسان ہے کہ ہم ان ساری وجوہات
کا الزام حکومت کو دیں لیکن خود کی کی گئی کرپشن، بے ایمانی اور دھوکے بازی
کو برقرار رکھیں۔ ہمارے معاشرے میں موجود برائیوں کی نشاندہی تو ہر شخص
کرتا ہے لیکن اسی معاشرے سے کوئی اُٹھ کر ان برائیوں کو ٹھیک کرنے کی ہمت
کوئی نہیں کرتا۔ ہم ایک ایسا لیڈر تو چاہتے ہیں جو ہمارے مسائل کی آواز
اُٹھائے لیکن خود لیڈر بن کر ان مسائل کو حل کرنے کی جرا ء ت کسی میں نہیں
ہے۔اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے ہمیں اشرف المخلوقات
بنایا ہے۔ ہم اس قابل ہیں کہ اپنی زندگی میں ، اپنے گھر میں اور اپنے
معاشرے میں ہر طرح کی تبدیلی لا سکتے ہیں لیکن ہمیں اتنا بھی گوارا نہیں ہے
کہ اس تبدیلی کی ابتداء ہم اپنی ذات سے کریں کیونکہ ہم خود کو تبدیل کرنے
کے لئے تیار نہیں۔ |