دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک میں جہاں شہر، دیہات اور گاؤں
ہوتے ہیں، وہیں ان ملکوں کے دور دراز علاقوں میں بہت سی بے نام چھوٹی چھوٹی
بستیاں بھی ہوتی ہیں- ان بستیوں میں بسنے والے لوگ ایک طرح سے تہذیب یافتہ
لوگوں سے کٹے ہی رہتے ہیں- انہیں وہ سہولیات بھی میسر نہیں ہوتیں جنہیں
انسانوں کا بنیادی حق کہا جاتا ہے- ایسی بستیوں میں رہنا اور ان میں رہ کر
زندگی گزارنا ان کی مجبوری ہوتی ہے – یہاں رہتے ہوۓ انھیں بہت سی تکلیفوں
کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے -مگر رفتہ رفتہ وہ اس کے عادی ہوجاتے ہیں-
یہ ذکر بھی افریقہ کے کسی علاقے کی ایک ایسی ہی بستی کا ہے جو سالوں پہلے
بس اچانک ہی وجود میں آگئی تھی- اس بستی کے نزدیک ایک بہت بڑا دریا بہتا
تھا اور آس پاس گھنے جنگلات تھے- بہت عرصہ پہلے سیاہ فاموں کی ایک کثیر
تعداد یہاں آکر بس گئی تھی- یہ لوگ مسلمان تھے – یہاں آنے سے پہلے وہ بر
اعظم افریقہ کے جس ملک میں رہتے تھے وہاں کی اکثریت خود بھی سیاہ فام تھی
مگر کسی دوسرے مذہب کے ماننے والی تھی- یہ تو پہلے بھی ہوتا تھا اور آج بھی
بھارت اور میانمار وغیرہ جیسے ملکوں میں ہوتا ہے کہ برے کردار اور برے
خیالات رکھنے والے لوگوں کی اکثریت کا سلوک اقلیتوں سے اچھا نہیں ہوتا- وہ
مختلف حیلے بہانوں سے اپنے ملک میں رہنے والی اقلیتوں کی نہ صرف بے عزتی
کرتے ہیں بلکہ انھیں جانی اور مالی نقصان بھی پہنچاتے ہیں- ان کے اس
ظالمانہ اور انسانیت سوز فعل کے پیچھے انھیں اپنی عددی برتری کا زعم ہوتا
ہے اور وہ خود کو ہر چیز سے بلند و بالا سمجھنے لگتے ہیں- اس کی تازہ مثال
انڈیا میں نظر آتی ہے جہاں انتہا پسند ہندو مسلمان شہریوں کا قتل عام کر
رہے ہیں- قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی ان کے وحشیانہ ظلم و ستم پر
آنکھیں بند کر رکھی ہیں- اس بستی میں بسنے والے یہ لوگ بھی ایسے ہی سفاک
لوگوں کے بے پناہ ظلم و ستم سے مجبور ہو کر وہاں سے نقل مکانی کرنے پر
مجبور ہو گئے تھے-
جس علاقے میں ان لوگوں نے پناہ لی تھی وہ آبادیوں سے میلوں دور تھا- یہاں
نزدیک ہی ایک دریا بھی بہتا تھا جس میں مچھلیوں کی بہتات تھی- پھر یہ علاقہ
کافی سر سبز بھی تھا- یہاں پر بسنے والے لوگ جہاں کھیتی باڑی کرتے وہیں ان
میں سے بہت سے لوگوں نے مچھلیاں پکڑنا شروع کردی تھیں- رفتہ رفتہ اس بستی
کی آبادی بڑھتی گئی اور اب اس بستی میں تقریباً دو ڈھائی ہزار مرد، عورتیں
اور بچے رہا کرتے تھے- اس بستی میں زندگی گزارنے کے لیے مناسب سہولیات
دستیاب نہیں تھیں- یہاں کے اکثر لوگوں کو اور خاص طور سے بچوں کو بیرونی
دنیا اور ان میں رہنے والوں کے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا کیوں کہ وہ یہاں سے
نکل کر کبھی دوسرے علاقوں میں گئے ہی نہیں تھے-
سواری اور بار برداری کے لیےبہت سے لوگوں کے پاس خچر تھے اور کچھ نے گھوڑے
بھی پال رکھے تھے- ان کی رہائش درختوں کے تنوں اور گھاس پھوس سے بنی ہوئی
جھونپڑیوں میں تھی اور گزر بسر کا ذریعہ مچھلیاں، مویشی، زراعت اور پھل
تھے- جو لوگ مچھلیاں پکڑتے تھے وہ انھیں دور دراز کی آبادیوں میں لے جا کر
فروخت کردیا کرتے تھے- ان کی دیکھا دیکھی بستی کے کچھ لوگوں نے سبزیاں ،
پھل اور اناج ان آبادیوں میں لے جا کر فروخت کرنا شروع کردئیے- ان چیزوں کو
فروخت کر کے انھیں جو پیسے ملتے تھے ان سے وہ لوگ ان ہی علاقوں میں موجود
مارکیٹوں اور دکانوں سے اپنی ضروریات کی مختلف اشیاء خرید کر گھر لے آتے
تھے-
اسی بستی میں چار افراد پر مشتمل ایک خاندان بھی رہتا تھا- میاں بیوی اور
ان کے دو بچے- بڑا بچہ احمد پندرہ سال کا اور چھوٹا بچہ عابد دس سال کا
تھا- یہ بھی بستی کے دوسرے باشندوں کی طرح سیاہ فام تھے- ان کا باپ دریا
میں جال ڈال کر مچھلیاں پکڑتا تھا- جس روز اس کے جال میں زیادہ مچھلیاں
آجاتیں تو وہ انھیں خچر پر لاد کر کوسوں دور کی آبادیوں میں بیچ آتا-
اس کی بیوی بستی کی دوسری عورتوں کی طرح گھر میں رہ کر کام کاج کرتی- اسے
اپنی بھیڑ بکریوں اور بہت سی مرغیوں اور بطخوں کی دیکھ بھال بھی کرنا پڑتی
تھی- اس کے شوہر نے گھر کے پچھواڑے بہت ساری زمین پر سبزیوں کے پودے اور
پھلوں کے درخت بھی لگا رکھے تھے- احمد گھر کے کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹاتا
تھا- عابد میں زیادہ سمجھ نہیں تھی- وہ احمد کی طرح ذمہ دار بھی نہیں تھا
اس لیے وہ ان کاموں سے کتراتا تھا اور دن بھر بستی کے ہم عمر بچوں کے ساتھ
کھیلتا پھرتا- اس بستی میں پڑھنے لکھنے کا رواج نہیں تھا کیوں کہ یہاں پر
مدرسے نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی- بستی کے تمام بچے دن بھر کھیلتے کودتے
اور رات ہوتی تو گھر آجاتے- عابد بھی یہ ہی کیا کرتا تھا-
مگر بستی کے مخصوص ماحول میں رہنے کے باوجود احمد ایک سمجھدار لڑکا تھا-
اسے علم تھا کہ بڑے ہو کر اسے بھی مچھلیاں پکڑ کر گزارہ کرنا ہوگا- اس لیے
وہ صبح سویرے جلد بیدار ہو کر باپ کے ساتھ دریا پر چلا جاتا تھا- دریا پر
جاتے جاتے وہ ایک بہترین تیراک بھی بن گیا تھا اور باپ کو دیکھ دیکھ کر اسے
مختلف طریقوں سے دریا میں جال پھینک کر مچھلیاں پکڑنا بھی آگیا تھا-
چونکہ اس کا باپ مچھلیاں بیچنے کے لیے دور دراز کے علاقوں میں جاتا تھا، اس
لیے اس کی ملاقات بھانت بھانت کے لوگوں سے ہوتی رہتی تھی- ان لوگوں سے
گفتگو کر کے اسے نئی نئی اور عقل کی باتیں بھی پتہ چلتی تھیں اور اسے اچھی
بری باتوں کی کافی تمیز ہوگئی تھی- دریا پر پہنچ کر مچھلیاں پکڑنے کے دوران
وہ احمد کو زمانے کی اونچ نیچ بتایا کرتا تھا- اس کے علاوہ اسے جتنی بھی
اچھی اچھی باتیں پتہ تھیں، وہ انہیں اس کے سامنے بیان کرتا- احمد کے باپ کو
احساس تھا کہ دوسروں کی نفرت کے سبب انھیں اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا تھا جس کا
اس کو بہت دکھ تھا- اسے اپنی وہ جگہ بہت یاد آتی تھی جہاں وہ پیدا ہوا تھا
اور جہاں کھیل کود کر وہ بڑا ہوا تھا- ہر کمزور اور بے بس انسان کی طرح اس
نے بھی اس ظلم پر صبر کرلیا تھا- اپنے ساتھ ہونے والے اس ناروا سلوک کے
باوجود وہ احمد کو دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر اور محبّت سے رہنے کا
سبق بھی دیتا تھا- وہ اسے یہ بھی سمجھاتا تھا کہ دنیا کے سب انسانوں کو
الله نے بنایا ہے اور ان سب سے محبت کرنا چاہیے اور ان کی عزت کرنا چاہیے-
اگر ہم کسی انسان کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں تو یہ غرور کی نشانی ہوتی ہے
اور غرور کرنا ایک بہت بری بات ہوتی ہے-
احمد ہمیشہ اپنے باپ کی باتوں کو بہت توجہ اور دھیان سے سنتا تھا- وہ اس
بات پر حیران بھی ہوتا تھا کہ اسے کتنی اچھی اچھی باتیں معلوم ہیں- باپ کی
بتائی ہوئی باتوں نے اس کا دل گداز کردیا تھا جس کی وجہ سے اس کے دل میں
دوسروں کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوگیا تھا- وہ کوشش کرتا تھا کہ بستی
میں رہنے والا کوئی بھی شخص اگر کسی پریشانی میں مبتلا ہو تو وہ اس کی مدد
کرے- وہ چھوٹے موٹے کاموں میں بھی بستی کی بوڑھی اور کمزور عورتوں کا ہاتھ
بٹاتا تھا- اس کے علاوہ وہ اپنے باپ سے سنی ہوئی باتیں اپنے ہم عمر لڑکوں
کو بھی بتاتا تھا تاکہ وہ بھی ان پر عمل پیرا ہو سکیں-
یوں تو احمد کو اپنی بستی کے تمام چھوٹے بڑے تمام لوگ بہت خوب صورت لگتے
تھے مگر اسے اپنی ماں ان سب سے زیادہ حسین لگتی تھی- وہ گہری سیاہ چمکدار
رنگت، بڑی بڑی آنکھوں، موٹے موٹے ہونٹوں ، گھنگریالے بالوں اور چھوٹی سی
ناک والی ایک صحت مند عورت تھی- بچپن میں جب وہ اسے گود میں لے کر سلاتی
تھی تو اسے اس کا چہرہ اتنا اچھا لگتا تھا کہ وہ اسے دیکھتے دیکھتے سو جاتا
تھا- اب جب وہ کچھ بڑا ہوا تو وہ سوچتا تھا کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی
کرے گا جو خوب صورتی میں اس کی ماں کی طرح ہوگی- کبھی کبھی وہ اس بات پر
فکر مند بھی ہوجاتا تھا کہ اگر اسے اتنی خوب صورت لڑکی نہ ملی تو کیا ہوگا-
یہ سب باتیں وہ دل میں سوچا کرتا تھا- ان کا تذکرہ کسی سے نہیں کرتا تھا-
ایک روز جب وہ اپنے چھوٹے بھائی عابد کے ساتھ اپنی جھونپڑی سے کچھ فاصلے پر
دریا سے لائے ہوۓ چکنے اور گول گول پتھروں سے کھیل رہا تھا تو ایک گاڑی
دھول اڑاتی ان کی بستی میں داخل ہوئی- اس گاڑی میں یورپ کے کسی ملک کی ایک
فیملی تھی – وہ لوگ گھومنے پھرنے نکلے تھے اور اب اس دریا کے کنارے پکنک
منانے کی غرض سے آگئے تھے- یہ پہلا اتفاق تھا کہ کوئی گاڑی وہاں آئ تھی-
بستی کے بچے گاڑی دیکھ کر بہت خوش ہوۓ- ان بچوں میں تقریباً تمام بچے ہی
ایسے تھے جنہوں نے آج تک گاڑی نہیں دیکھی تھی- وہ گاڑی کے چاروں طرف کھڑے
ہو کر حیرت سے آنکھیں جھپکاتے ہوۓ اسے دیکھے جا رہے تھے-
احمد اور عابد بھی اپنا کھیل روک کر ان لوگوں کو دیکھنے لگے- عابد گاڑی کے
پاس جانا چاہ رہا تھا مگر احمد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے آگے جانے سے روک
دیا-
گاڑی کا دروازہ کھلا اور اس میں سے بہت ہی گورے رنگ کی ایک دبلی پتلی عورت
باہر نکلی- اس عورت کا سفید رنگ دیکھ کر عابد کی آنکھوں میں عجیب سی حیرت
نظر آئ- اس کے بال بھی کالے نہیں تھے، سنہری تھے- عابد نے سوالیہ نظروں سے
اپنے بھائی کی طرف دیکھا- وہ بھی اس عورت کی جانب ہی دیکھ رہا تھا-
تھوڑی دیر بعد گاڑی میں سے دو بچے اور ان کا باپ باہر نکلا- دونوں بچے اور
ان کا باپ بھی سفید فام تھے اور عورت کی طرح ان کے بال بھی سنہری تھے- عابد
نے اپنا ایک ہاتھ آگے کرکے الٹ پلٹ کر اس کا جائزہ لیا اور دوبارہ ان سفید
فام لوگوں کو دیکھا- اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ نمودار ہو گئی تھی- اس نے
احمد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا- "دیکھو- دیکھو- ان لوگوں کا رنگ کیسا
ہے- اور ان کے بال بھی........"- یہ کہہ کر وہ منہ دبا کر ہنسنے لگا-
خود احمد نے بھی آج تک اس رنگت کے انسان نہیں دیکھے تھے- انھیں دیکھ کر اسے
بھی حیرت ہوئی تھی مگر اس کے دل میں ان کا تمسخر اڑانے کا خیال پیدا نہیں
ہوا تھا کیوں کہ وہ ایک اچھا لڑکا تھا- اسے پتہ تھا کہ کسی انسان پر کسی
بھی وجہ سے ہنسنا یا اس کا مذاق اڑانا اس کی دل آزاری کا سبب بنتا ہے- اس
ہنسی میں اور مذاق اڑانے میں غرور کا عنصر شامل ہوتا ہے- عابد کی بات سن کر
اس کے چہرے پر ایک رنگ سا آکر گزر گیا تھا-
اس نے گھبرا کر گاڑی سے اترنے والوں کی طرف دیکھا- یہ دیکھ کر اسے اطمینان
ہوا کہ ان چاروں میں سے کسی نے بھی عابد کو ہنستے ہوۓ نہیں دیکھا تھا- وہ
عورت اپنے بیگ میں سے ٹافیاں اور بسکٹ نکال نکال نکال کر بچوں کو دے رہی
تھی- دونوں بچوں اور ان کے باپ کا دھیان بھی اسی کی طرف تھا-
عابد ان لوگوں کی طرف دیکھ کر ابھی تک ہنس رہا تھا- احمد نے اس کے منہ پر
ہاتھ رکھ دیا اور اسے جھونپڑی کی جانب کھینچتے ہوۓ سرزنش بھرے لہجے میں
بولا- "گھر چلو- اگر وہ تمہیں خود پر ہنستا دیکھیں گے تو انھیں کتنا دکھ
ہوگا- یہ ٹھیک ہے کہ وہ بے چارے ہماری طرح نہیں ہیں لیکن ان کے سفید رنگ پر
ہنسنا یا ان کا مذاق اڑانا اچھی بات نہیں- یہ غرور کی نشانی ہے اور مجھے
بابا نے بتایا تھا کہ غرور کرنا بہت بری بات ہوتی ہے!"
(ختم شد)
|