مکافات عمل سے بچیں

تحریر : محمد ارسلان رحمانی
آج حمزہ صاحب کچھ زیادہ ہی خوش دکھائی دے رہے تھے، حمزہ میرا دوست تھا، آج اس کے چہرے پر معمول سے ہٹ کر بے انتہا خوشی دیکھی تو وجہ معلوم کرنے کی طلب بڑھی، قریبی ہوٹل پر لے گیا، چائے آڈر کردی، باتوں باتوں میں پوچھ ہی لیا۔

حمزہ صاحب بھی بڑے فخر سے بتانے لگے،رحمانی بھائی بس کیا بتاؤں، آپ سے ایسی بات کرتے ہوئے بھی جھجھک ہورہی ہے، سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کو بتاؤں بھی یا نہیں، ایسا نہ ہو آپ غصہ کرجائیں، ارے نہیں بلاوجہ کیوں غصہ کرونگا میں آپ پر،کھل کر بتائیں کونسی ایسی بات ہے کہ چہرہ خوب ہشاش بشاش ہے آپکا۔

میری اس تسلی بخش حوصلہ افزائی کے بعد حمزہ کی کچھ ہمت بندھی اور بتانا شروع ہوا۔

رحمانی بھائی! ہوا کچھ یوں کہ کل رات فیس بک پر ایک لڑکی جو کافی عرصے سے میری فرینڈ ہے لیکن آج تک ملاقات نہیں ہوئی۔ کافی کوشش کے بعد اس بار ملاقات کا پلان بن ہی گیا۔ اب سوچ رہا کہ کیا گفٹ دیا جائے اور کہاں کہاں گھمایا جائے۔

حمزہ اس طرح کی باتیں کرتا جارہا تھا اور میرے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہونا شروع ہوچکے تھے۔ حمزہ بھی میرے چہرے کو دیکھ کر بھانپ چکا تھا کہ حالات خراب ہوچکے ہیں۔ حمزہ خاموش ہوچکا تھا اور اب اس انتظار میں تھا کہ اب ڈانٹ پڑنے والی ہے۔

لیکن میں نے دل ہی دل میں سوچا جو اثر پیار سے اور آرام سے سمجھانے میں ہوگا وہ ڈانٹ ڈپٹ سے نہیں،میں نے اپنے غصے پر قابو پایا اور تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد حمزہ سے گویا ہوا۔

دیکھو میرے دوست! سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم الحمدﷲ مسلمان ہیں،اچھا اور کامیاب مسلمان وہی ہوتا ہے جو اپنے رب، اپنے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کی بتائی ہوئی باتوں کو دل سے مانے، اﷲ تعالی نے قرآن مجید میں ہمیں اس بات سے منع کیا ہے کہ ہم کسی غیرمحرم سے ملیں یا ان سے بات چیت کریں۔ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے بھی منع کیا ہے۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے رب اور اپنے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کی باتوں کو دل و جان سے تسلیم کریں۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ سب غیر مسلموں کا طریقہ ہے اگر ہم بھی ان کی دیکھا دیکھی ایسا کچھ کرنے لگے تو پھر ان میں اور ہم میں فرق کیا رہ جائے گا؟ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جو شخص جن سے محبت رکھے گا بروز قیامت انہی کے کھڑا کیا جائے گا، کیا آپ کو پسند ہے کہ قیامت کے دن غیرمسلموں کے ساتھ کھڑے ہوں؟
نہیں رحمانی بھائی، حمزہ نے دھیمی آواز سے جواب دیا۔
ایک اور بات بتائیں، پوری ایمانداری سے بتائیے گا۔۔۔

جس طرح آپ کسی اور کی بہن یا بیٹی کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں یا ملنا چاہتے ہیں، کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ آپ کی بہن کے ساتھ کوئی غیر اس طرح بات چیت کرے یا ملاقاتیں کرے یا گفٹ دے؟ یا کل کو آپ کی بیٹی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ اس طرح کی باتیں پسند کریں گے؟

ارے رحمانی بھائی! کیسی بات کررہے ہیں۔ یہ تو کوئی بھی بھائی یا باپ پسند نہیں کرے گا۔ (حمزہ نے نم آنکھوں سے جواب دیا)۔

حمزہ کو اب پوری بات سمجھ آچکی تھی۔ اس کی آنکھیں شرمندگی کے ساتھ ساتھ نم بھی ہوچکی تھی۔ حمزہ وعدہ کر رہا تھا کہ آج سے اس کام سے توبہ ہے،کسی غیر سے بات نہیں کرونگا،غیرمسلموں کا کوئی تہوار نہیں مناوں گا۔ میں نے بھی دل دل میں اﷲ کا شکر ادا کیا اور یوں محفل برخاست ہوئی۔
بے حیائی تو ویسے بھی پوری دنیا میں عام ہوچکی ہے۔ مغربی ممالک کی تو بات ہی نہیں کرسکتے اب تو ہمارے اسلامی ممالک بھی اس میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ اچھے اچھے مسلمان اس لت میں پڑچکے ہیں۔

آپ کو جو دل کرے کریں، آزاد زندگی گزاریں مگر یاد رکھیں، اپنے رب اور اپنے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کو منہ بھی دکھانا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آج آپ جو کچھ کسی کی بہن، بیٹی کے ساتھ کررہے کل کو آپ کی بہن اور بیٹی کے ساتھ بھی ہونا ہے۔ مکافات عمل کی چکی چلتی بہت ہلکی ہے لیکن جب چلتی ہے تو پھر پیستی بہت باریک ہے، خیال کیجیے گا۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141765 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.