ندا کی عبید سے شادی کو چند ماہ ہوۓ تھے- وہ اپنے سسرال
میں بہت خوش تھی- ایک تو دوسری بہت سی لڑکیوں کی طرح وہ فطرتاً نیک اور
سلجھی ہوئی تھی- دوسرے اس کی ماں نے اس کی تربیت اس انداز میں کی تھی کہ اس
کے ذہن میں کبھی بھی دوسروں کے متعلق منفی خیالات پیدا نہ ہوں- اس تربیت نے
اسے خالص گھریلو عورتوں کی طرح معاملہ فہم ، نرم دل اور سمجھدار بنا دیا
تھا- وہ اپنے اخلاق، روئیے اور ہمدردی کی وجہ سے دوسروں کو اپنا گرویدہ بنا
لیتی تھی- اس کی ماں بلا شبہ ایک بہت اچھے رکھ رکھاؤ والی خاتون تھی- اس کی
تربیت نے ندا کو بھی ان خواتین جیسا بنا دیا تھا جن کے لیے گھر اور گھر میں
رہنے والے ہی سب کچھ ہوتے ہیں اور اپنی خدمت اور ایثار سے ان سب کا خیال
رکھنا ہی ان کا سب سے اہم کام ہوتا ہے- ایسی عورتیں چھوٹے بڑے تمام رشتوں
کو بہت اہمیت دیتی ہیں جس کی وجہ سے خاندان مضبوط رہتے ہیں اور یہ بات تو
روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مضبوط خاندان ایک صحت مند معاشرے کے عکاس ہوتے
ہیں- ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے خاندان کے سب لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے
ہیں- ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں- بڑے اپنے چھوٹوں پر نظر رکھتے ہیں اور
بڑوں کی یہ غیر محسوس نگرانی ان کی بہتر تربیت میں مددگار ثابت ہوتی ہے جس
کی وجہ سے یہ منفی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں اور بڑے ہو کر معاشرے کے
بہترین افراد بنتے ہیں-
ندا کا سسرال زیادہ بڑا نہیں تھا- گھر میں اس کے ساس سسر، دو چھوٹے دیور
اور شوہر تھا- سسر سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوگیا تھا- اس کا شوہر کسی
سرکاری دفتر میں اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتا تھا- سرکاری ملازموں کی اکثریت
اپنے کام سے کام رکھنے والی ہوتی ہے- گھر اور آفس- اس کا شوہر عبید بھی اسی
روش پر چلتا تھا- وہ کسی حد تک ایک سخت گیر اور ہر وقت سنجیدہ رہنے والا
شخص تھا- اس کی محلے میں سلام دعا تو سب سے تھی مگر دوستی کسی سے نہیں تھی-
اس لیے آفس سے آکر وہ زیادہ تر گھر میں ہی رہتا تھا-
اس کے دونوں چھوٹے بھائی زیر تعلیم تھے- اس گھر میں ندا کے آنے سے پہلے ایک
بہت ہی روکھا پھیکا ماحول تھا- اس کی ساس اس کے دیوروں کا خیال تو بہت
رکھتی تھی مگر گھریلو مصروفیات کی وجہ سے انھیں وقت نہ دے پاتی تھی- اس کا
سسر کتابوں اور اخبارات میں ہی لگا رہتا تھا اس لیے دونوں بھائیوں سے اس کی
بھی کم بات چیت ہوتی تھی- خود عبید نے اپنے اور بھائیوں کے درمیان ایک
فاصلہ رکھا ہوا تھا- وہ دونوں اس سے ڈرتے بھی بہت تھے اس لیے اس سے زیادہ
بے تکلف نہیں ہوتے تھے- اس ماحول کی وجہ سے وہ دونوں زیادہ تر گھر سے باہر
ہی رہتے تھے-
عبید کی جب شادی کی بات چیت چلی تو اس کے چند دوستوں نے بیویوں کے غلط
روئیے کا تذکرہ اس سے کیا- اپنی ناسمجھی کے سبب وہ گھریلو جھگڑوں اور
تلخیوں کو ٹھیک طرح سے ہینڈل نہ کرسکے تھے- نتیجے میں ساس بہو اور نندوں
میں کھنچاؤ پیدا ہوگیا- گھریلو بدمزگیوں نے انھیں چڑچڑا بنادیا- اس چڑچڑے
پن کی وجہ سے نہ ان کا آفس میں دل لگتا تھا اور نہ گھر میں- وہ ہر وقت ایک
ذہنی دباؤ میں رہتے تھے-
ان کی کہانیاں سن سن کر عبید بھی پریشان ہوگیا تھا- اس کے دل میں یہ خدشات
جنم لینے لگے تھے کہ شادی کے بعد اس کے گھر میں بھی ساس بہو کے جھگڑے شروع
ہوجائیں گے- اس کے دوستوں کا کہنا تھا کہ عورت کو ذرا سی بھی ڈھیل دو تو وہ
سر پر چڑھ جاتی ہے اور من مانی کرتی ہے- ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوۓ عبید
نے یہ ہی بہتر سمجھا تھا کہ اپنے اور بیوی کے درمیان کچھ فاصلہ رکھے گا
تاکہ اسے سر پر چڑھ کر من مانی کا موقع نہ ملے- یہ ہی وجہ تھی کہ شادی کے
بعد وہ ندا سے زیادہ بے تکلف نہیں ہوا تھا-
ندا کی شادی سے پہلے گھر کے تمام کام اس کی ساس کو کرنا پڑتے تھے- ندا چند
روز تو شادی کی دعوتوں میں مصروف رہی- پھر اس نے بغیر ساس کے کہے گھر کے
کاموں کو اپنے ذمے لے لیا- اس کی ساس نے کہا بھی کہ وہ کھیر میں ہاتھ ڈالنے
کی رسم سے پہلے کوئی کام نہ کرے مگر وہ نہ مانی- اس نے کہا- " امی- آپ نے
زندگی بھر کام کیا ہے- اب آپ کے آرام کرنے کی باری ہے"-
اس نافرمانی پر اس کی ساس نے اسے ڈھیروں دعائیں دیں- آج تک اس کی خدمات کا
کسی نے زبان سے اظہار نہیں کیا تھا- سب یہ ہی سمجھ کر خاموش رہتے تھے کہ دن
رات گھر کے کاموں میں مصروف کسی عورت کی تعریف کرنے کی کیا ضرورت ہے، یہ تو
اس کا فرض ہوتا ہے- بہو کے منہ سے اپنے بارے میں یہ الفاظ اسے بہت ہی اچھے
لگے تھے اور وہ خوش ہوگئی تھی-
ندا کی عادت تھی کہ وہ خود کم بولتی تھی اور دوسروں کی زیادہ سنتی تھی- اس
کی اس عادت کی وجہ سے دوسرے لوگ خوش ہوتے تھے کہ وہ ان کی باتوں کو اہمیت
دیتی ہے- اپنی اچھی عادتوں کی وجہ سے ندا جلد ہی اپنے ساس سسر اور دیوروں
سے گھل مل گئی-
اس نے اپنے دیوروں کی دلچسپیوں میں بھی حصہ لینا شروع کردیا تھا- وہ ان کے
اسکول اور دوستوں کے بارے میں پوچھتی- ان کے اچھے کاموں کی تعریف کرتی اور
انھیں شاباش دیتی- اس کی باتوں نے اس کے دیوروں کو احساس دلایا کہ ان کی
بھی کوئی اہمیت ہے- انھیں گھر میں توجہ اور پیار ملا تو رفتہ رفتہ ان کی
گھر سے باہر رہنے والی عادت پہلے تو کم پھر بالکل ختم ہوگئی- وہ دونوں
اسکول سے آکر باری باری اسکول میں ہونے والی تمام باتیں اس سے شئیر کرتے-
وہ ان کی باتیں پوری توجہ اور دلچسپی سے سنتی اور موقع ہوتا تو اپنے اسکول
کا بھی کوئی ایک آدھ قصہ انھیں سنا دیتی- اسکول کا تذکرہ ہو اور انٹرویل کا
ذکر نہ ہو تو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا- وہ انٹرویل میں اپنی سہلیوں کے ساتھ
کون کون سے کھیل کھیلتی تھی اور خوانچوں والوں سے کیا کیا خرید کر وہ اور
اس کی سہلیاں کھاتی تھیں وہ سب انھیں بتاتی-
ندا نے خود بھی بی اے کیا ہوا تھا- اس کے ساس سسر تو دوپہر کھانے کے بعد
آرام کرنے لگتے اور ندا دونوں دیوروں کو لے کر ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھ
جاتی جہاں وہ دونوں اسکول کا کام کرتے- ندا ان کے کام پر دھیان رکھتی اور
جہاں ضرورت ہوتی، انھیں مشوره بھی دیتی- اپنی بھابی کی توجہ کی وجہ سے اب
انھیں پڑھنے لکھنے والا بورنگ کام بھی اچھا لگنے لگا تھا- وہ گھر کے چھوٹے
موٹے کاموں میں اس کی مدد بھی کرنے لگے تھے-
عبید نے بہت جلد گھر میں ہونے والی ان خوشگوار تبدیلیوں کو محسوس کرلیا
تھا- اب رات کے کھانے کے بعد تمام گھر والے ڈرائنگ روم میں بیٹھنے لگے تھے-
ندا چائے بنا کر لے آتی- چائے پینے کے دوران اس کا سسر اپنے زمانے کی باتیں
سناتا- اس کی ساس اپنے رشتے داروں کا تذکرہ کرتی اور اپنے بچپن کے قصے
انھیں سناتی- تھوڑی بہت بات سیاست پر بھی ہوجاتی- عبید کے دونوں بھائی لوڈو
یا کیرم لے آتے- ندا کی ساس کو کیرم تو کھیلنا نہیں آتا تھا - وہ لوڈو کی
بازی لگالیتی- ندا بھی ان لوگوں کے ساتھ شامل ہوجاتی-
یہ سب دیکھ دیکھ کر عبید کو احساس ہونے لگا تھا کہ اس کے خدشات بے بنیاد
تھے- ندا ایک بہت اچھی بیوی ثابت ہوئی تھی- گھر میں نہ کوئی کھٹ پٹ تھی اور
نہ ہی اس میں رہنے والے ایک دوسرے سے دور دور رہتے تھے- اس کے ماں باپ اور
دونوں بھائی ندا سے بہت خوش تھے- اس کی ماں اس سے کبھی کبھی کہہ بھی دیتی
تھی کہ اسے قسمت سے ایسی بیوی مل گئی ہے-
ندا نے ایک کام یہ بھی کیا کہ عبید سے کہہ کر گھر میں ایک اخبار لگوا لیا-
بچوں کے چند رسالے نکلتے تھے، وہ بھی اس نے منگوانا شروع کردیے- جب دوپہر
ہوتی تو اسکول کا کام ختم کر کے اس کے دونوں دیور اخبار اور رسالے پڑھنے
میں مصروف ہوجاتے- مطالعہ کی وجہ سے دونوں بھائیوں کی معلومات میں کافی
اضافہ ہونے لگا تھا- ان سب باتوں کا نتیجہ ان کے ماہانہ ٹیسٹوں سے بھی ظاہر
ہو رہا تھا- وہ دونوں اب اپنی جماعتوں میں سب سے زیادہ مارکس لیتے تھے-
عبید اس ماحول سے بہت خوش تھا- اب اس کا دل اپنے آفس کے کام میں بھی لگنے
لگا تھا کیوں کہ اس کے ذہن پر گھر کی کسی بات کی وجہ سے بوجھ نہیں ہوتا
تھا- آفس سے آکر وہ بھی گھر والوں کی دلچسپیوں میں حصہ لینے لگا- مہینے میں
ایک آدھ مرتبہ وہ سب گھر والوں کو باہر گھمانے پھرانے بھی لے جانے لگا- وہ
اپنے گھر کی خوشیوں اور سکون کا سبب ندا کو گردانتا تھا- دوستوں نے جو خوف
اس کے ذہن پر طاری کردیا تھا وہ اب دور ہوچکا تھا- تنہائی ہوتی تھی تو وہ
ندا کے قریب بیٹھ کر اس سے دنیا بھر کی باتیں بھی کرنے لگا تھا- اس کے محبت
بھرے روئیے کی ندا دل سے قدر کرتی تھی-
ندا اپنی شادی کے بعد بہت کم اپنی ماں کے گھر آئ تھی- ایک روز ان کی پڑوسن
ندا کی ماں سے ملنے آئ- باتوں باتوں میں ندا کا تذکرہ بھی نکل آیا- پڑوسن
بولی- "بہن- ایسا تو ہم نے بہت کم دیکھا ہے کہ شادی کے بعد لڑکی میکے کا رخ
ہی نہ کرے- ندا کی جب سے شادی ہوئی ہے، میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ وہ شائد
پانچ چھ مرتبہ ہی اپنے گھر آئ ہے- سسرال تو اس کے ذہن پر سوار ہوگیا ہے-
ادھر ادھر کی باتیں تو وہ بھول ہی گئی ہے- یہاں آتی ہے تو بھی وہیں کی
باتیں کرتی رہتی ہے- لگتا ہے اسے شوہر بہت اچھا ملا ہے"-
ندا کی ماں نے مسکراتے ہوۓ کہا- "شادی کے بعد کسی لڑکی کا میکے میں کم آنا
جانا ہو تو اس کی دو ہی وجوہات ہوتی ہیں- پہلی تو یہ کہ اس کے سسرال والے
اسے پابندیوں میں رکھتے ہیں- دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ وہاں بہت خوش ہے-
خدا کا شکر ہے میری ندا اپنے سسرال میں بہت خوش ہے- یہ حقیقت ہے کہ اس کا
شوہر بہت اچھا ہے لیکن بہن اچھا شوہر بنانے کے لیے اچھی بیوی بننا بہت
ضروری ہوتا ہے- مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میری بیٹی بہت اچھی بیوی ثابت
ہوئی ہے- خدا کرے وہ ہمیشہ ایسی ہی رہے"-
(ختم شد)
|