میرے گھر کے لاکر میں ایک لاکھ کے نوٹوں کی ایک گڈی بڑے
عرصے سے رکھی پڑی ہے ۔میں اس کو چھوتے ہی گھبرا جاتی ہوں۔یہ روپے کسی
ناجائز طریقے سے کمائے ہو ئےنہیں ہیں ۔ بڑی مشکل سے اپنی تنخواہ سے کچھ رقم
پس انداز کر کے میں ایک کمیٹی ڈالی تھی ۔سوچا تھا کہ عام پہننے کے لیےسونے
کا ایک ہلکا پھلکا سا سیٹ بنوا لوں گی ۔مگر جن دنوں یہ ایک لاکھ روپے کی
کمیٹی نکلی ایک اور ہی چکر چل پڑا۔
ان دنوں گھر میں مہمانوں کی آمد ورفت نے مجھے خاصا بوکھلایا ہو اتھا۔میرے
نئی نویلی دیوارنی کے میکے والے ، ہمارے محلے والے اور اردگرد کے کے رشتے
دار وں نے تو جیسے تانتا ہی باندھ لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ دلہن رانی تو میرے
ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے سے رہی۔ یہ میری ہی اکیلی جان تھی جو
اسکول کی نوکری ، بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو امور کی انجام دہی میں پسی
جارہی تھی ۔ایسے میں کوئ نہیں تھا جو ہمدردی کے دو بول کہہ کر ہی حوصلہ
بڑھا دیتا ۔اوروں کو تو چھوڑیے جب زندگی کا ساتھی ہی کو ئ توجہ نہ دے تو
کسی اور کا کیا گلہ کرنا ۔ان کا کا م تو دفتر سے فرصت کے اوقات میں اخبار
بینی ہی تھا ۔نجانے وہ مختلف اخباروں میں ایک جیسی خبریں پڑھ کر کیا کھوج
نکالنا چاہتے تھے۔میں اپنے مسائل ان حضرت کے پاس گوش گزار کرنے کی کو شش
بھی کر تی تو وہ اخبار میں سر نہیواڑے ہوں ہاں کرنے تک ہی اکتفا کرتے ۔ادھر
میں بس ٹھنڈی سانس بھر کر رہ جاتی ۔نجانے امجد ایسے کیوں تھے؟شاید اس لیے
کہ دنیا میں ایک بھائی کے علاوہ ان کا کوئی قریبی عزیز نہ تھا ۔پچھلے سال
والدین کے یکے بعد دیگرے جہان فانی سے چلے جانے کے بعد انہیں مزید چپ سی لگ
گئی ۔ دوسری جانب میرا یہ حال تھا کہ گھرداری مجھے اس طور گھیرے رکھتی کہ
اپنے شوہر کی ذات کے بکھرے گوشوں کو سمیٹنے کے لیے وقت کہاں سے لاتی ۔
پھرآخرکار مولا کریم نے میری مشکل آسان کردی۔کسی جاننے والے کے توسط سے ایک
گھریلو ملازمہ کا بندوبست ہو گیا ۔نذیراں نے آ کر کچھ اس خوبی سے میرے بے
ترتیب گھر کو سنبھالاکہ مجھے ذہنی تناؤاورہر وقت کی پریشانی سے نجات مل
گئی۔وہ صبح سویرے ہی پہنچ جاتی ۔میں بچوں اور میاں کے لیے ناشتہ تیار کر
رہی ہوتی ،اور اتنے میں وہ رات کے برتن دھو ڈالتی ۔ہم سب آرام سے ڈائنگ
ٹیبل پر ناشتہ کرتےاور وہ جلدی جلدی بچوں کے اسکول کا لنچ تیار کر کےپیک کر
دیتی۔ہم سب اپنی گاڑی میں وقت پر سہولت کے ساتھ نکل پڑتے۔ دن بھر وہ گھر کی
صفائ ستھرائ اور کپڑوں کی دھلائ اور استری میں مصروف رہتی۔ اس نے میرے گھر
کو چمکا کے رکھ دیا تھا۔میرے لیے تو وہ کسی جادو کے چھڑی سے کم نہ تھی ۔میں
اسے ماہانہ تنخواہ کے علاوہ بھی بہت سی چیزوں سے نوازتی رہتی۔
" ! بیگم صاب ماڑی بچی بیمار اے ۔ دوائ واسطے پیسے کوئ نا! "
اس کا یہ کہنا ہو تا اور میں چپکے سے اس کے ہاتھ میں رقم رکھ دیتی ۔جبکہ
میری دیوارنی مجھے اکثر منع کرتی کہ میں نذیراں کے نخرے اس حد تک نہ
اٹھاؤں۔
"بھابھی ان کام کرنے والیوں کا وطیرہ ہی یہی ہے کہ مختلف حیلے بہانوں سے
مالکوں سے پیسے بٹورتی رہتی ہیں۔"
نئی دلہن کا کہنا بجا تھا مگر میرا دل نذیراں کے دکھڑے سن کر موم ہو چکا
تھا ۔اس کا میاں نشے کا عادی ایک بیکار مرد تھا ۔چار اوپر تلے کے چھوٹے
بچوں کے علاوہ وہ دو سوتیلے بچے بھی پال رہی تھی۔پچھلے چند روز سے اس کی
نند کی شادی کا مسئلہ سر اٹھائے ہوئے تھا ۔اس کے گھر میں دو غیرشادی شدہ
نندوں کے علاوہ دیور، ساس اور سسر بھی رہتے تھے ۔ اتنے سارے لوگوں کا خرچہ
نذیراں ،اس کی ساس اور نندیں گھروں میں کام کاج کر کے بمشکل پورا کرتی
تھیں۔سسر اور دیور کو جب کوئ مزدوری ملتی تو کر لیتے ورنہ گھر میں پڑے
اینٹھتے رہتے ۔بہرحال گھروں میں کام کرنے والیوں کی کہانیاں ایک جیسی ہی
ہوتی ہیں۔مجھ سے جہاں تک ہوتا ،نذیراں کے شکوے شکایت سن سن کر سر کھپاتی
رہتی اور بعد میں کچھ نہ کچھ پیسے پکڑا دیتی ۔آخر کو وہ میری مددگار تھی ۔
میری دیورانی نے تو شادی کے چند روزبعد اعلان کر دیا تھا کہ وہ گھر کے اوپر
والے حصے میں اپنا کھانا پینا الگ رکھے گی ۔میں بھی دل ہی دل میں بہت خوش
ہوئ کیونکہ اکھٹے رہنے سے کو ئ نہ کو ئ جھگڑے کی بات ہو جانے کا امکان بڑھ
جاتا ہے ۔
ویسے وہ مزاج کی اچھی تھی ۔اکژ شام کو بن سنور کر اپنے میاں کے ساتھ ہمارے
ٹی وی لاؤنج میں آکر بیٹھ جاتی ۔ہم سب اکھٹے مل کر خوش گپیاں لگاتے اور
چائے پیتے۔دیوارنی کی سج دھج اور زیورات کی نمائش نے میرے دل میں رقابت کی
ہلکی ہلکی آگ کو سلگا دیاتھا ۔اب نذیراں کے آجانے کے بعد کچھ وقت مجھے
اپنےلیے ملنے لگا تھا ۔میں نے جب بھی آئینے میں اپنے آپ کو غور سے دیکھا تو
مجھے محسوس ہونے لگا کہ شادی کےدس سالوں نے مجھے خاصا روکھا پیکھا بنا دیا
تھا ۔دیور اور دیورانی جب میرے سامنے بیٹھے ذومعنی پیار بھرے جملوں کا
تبادلہ کرتے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں والہانہ طور پر ایک دوسرے پر نثار
ہوتے تو میں آنکھیں چرا کر امجد کی طرف دیکھنے لگتی ۔مگر ان کے چہرے پرکسی
ہلکے سے جذبے کی رمق بھی نہ ہوتی ۔ان کی نگاہیں تو سامنے چلتے ہوئے ٹی وی
کی سکرین پرجمی ہوتیں۔میں نے بھی دل میں تہیہ کر رکھا تھا کہ پچھلے ماہ جو
ایک لاکھ روپے کی کمیٹی نکلی تھی اس میں کچھ اور پیسے ڈال کر روز مرہ پہننے
کا نئے سٹائل کا سونے کا ہلکا پھلکا سیٹ بنوالوں گی ۔یہ بھی ٹھان لی تھی کہ
اپنے سراپے اور لباس پر توجہ دوں گی۔اسی طرح شایدہم دونوں میاں بیوی کے آپس
کے تعلقات میں کچھ خوشگوار تبدیلی آئے۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آخر میری محنت رنگ لے ہی آئ۔وہ چھٹی کا دن تھا ۔کئ
دنوں کی بحث کے بعد میں نے امجد کو منا لیا تھا کہ اتوار کو بچوں کے ساتھ
ہم پارک میں جاکر پکنک منا ئیں گے۔ بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔میں نے اس روز
اپنا بہترین سوٹ پہناجس کے گلے میں سنہری دھاگے سے نفیس کڑھائ کی گئ تھی
۔نجانے کتنے عرصے کے بعد امجد نے مجھے مسکرا کر دیکھا تھا۔
'' میں باہر گاڑی میں بچوں کو بٹھاتا ہوں! تم جلدی سے آجانا۔ "
پھر وہ اچانک مڑ کر بولے:
"آج تو جناب کی سج دھج ہی نرالی ہے ۔ کیا خیال ہے پکنک کا یہ پروگرام ہر
ہفتے ہی نہ بنا لیا جائے۔"
میرا دل تو خوشی کے مارے دھڑکنا ہی بھول گیا۔بچوں نے باہر پورچ میں خوب
اودھم مچا رکھا تھا ۔امجد پکنک کا سامان گاڑی میں رکھ رہے تھے، اور ادھر
میں نذیراں کو گھر کے کاموں کے بارے میں جلدی جلدی ہدایات دینے لگی ۔اچانک
ہی نذیراں میرے قدموں میں گر گئ۔
" -بیگم صایب ! اللہ دا واسطہ !مجھے ایک لاکھ روپیہ ادھار دے دیسو !"
"ایک لاکھ !!!نذیراں تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا؟؟میں تمہیں پہلے ہی
بتا چکی ہوں کہ اتنے پیسے میں نہیں دی سکتی۔"
بیگم صایب قسمے میرا یقین کر لو!میرا بابا کہتا ہے کہ وہ اپنی دکان بیچے
گااور کچھ وقت کے بعد تساں کا قرضہ اتار دے گا!''
نذیراں کی زبان میں اردو اور پنچابی کی ہمیشہ ملاوٹ ہوتی تھی اور بعض اوقات
مجھے سمجھنے میں مشکل آتی تھی ۔
'' آخر قصہ کیا ہے ؟مجھے بتاؤ تو سہی تمہں اتنے پیسے کیوں چاہیں؟ ''
''وہ جی۔۔۔۔۔۔ بیگم صایب جی !!میری نند کی شادی اے۔ میری ساس نندیں مارتی
ہیں۔یہ دیکھیں جی نیل ۔۔۔یہ زخم ویکھوجو میں نے ان کی مار سے کھادے ہیں۔''
اب وہ ہچکیاں لے کر رو رہی تھی اور میں بےبسی سے اس کو دیکھنے لگی۔
"وہ مجھے کہتی ہیں اپنے باپ سے کہو کہ گاؤں کی زمین پیچے ۔ہم نے شادی کرنی
ہے۔ پر بابا بولتا ہے کہ میں زمین نہ بیچاں گاں۔ اپنی دکان بیچاں گاں۔لیکن
اس کے پیسے ابھی نہیں ملیں گے ۔تین چارمہینے بعد ملیں گے ۔بیگم صایب تسی
پیسے دے دو میں اللہ کی قسمے واپس کر ساں۔"
باہر امجد ہارن پرہارن بجا رہے تھے اور ادھر نذیراں کی رام کہانی جاری تھی
۔
"اچھا نذیراں میں اپنے میاں سےپوچھ کر ہی بتا سکتی ہوں کہ پیسے دے سکتی ہوں
کہ نہیں ! "
میں نے گویا جان چھڑائ اور جلدی سے باہر نکل آئ ۔نذیراں نے میرے اچھے بھلے
موڈ کا ستیاناس کر دیا تھا۔گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے میں نے اپنے چہرے پر
دلفریب مسکراہٹ سجائ اور ہم سب ایک خوشگوار دن کا آغاز کرنے کے لیے روانہ
ہو گئے۔
امجد کے رویے میں اب خاصی مثبت تبدیلی آچکی تھی ۔کبھی کبھار وہ مجھ سے اپنے
دفتر کی باتیں کر لیتے تھے۔اکژ مجھے اور بچوں کو با ہر کھانا کھلانے بھی لے
جاتے۔اب ان کی طرف سے میں مطمئن ہونے لگے تھی تو ادھر نذیراں کی التجاؤں نے
میرا ناطقہ بند کر رکھا تھا ۔ایک لاکھ کو ئ ایسی معمولی رقم نہ تھی کہ میں
اسے ایسے ہی پکڑا دیتی ۔پھر بھی ایک آواز ایسی تھی کہ جو مجھے مجبور کرنے
لگی کہ میں اس بے بس اور غریب عورت کی مدد کر دوں۔ابھی میں اس گومگو کی
کیفیت ہی میں تھی کہ ایک روز اس کی بیٹی سخت گبھرائ ہوئ آئ ۔ وہ بہت جلدی
میں تھی ۔اس نے بتایا کہ اس کی ماں بیمار ہے اور کام پر نہیں آسکتی ۔دو دن
اسی طرح گزر گئے۔تیسرے روز میں کچن میں برتن دھو رہی تھی کہ نذیراں کی بیٹی
پھر آگئ۔ وہ رو رو کر بے حال ہوئ جا رہی تھی ۔
''بیگم صاحبہ جی میرے ماں مر گئ !! "
یہ کہہ کر وہ روتی ہوئ بھا گ گئ۔میرے ہاتھ میں جو برتن تھا وہ چھوٹ کر گر
پڑا۔نجانے کیسے میں نذیراں کے گھر پہنچی۔حالانکہ اس کا گھر جس بستی میں تھا
وہ ہمارے گھر سے کچھ زیادہ دور نہ تھی اس کے گھر کے دروازے پر پہنچی تو ایک
ایک قدم اٹھا نا مشکل ہو گیا ۔ لوگوں کے ہجوم کو کاٹتی ہوئ میں اس چارپائ
کے پاس پہنچی جس پر نذیراں کی میت رکھی ہوئ تھی ۔
اف خدایا !!۔۔۔میں وہ منظر کبھی بھلانہیں سکوں گی ۔
میں پہچان نہیں پا رہی تھی ۔ پر وہ نذیراں کی ہی لاش تھی مگر جلی ہو ئ تھی
۔میں چکرا کر نیچے گر پڑی ۔وہاں موجود عورتوں نے مجھے سنبھالا اور پانی
میرے منہ پر چھڑکا۔جب میرے حواس کچھ درست ہوئے تو میں نے پاس بیٹھی عورتوں
کی باتوں پر توجہ دی ۔ ان کے بیان کے مطابق اس کی ساس اور نندوں نے مل کر
مٹی کا تیل چھڑک کر اسے آگ لگائ تھی اور محلے بھر میں مشہور کر دیا تھا کہ
تیل کا چولہا پھٹنے سے آگ لگی تھی ۔جو قصے ،کہانیاں اور خبریں ہم اخبارات
اور رسائل میں پڑھتے ہیں ان میں سے ایک حقیقت کا روپ دھارے میرے سامنے
تھا۔یہ حقیقت اتنی اندھوناک ہو سکتی ہے میرے تصور میں ہی نہ تھا ۔
مجھے آج بھی سمجھ نہیں آتی کہ میں ان ایک لاکھ روپوں کا کیا کروں !سونے کا
سیٹ بنوا لوں ؟ نہیں کبھی نہیں !!
|