میری مرضی

آفس میں چائے کا وقفہ ہوا تھا- زاہد اپنے دوست وجاہت کے ساتھ کینٹین میں بیٹھا تھا- اس نے دو پیالی چائے کا آرڈر دے دیا تھا اور اب وہ دونوں چائے کے آنے کا انتظار کر رہے تھے- زاہد نے کچھ سوچتے سوچتے وجاہت کی طرف دیکھا اور بولا- "میرا جسم میری مرضی" تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟ "

وجاہت آفس میں کمپیوٹر وں کی دیکھ بھال کرتا تھا- اس نے مسکراتے ہوۓ کہا "میں اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں- تم تو مجھ سے یہ پوچھو کہ کمپیوٹر کی ونڈوز اڑ جائے تو کیا کرنا چاہیے- یا پھر انٹرنیٹ استعمال کرنے کی وجہ سے اس میں جو وائرس آجاتے ہیں انھیں کیسے ختم کیا جائے-"

"میری نظر میں تو ہمارا معاشرہ بھی ایک کمپیوٹر کی مانند ہوتا جا رہا ہے- اس میں طرح طرح کے وائرس داخل ہوگئے ہیں"- زاہد بولا- "پھر بھی تمہاری اس بارے میں کوئی رائے تو ہوگی- بے چاریاں جب دھوپ میں بڑے بڑے چشمے لگائے اس سلوگن کے پلے کارڈ اٹھا کر کھڑی ہوتی ہیں تو مجھے تو ان پر بہت ترس آتا ہے- کل تو بارش بھی ہو رہی تھی- میرا دل بھر آیا تھا"-

"تمہارے ترس کھانے کے اور دل بھر آنے کے لیے تو اور بھی بہت سی باتیں ہیں- کبھی ان پر بھی دھیان دے لیا کرو- بہرحال اس نعرے کے بارے میں میں کیا کہہ سکتا ہوں جب کہ مجھے یہ ہی پتہ نہیں کہ یہ مطالبہ کتنی عمر کی عورتوں کا ہے- میں ٹی وی دیکھنے کا شوقین نہیں ہوں ورنہ شکلیں دیکھ کر ضرور اندازہ لگانے کی کوشش کرتا" وجاہت نے کہا-

"تمہاری یہ بات کافی اہم ہے"- زاہد سر ہلا کر بولا- "اگر یہ مہم ساٹھ سال اور اس سے زیادہ عمر کی خواتین کی طرف سے چلائی گئی ہوتی تو اب تک فلاپ ہو چکی ہوتی- جیسی ہائپ اب ہے تب نہ ہوتی- لوگوں کی دلچسپی دیکھ کر میرا تو خیال ہے کہ یہ کام ساٹھ سال سے کم خواتین کا ہے- ہمارے کچھ بد بخت دوست تو اس بات پر خوش ہو رہے تھے کہ اگر یہ مہم تھوڑی بہت کامیاب ہوگئی تو انھیں انقلابی ٹائپ کی خواتین سے دوستیاں کرنے میں آسانی ہوجائے گی- اور اگر بہت زیادہ کامیاب ہوگئی تو پھر ان کی بھی وہ ہی اہمیت ہوجائے گی جو آج کل لڑکیوں کی ہے- کچھ نے تو نخرے کرنے کی پریکٹس بھی شروع کردی ہے- کچھ ایسے بھی ہیں جو مہنگی مہنگی پرفیومز کے نام ڈھونڈتے پھر رہے ہیں تاکہ ملاقات کے صلے میں بطور گفٹ لے سکیں"-

" زیادہ عمر کی خواتین سنجیدہ اور بردبار ہوتی ہیں- وہ ایسا مطالبہ کیوں کرنے لگیں- مجھے تو لگتا ہے کہ اس کافی حد تک نا معقول مطالبے میں وہ لڑکیاں شامل ہیں جنہوں نے ابھی عملی زندگی میں قدم نہیں رکھا ہے اور کسی کے بہکاوے میں آگئی ہیں- یہ تو سوچو کہ ایسی لڑکیوں اور خواتین کو جب ان کی مائیں زمانے کی اونچ نیچ بتا کر یہ تلقین کریں گی کہ فی زمانہ اپنے کام سے کام رکھنے میں ہی بھلائی ہے تو کیا وہ اس پر یہ کہیں گی کہ "امی- پلیز خاموش ہوجائیں- ایسی باتیں نہ کریں- میں نے کہہ تو دیا ہے کہ میرا جسم میری مرضی"- غور کرو یہ کہتے ہوۓ وہ کس قدر بیہوده لگیں گی"-وجاہت نے شرارت سے مسکراتے ہوۓ کہا-

"کچھ بھی ہو لیکن یہ بات بھی تو صحیح ہے کہ ہماے معاشرے کی خواتین کو وہ حقوق میسر نہیں جو ہمارے مذہب نے، آئین نے اور قانون نے انھیں دے رکھے ہیں"- زاہد بولا-

"یہ حقیقت ہے مگر اس حقیقت کا اس نعرے سے دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے- خواتین کو اگر ان کے حقوق نہیں مل رہے تو اس میں ہمارے اداروں کی کمزوری ہے- ادارے اگر قوانین پر سختی سے عمل کروائیں اور ان قوانین پر عمل نہ کرنے والوں کو بلا تاخیر سخت سزا دیں تو تو ملک کے اس سرے سے اس سرے تک ایک خاتون بھی ایسی نہ رہے جسے اس کے جائز حقوق نہ مل سکیں- بہتر یہ ہوگا کہ ان اداروں کو ٹھیک طرح کام کرنے پر مجبور کرنے کے لیے مہم چلائی جائے- ہم خود آفس سے چھٹی کے بعد اس مہم میں حصہ لینے کے لیے جایا کریں گے- یہ سب ہماری مائیں بہنیں ہیں- ان کے لیے ہم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں- یہ عجیب و غریب نعرہ خود سری تو پیدا کرسکتا ہے لیکن اس خود سری کے نتیجے میں خود خواتین کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں- ویسے بھی ہمارے اسلامی معاشرے میں اس طرح کی چیزوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے"- وجاہت نے کہا-

"کچھ بھی ہو مگر یہ ایک انوکھا نعرہ ہے- جانے اس کو بنانے میں ان بے چاریوں کو کتنا عرصہ لگا ہوگا"- زاہد نے کہا-

وجاہت بولا- "اس نعرے کی بھی ایک تاریخ ہے – تم نیٹ پر دیکھ لینا- مگر دنیا کے مردوں کی ایک کثیر تعداد صدیوں سے اسی نعرے پر حرف بہ حرف عمل پیرا ہے"-

اس کی بات نے زاہد کو چونکا دیا- "یہ نعرہ تو پچھلے سال سے سننے میں آ رہا ہے- تم نے اس کا سرا صدیوں سے جوڑ دیا ہے اور مردوں کو مورد الزام ٹہرا رہے ہو"-

"میں ٹھیک کہہ رہا ہوں- اگر تم حساب لگاو تو دنیا میں ہونے والی خرابیوں کا بڑا سبب مرد حضرات ہی ہوتے ہیں- ان کے ماں باپ، بیوی بچے، رشتے دار اور ان کے دوست احباب ان سے تھوڑا ہی کہتے ہیں کہ تم غلط کام کرو یا جرائم کی راہ پر چلو- یہ ہٹ دھرم ہوتے ہیں- اپنی مرضی چلاتے ہیں- مذہب اور قانون کی پاسداری نہیں کرتے اور یوں دنیا کو اپنی حرکتوں سے بے سکون کرتے ہیں- مذہب اور قانون کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی پر چلنا کتنا خطرناک ہوتا ہے تمہیں اندازہ ہوگیا ہوگا- یہ لوگ لا شعوری طور پر اسی بات پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ میری مرضی- میں جو چاہوں کروں- اپنی مرضی پر چلنے والے ان مردوں کی وجہ سے اس دنیا میں کتنی بے سکونی ہے- اب اگر خواتین بھی اس پر عمل کرنے لگیں تو سمجھ لو یہ بے سکونی دگنی ہوجائے گی"-

(ختم شد)

 

Mukhtar Ahmed
About the Author: Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mukhtar Ahmed: 70 Articles with 122389 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.