اوہو ! صبا ، کیا حال بنا رکھا ہے کمرے کا ، ہر چیز دھول
میں اٹی ہوئی ہے ۔ یہ کمرہ کم اور کباڑ خانہ زیادہ لگ رہا ہے ۔ کچھ تو خیال
رکھا کرو صفائی کا ، تم یہاں بیٹھتی کیسے ہو ۔ ارے بھابھی سیما چھوڑیں آئیں
بیٹھیں ، صبا ایک کرسی صاف کرتے ہوئے بھابھی کے بیٹھنے کی جگہ بنانے لگی ۔
رہنے دو ، صبا میں یہاں نہیں بیٹھ سکتی تمہیں پتہ تو ہے مجھے ڈسٹ سے الرجی
ہے ۔ صبا بھی بغیر شرمندہ ہوئے بھابھی کا ہاتھ پکڑ کر صحن میں لے آئی ۔
بھابھی آپ یہاں بیٹھیں میں آپ کے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں ۔ امی پڑوس میں
گئی ہوئی ہیں ابھی آ جائیں گی ۔ اسی وقت امی دروازے سے داخل ہوئیں تو صبا
انہیں دیکھتے ہی بولی ۔ لو ، دیکھیں امی بھی آ گئیں ۔ امی نے چادر اتار کر
صبا کو دے دی اور بہو کو ملنے کے بعد اسی کے ساتھ بیٹھ گئی ۔ وہ بیٹے اور
بچوں کا حال احوال پوچھنے لگیں ۔ صبا اندر چائے بنانے کے ساتھ پکوڑے بھی
تیار کرنے لگ گئی ۔ اس کو پتہ تھا باہر بھابھی حسبِ معمول اسی کو موضوع بنا
کر گفتگو میں مصروف ہوں گی ۔ امی اور بھابھی میں چاہے لاکھ اختلاف سہی مگر
وہ خالہ بھانجی بھی تھیں تو دکھ سکھ بھی بانٹ لیتی تھیں ۔ امی نے شادی کے
بعد بھائی بھابھی کو بہت جلد الگ گھر میں شفٹ کر دیا تو ان کے آپس کے
تعلقات بہتر چل رہے ہیں ورنہ ایک گھر میں رہنے سے مسائل بھی بڑھتے اور دلوں
میں بھی تنگی آ جاتی ۔ سیما امی کی بھانجی تھی ، اس کے مزاج سے واقف تھیں
تو مسائل سے بچنے کے لیے الگ گھر میں شفٹ کر دیا جو ابو نے پہلے ہی بیٹے کے
نام لیا ہوا تھا ۔ صبا اور سعد دو ہی بہن بھائی ہیں ۔ ابھی وہ بی اے کر رہی
تھی کہ ابو نے دوست کے بیٹے سے شادی کر دی ۔ اور اس کی شادی کے چھ ماہ بعد
ہی ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا اور ان کی جان لے گیا ۔ سب گھر والوں کے لیے بہت
مشکل وقت تھا ۔ سعد جو صبا سے بڑا اور ماسٹر کی ڈگری مکمل کرنے والا تھا
ابو کے آفس میں ہی ان کی سیٹ پر جاب مل گئی تو امی کو تسلی ہوئی کہ بیٹے کی
جاب کا مسئلہ تو حل ہوا ۔ پھر امی نے تنہائی دور کرنے کے لیے سعد کی بھی
ایک سال بعد اپنی بھانجی سیما سے شادی کر دی ۔ یہ رشتہ انہوں نے بہن سے
تعلق مضبوط بنانے کے لیے کیا اور بچوں کی بھی خوشی اسی میں تھی تو سیما کی
تنک مزاجی اور ضدی پن کے باوجود بہو بنا لیا کہ جب سر پر ذمہ داری آئے گی
تو ٹھیک ہو جائے گی ۔ دو ، تین سال تو گزارا ہو گیا ۔ مگر سیما کے مزاج میں
کوئی بدلاؤ نہیں آیا ۔ دو بیٹوں کی پیدائش کے بعد تو اور تنک مزاج ہو گئی ۔
صبا کے ہاں اولاد نہ ہوئی تو سسرال میں طعنے ملنے شروع ہو گئے ڈاکٹر کہتیں
جب اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہو گا تو بچے بھی ہو جائیں گے پریشانی کی کوئی
بات نہیں ۔ مگر سسرال والے زیادہ عرصہ برداشت نہ کر سکے ۔ شوہر نے طلاق دے
دی اور دوسری شادی کر لی ۔ صبا امی کے گھر آگئی تو بھابھی کا مزاج اور بگڑ
گیا ۔ امی نے سعد کو الگ گھر میں شفٹ کر دیا ۔ وہ بیٹے کا گھر آباد دیکھنا
چاہتی تھیں تو خاموشی سے الگ کر دیا ۔ صبا بھی سب سمجھتی تھی ۔ حالات نے
بہت کچھ سمجھا دیا تھا ۔ قریبی سکول میں جاب کر لی تو مصروف وقت گزرنے لگا
۔ امی کو ہر وقت اسکی پریشانی لگی رہتی ۔ وہ کوشش میں تھیں کہ کسی طرح اچھی
اور مناسب جگہ شادی کر دیں ۔ مگر ایک طلاق یافتہ کو اتنی آسانی سے کون قبول
کرتا اور جب پتہ چلتا پہلے طلاق اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی تو لوگ مزید
پیچھے ہٹ جاتے ۔ امی صبا کو دیکھتیں تو کڑھتی رہتیں ۔ یہ وہی صبا تھی جس پر
صفائی کا خبط سوار رہتا تھا ۔ گھر کے کونے کونے کی روزانہ صفائی کرتی اور
پھر بھی مطمئن نہیں ہوتی تھی ۔ بھابھی سیما تو یہ کہہ کر فارغ ہو جاتیں کہ
مجھے ڈسٹ سے الرجی ہے ۔ مگر اب وہی صبا ہے جو کئی دنوں تک گرد آلود اشیاء
کی طرف دیکھتی بھی نہیں ۔ اب امی کہتیں یا بھابھی جب آتیں تو کہتیں صبا یہ
کیا حال بنا رکھا ہے تو آرام سے کہہ دیتی کچھ نہیں ہوتا ۔ باقی گھر کی
صفائی تو اب کام والی کر جاتی مگر اپنے کمرے کی صفائی کروانے سے اس نے خود
منع کر رکھا تھا ۔ امی اس کے لہجے میں چھپی اذیت کو بھانپ لیتیں اور چپ کر
جاتیں تھیں ۔ وہ زیادہ وقت اپنے کمرے میں ہی گزارتی تھی ۔ گرد آلود اشیاء
کو دیکھتی تو اس کو پوری زندگی ہی گرد سے اٹی نظر آتی ۔ رشتوں پر پڑی گرد
اس سے زیادہ خطرناک اور آلودہ ہے ۔ اس نے گرد میں چھپے زہر سے خطرناک لہجوں
کو جھیلا تھا ۔ وہ سوچتی یہ گرد تو معمولی سی محنت سے صاف ہو جاتی ہے ۔ مگر
ہمارے گرد میں اٹے وجود ہمیں نظر ہی نہیں آتے ۔ یہ نظر نہ آنے والی گرد کون
صاف کرے گا ۔ خود ہی سوال کرتی اور جواب نہ ملنے پر نڈھال ہو کر دھول میں
اٹی اشیاء کو دیر تک تکتی رہتی اور سوچتی کہ کون سی دھول زیادہ اذیت ناک ہے
۔
|