جدائی

رات کے پچھلے پہر خاموشی چہار سوپھیلی ہوئی تھی۔ وہ جائے نماز پر بیٹھی خدا سے گڑگڑا کر روتے ہوئے اُس ستم گر کی زندگی کی دعائیں مانگنے میں مشغول تھی۔
اُسے لگتا تھا کہ اگر اُسے کچھ ہو گیا تو وہ زندہ نہیں رہ پائے گی۔ وہ اب تک ششدر تھی کہ جب اُسے پتا چلا تھا تو گھٹن کا احساس اک دم سے بڑھ گیا تھا۔ سینے میں درد کی لہر پورے جسم میں سرائیت کر گئی تھی۔
وہ چیخنا چاہتی تھی پر اُس کی آواز اندر ہی کہیں گھٹ کررہ گئی، اُسے لگا پیروں میں اب جاں باقی نہ رہی ہو۔
پر وہ لڑکھڑاتے ہوئے بمشکل اپنے قدموں پر کھڑی رہی۔
وہ قدرت کی اس ستم ظرفی پر رونے اور دعا کرنے کے علاوہ اُس کے پاس کچھ بچا ہی نہیں تھا۔
روتے ہوئے وہ خدا سے شکوہ کررہی تھی۔
یاپروردگار وہ آپ ہی تھے، جنہوں نے مجھے اُس سے ملوایا، وہ آپ ہی تھے جنہوں نے میرے دل میں اُس کے لیے پیار ڈالا، میں تو اُس کے نام سے بھی واقف نہیں تھی، پھر یہ کیسا قدرت کا انوکھا کھیل ہے کہ اُس کے ساتھ ایسا بھیانک مذاق کرگئی۔
یاﷲ مجھ گناہ گار کی ساری خطائیں معاف فرما دے یاﷲ پر اُسے زندگی بخش دے، تُو تو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے، پھر مجھ گہنگار کی بھی سن لے،
اےﷲ دلوں کے حال تُو ہی بہتر جانتا ہے، اگر تُو مجھے دے دے گا تو کوئی بھی نہیں چھین سکتا، تیرے ایک کُن کی محتاج ہوں مالک مجھے معاف فرما دے، اُن کی محبت میری رگوں میں سرائیت کرگئی ہے، انہیں کچھ ہوگیا تو میں بھی مرجاؤں گی،
میں پہلے سے ہی آپ کی گناہ گار بندی ہوں، میری تو دنیا مٹی میں مل گئی ہے۔
خودکشی جیسے حرام فعل سے گزرنے کے بعد میری آخرت بھی مٹی میں مل جائے گی،
یاﷲ اگر ان کی جدائی میری قسمت میں ہے تو مجھے اپنی رحمت کے سائے سے محروم مت کریں،
اے مالک پروردگار دلوں کے حال تجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا، میں اُن کے بغیر تو جی سکتی ہوں پر اُن کی موت کے ساتھ میری موت بھی یقینی ہے، ہم دونوں گناہگار پر رحم فرما دیں۔۔۔
یاخدا اُنہیں کچھ نہ ہو نہیں تو تیری یہ گناہ گار بندی ٹوٹ کر بکھر جائے گی، مجھے اتنی بڑی سزا مت دیں مجھے فرما دیں یاﷲ اُنہیں کچھ نہ ہو۔۔
وہ دونوں ہاتھ آپس میں جوڑے خدا سے فریاد کررہی تھی، اُسے لگ رہا تھا اب کی بار ٹوٹ گئی تو پھر کبھی نہیں سنبھل سکے گی،
جس کے ہونے سے اُس کی سانسیں چلتی ہیں، جس کی محبت کے احساس میں وہ جی رہی ہے۔ اگر وہی اُس کے پاس نہ رہی تو وہ جی کر بھی پھر کیا کرے گی۔
وہ پیچھلے کچھ دنوں سے ہرچیز بھلائے، جسے نہ کچھ کھانے کا ہوش تھا نہ ہی پینے کا، بس خدا سے اُس کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی۔
کوئی بات کرتا تو غائب دماغی سے اُس کی طرف دیکھتی رہتی تھی کہ کہا کیا گیا ہے۔۔
اُسے ہر بات کی خبر کسی اور سے ملتی تھی، جبکے وہ کہتا تھا کہ ماہی میری ہربات پہلے تمہیں ہی پتا لگا کرے گی،
پر ہر بار کی طرح وہ اس بار بھی غلط ثابت ہوئی، اُسے یہ خبر بھی اُن کی دوست کے ذریعے پتا چلی تھی۔
اُسے دکھ اس بات کا نہیں تھا کہ اُسے کسی اور سے پتا چلی، اُسے دکھ اس بات کا تھا کہ وہ صرف محبت کے لیے ہی ان کی زندگی میں ہے کیا،
کیا اس کے کسی غم پر بھی اُس کا کوئی حق نہیں ہے۔ کہ ہر بار کی طرح اُسے ہربات سے لاعلم رکھا گیا۔
جبکے وہ اندر ہی اندر اُسے یہ بات کھائے جارہی تھی، اگر خدا نخواستہ اُسے کچھ ہوگیا تو کیا وہ جی سکے گی،
نہیں وہ نہیں جی سکتی تھی اُس شخص کے بغیر وہ جانتی تھی کہ وہ اُس کے لیے کیا ہے اگر یہ خبر بھی اُسے کسی سے پتا چلی تو وہ نہیں رہ پائے گی۔۔۔
جبکہ وہ کہتا تھا کہ ماہی تمہیں کس طرح سے بتاؤں، مجھے خود نہیں کچھ سمجھ آرہا تھا میں تو خود ہی شاک میں تھا۔
تمہارے ردعمل کا مجھے پتا ہے تم نے کس طرح سے ری ایکٹ کرنا ہوتا ہے، تمہارے اپنے ہی ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں تو پھر میں کیسے تمہیں بتاؤں۔ وہ جھنجلاتے ہوئے اُس کے روتے ہوئے چہرے کی طرح دیکھ کر بولا۔۔۔
وہ اُسے کہنا چاہتی تھی کہ کیوں ہر بار کی طرح اُسے ہربات سے لاعلم رکھا جاتا ہے۔ پر آنسوؤں کے درمیان پر وہ کہہ ہی نہ سکی۔
اُس کے دل میں اُلٹے سیدھے خیال بھی آرہے تھے، کیا اب اس کا دل بھر چکا ہے یا پھر اُن کے درمیاں کوئی تیسرا آچکا تھا۔۔
کیونکہ اب پہلے کے طرح کچھ بھی نہ تھا، سب کچھ بدل گیا تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے کچھ ڈسڑب ہے پر اتنی بےرُخی برتنے کے پیچھے کی وجہ نہ جان سکی۔۔
کیونکہ اب لہجے بدل رہے تھے، اور اب صاف تھا کہ وہ ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ اُور اُسے لگ رہا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ اندر سے مرتی جارہی ہے، کیونکہ اُس کے آنکھوں کی جوت بجھ چکی تھی۔۔
 

ماہ گل عابد
About the Author: ماہ گل عابد Read More Articles by ماہ گل عابد: 6 Articles with 8693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.