شہر کے مضافات میں واقع اس ویران چوراہے کے اردگرد تعمیر
بے شمار خستہ حال گھروں میں موجود زندگیوں کی بھی عجیب داستانیں ہیں۔ جو
صرف اک لفظ "بھوک" کے گرد گھومتی ہیں۔ ان ٹوٹے پھوٹے گھروں میں سانس لیتے
انسان اس "بھوک" کو بڑے دھڑلے سے اپنے اگے پیچھے بے بس نظروں سے چکراتے
دیکھتے ہیں۔ وہ اس کو بھگانے کے لیے بہت جتن کرتے ہیں پر پتا نہیں اس نے
کون سا ایسا آب حیات پی رکھا ہے کہ تھوڑی دیر بعد پھر سے وہیں ڈیرے ڈال کر
بیٹھ جاتی ہے۔
☆☆☆
چوراہے کے عین سامنے بنے اس ایک کمرے کے مکان کے دروازے سے اندر جھانک کر
دیکھوتو دیکھائی دے گا کہ بائیں جانب کی دیوار کے کونے میں فقت ایک چولہے
پر مشتمل باورچی خانہ تھا، اس کے برابر میں رکھی لکڑی کی چھوٹی سی الماری
میں نظر آتے اشیاء خوردونوش سے خالی کنستر اس گھر میں بستے مکینوں کی
داستان بڑے آرام سے سمجھا رہے تھے۔ دائیں طرف بنے بیت الخلا کو بوسیدہ کپڑے
سے چھپانے کی ناکام کوشش کی گئ تھی جس میں سے نظر آتی دیواریں سیلن کی
زیادتی کی وجہ سے کائی زدہ ہو چکی تھیں۔ پورے کمرے میں نظر آتے لوہے کے
سریے، اکھاڑے پلاسٹر سے جھانکتی برادہ ہوئی اینٹیں ایک ایسی کہانی کو پیش
کر رہی تھیں جو خود سے بھی نگاہ ملانے کے قابل نہیں تھی۔ کمرے کی بچی آخری
دیوار پر بنی کھڑکی کے نیچے رکھے پلنگ پر ایک لاغر سا وجود لیٹا دیکھائی دے
رہا تھا، جس کی چند لمحوں بعد پلکوں کی جنبش سے اس کے زندہ ہونے کا گمان ہو
رہا تھا۔ پلنگ کے بلکل ساتھ میں لوہے کی الماری کھڑی تھی اس کا ایک پٹ کسی
چھوٹے بچے کے ٹوٹتے دانت کی طرح لٹکا جھول رہا تھا جب کہ دوسرا پتا نہیں کب
کا الگ ہو چکا تھا۔ اس کے برابر میں بچی دیوار پر لٹکا شیشہ حالات کی سختی
کو برداشت نہ کرتے ہوئے چٹخا ہوا تھا اور اس میں نظر آتے وجود کا عکس بھی
اس کی طرح بہت سے ٹکڑوں میں بٹا تھا۔
روز کی طرح آج بھی اس ایک کمرے کے مکان میں موجود واحد چوہلا ٹھنڈا پڑا
تھا۔ کیوں کہ اس کو جلانے کے لیے بھی ایندھن چاہیے ہوتا ہے لیکن جب پیٹ کے
ایندھن کا بندوبست نہیں تو اس کا کیسے ہو گا۔ وہ شخص شیشے کے پاس سے ہٹ کر
پلنگ پر لیٹے وجود کے پاس آیا تھا۔
" جہاں دو دن اور انتظار کر لیا وہاں ایک دن اور صحیح آج ضرور کچھ نہ کچھ
بندوبست ہو جائے گا"، اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
اس وجود نے اپنے سر کی جنبش سے اس کی کہے الفاظ پر یقین کرنے کی کوشش کی
اور اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں، جیسے اس کو یقین آگیا تھا مقابل کی بات
کا، وہ پھر سے امید لگا بیٹھا تھا۔ وہ شخص ہلکے ہاتھ سے اس کا کندھا دباتا
ہوا اٹھ گیا تھا اور گھر سے نکلتے وقت دروازے کے نام پر جھولتے پھٹے کپڑے
کو برابر کرنا نہیں بھولا۔
☆☆☆
سورج آج کے سارے دن کی داستانیں اور کہانیاں اپنے دامن میں سمیٹے جانے کی
تیاری میں مگن ہے اور رات منتظر کھڑی ہے اس کی جگہ سنبھالنے کو۔ ایسے میں
سورج کی ماند پڑتی کرنیں ایسی کہانی پر رک گئی تھیں جو ابھی بھی ادھوری اور
نامکمل تھی، اپنے مکمل ہونے کے انتظار میں ایستادہ کھڑی۔وہ اسی شخص کی
کہانی تھی جو آج صبح پھر سے نئی امید کے ساتھ نکلا تھا، مگر اب اپنی امید
کے ڈوبتے سورج پر نظریں گاڑے کھڑا کسی اور جہان میں پہنچا تھا۔ جہاں اس نے
اپنے گھر میں دوڑتی بھاگتی 'بھوک' کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکال باہر کیا
تھا۔ یکدم اس کا انہماک ٹوٹا تھا اور وہ حال کی دنیا میں لوٹ آیاتھا۔ جہاں
اس کو پہلا خیال یہی آیا کہ وہ پھر سے ناکام ہو گیا ہے۔ صبح سے رات ہونے
والی تھی اسی فٹ پاتھ پر بیٹھے بیٹھے لیکن آج بھی اس کو مزدوری کے لیے کوئی
کام نہیں مل پایا تھا۔ اب تو اس کی جیب میں کھوٹے سکے بھی نہیں بچے تھے
بھوک سے آنتے حلق سے جا لگی تھیں پھر بھی اس کو اپنی پرواہ نہ تھی اس کو تو
گھر میں موجود اس وجود کی پرواہ تھی جس کی امید وہ توڑنا نہیں چاہتا تھا۔
رات اب مکمل طور پر ماحول پر حاوی ہو چکی تھی۔ اس شخص کا وجود ہولے ہولے
لرز رہا تھا، صبح سے سکھی پڑی آنکھوں میں بے تحاشہ نمکین پانی جمع ہو گیا
تھا اس کو ڈر لگ رہا تھا کہ اگر گھر میں موجود وجود کی امید آج بھی ٹوٹ گئی
تو وہ اٹھتی گرتی پلکیں ہمیشہ کے لیے ٹھر جائیں گی۔اسی لمحے رات کی سیاہی
اس کے اوپر حاوی ہونے لگی اور اس کو اپنے وجود سے فائدہ اٹھانے پر اکسانے
لگی تھی۔ پہلے تو اس نے اپنے آپ کو جھڑکا، لیکن کتنا اور ... وہ اپنی پیٹ
کی آگ کے سامنے پگھل گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا چہرا خوشی سے جگمگا رہا
تھا، ذرا سی ہمت کرنے پر کیا خزانہ ہاتھ لگا تھا۔ وہ کڑ کڑ نوٹوں سے بھرا
بٹوا اپنے ہاتھوں میں دبوچے ہوئے تھا جو ابھی ابھی ایک شخص سے اس نے چھینا
تھا۔ذرا سی ہمت ہی تو کرنی پڑی تھی نہ ہی کوئی محنت نہ ہی در در کی ٹھوکریں
کھانی پڑیں، کتنی آرام سے کام بن گیا تھا۔ اس کا رخ اب قریبی مارکیٹ کی طرف
تھا جہاں سے اس نے اپنی تمام خواہشات کو پورا کرنا تھا۔ سارا ضروری اور غیر
ضروری سامان خرید کر وہ جیسے ہی اپنے مکان میں داخل ہوا اس لاغر وجود نے
اپنی دھنسی آنکھوں کے ساتھ دیکھا تھا اور دیکھتا ہی چلا گیا کیوں کہ یہ
منظر اس کے لیے بلکل اجنبی تھا۔
" کیا ہوا ؟ ایسے کیوں حیران ہو ! دیکھو میں کتنا کچھ لایا ہوں۔ اب ہمارے
گھر کا چوہلا کبھی ٹھنڈا نہیں رہے گا، مجھے نیا کام مل گیا جس کو میں کبھی
نہیں چھوڑوں گا اب ہماری ساری خواہشات پوری ہوں گی..."
وہ اور بھی نہ جانے کیا کچھ کہے جارہا تھا مگر اس مکان میں دندناتی بھوک تو
صرف ان چند جملوں کو سن کر ہی سر پر پاوں رکھ کر بھاگ کھڑی ہوئی تھی اور وہ
لاغر وجود ورطہ حیرت میں تھا اس کایا پلٹ پر۔
|