یہ ہم کس عہدِ کثیف میں جی رہے
ہیں کہ فنون لطیفہ سے شغف رکھنے والا ہر شخص لطیفہ دکھائی دیتا ہے! ذوق
لطیف کی ناقدری اور مزاج کثیف کی مقبولیت نے نفاست اور نزاکت کے حامل ہر
انسان کو تماشا بنا دیا ہے۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ جب بھی (ہم سمیت) کوئی
شخص غزل یا راگ سُنتا ہے تو (اہل خانہ سمیت) سبھی لوگ خاصا بُرا منہ بناتے
ہیں۔ خدا جُھوٹ نہ بُلوائے، اِتنا بُرا منہ تو خود کلاسیکل گانے والے بھی
نہیں بناتے! بہت سوں کے نزدیک یہ وقت کا ضیاع اور دماغ کا زیاں ہے۔ یہ بات
کوئی نہیں بتاتا کہ فنون لطیفہ کے چُنگل سے محفوظ رہنے والے لوگ اپنا قیمتی
وقت کس طور بروئے کار لاتے ہیں اور کون سے کار ہائِے نمایاں انجام دینے میں
کامیاب ہوتے ہیں!
ایک زمانہ تھا (جو یقیناً شادی سے پہلے کا تھا) جب ہم رو پیٹ کر غزلیں کہہ
لیا کرتے تھے۔ پھر (گھریلو اور شہری و مُلکی) حالات ایسے بدلے کہ ہم غزل
گوئی چھوڑ کر صرف شہر آشوب کہنے کے قابل رہ گئے! غزل میں محبوب کی بے وفائی
اور رقیب کے مظالم کی بات بھی کرتے تو یہ محسوس ہوتا تھا کہ ملکی حالات کا
رونا رو رہے ہیں! ایسا بھی ہوا کہ ہم نے بعض سیاسی احباب کو غزل کے چند شعر
سُنائے اور وہ سمجھے کہ ہم اُن کی پارٹی اور اُس کے قائد پر تبرّا بھیج رہے
ہیں! بس کچھ نہ پوچھیے، جو ہم نے خاصی مشق کے ذریعے ”ڈیویلپ“ کی تھی شعر
کہنے کی وہ ”خداداد صلاحیت“ تو ہمارے لئے وبال جاں ہوگئی! خوفِ فسادِ خلق
سے یعنی اِس خیال سے کہ کہیں آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے، ہم شعر کہنے سے
تائب ہوئے۔ سُنا ہے بعض ادب نواز احباب اِسی بنیاد پر اب تک ہمیں، بطور
اظہار تشکر، احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں!
معاملہ پکے راگوں کا ہو یا شاعری کا، عوامی ردعمل یکساں ہوتا ہے۔۔ یعنی
دونوں کا ذوق رکھنے والوں سے عوام دور بھاگتے ہیں! ہم تو اِسے بھی قدرت کی
مہربانی سمجھ کر شُکر گزار رہتے ہیں کہ اِس صورت میں ہم کسی کی مداخلت سے
محفوظ رہتے ہوئے اپنے شوق کے مطابق ذوق کی تسکین کا سامان تو کرلیتے ہیں!
سلمان احمد عباسی بھی خوب ہیں۔ آج کل وہ جنات پر خاصے جناتی قسم کے مضامین
سپردِ خاک .... خاکم بدہن، سپردِ قلم کر رہے ہیں! بھائی سلمان کی تحقیق یہ
ہے کہ بہت سے جنات بھی شاعری کو پسند کرتے ہیں اور بعض اوقات شاعروں پر
عاشق بھی ہو جاتے ہیں! انداز بیان سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ادب دشمنوں نے
اِس معاملے میں ”تحقیق“ کے لئے معقول فنڈنگ کی ہے! قوم ویسے ہی شاعروں اور
ہم ایسے سابق شاعروں سے بچتی پھرتی ہے، جنات اور شاعری سے متعلق اِس نوعیت
کی تحقیق لوگوں کو شاعری اور شاعروں سے مزید دور اور متنفر کردے گی! بھائی
سلمان اِس امر پر بھی تحقیق فرمائیں کہ جنات بعض شعراء پر کہیں اِس لیے تو
عاشق نہیں ہوتے اُنہیں شاعری سے تائب ہونے پر مجبور کرنے کی یہی ایک صورت
رہ گئی ہے!
جب ہم نے اہلیہ کو بتایا کہ بعض جنات بھی شاعری کو پسند کرتے ہیں اور
شاعروں پر مر مٹتے ہیں تو انہوں نے فوراً وضاحتی بیان داغ دیا کہ اُنہیں
شاعر پسند ہیں نہ شاعری۔ اہلیہ کی جانب سے بروقت داغے جانے والے بیان سے ہم
نے یہ مفہوم اخذ کیا کہ شعر و ادب اور شاعروں پر تبرّے سے زیادہ وہ اِس امر
کی وضاحت کے لئے بے تاب تھیں کہ اُن کا تعلق جنات کے کسی قبیلے سے نہیں! ہم
نے کہا کہ شعر و ادب پسند ہیں نہ شاعری تو پھر ہمارے ساتھ زندگی کیوں اور
کیونکر بسر کر رہی ہیں تو انہوں نے ہمیں یاد دلایا کہ ہماری شادی کے ذمہ
دار بزرگ ہیں! شادی کے لئے رضامند ہونے کا دوسرا سبب بیان کرتے ہوئے اُنہوں
نے یاد دلایا کہ رشتہ طے کئے جانے کے وقت ہم شعر ضرور کہتے تھے مگر کمانے
پر زیادہ توجہ دیتے تھے! زمانہ کتنا بدل گیا ہے، اب تو شعر کہنے پر وہی
توجہ دیتا ہے جو کچھ کمانا چاہتا ہے!
اہلیہ سے تو کیا بحث کرتے کہ ایسی کسی بھی گستاخی کا انجام سب جانتے ہیں،
اِس لئے خیال آیا کہ بھائی سلمان عباسی سے کہیں کہ شاعری کا سلسلہ جنات سے
جوڑ کر لوگوں کو شعر و ادب سے مزید متنفر نہ کریں۔ بہت سے لوگ ویسے ہی
شاعری کو جناتی عمل گردانتے ہیں اور بعض شعراء کو دیکھ کر ہم خود بھی یہ
سوچتے رہے ہیں کہ شاعری کہیں جنات کی دُنیا سے درآمد شدہ عمل تو نہیں! جوش
ملیح آبادی جس طرح کے شعر کہتے اور جس انداز سے اُنہیں اہل ذوق کی نذر کرتے
تھے اُس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنات اگر شعر کہیں گے تو کس
طرح کہیں گے! مرحوم جس طور اشعار حاضرین کی نذر کیا کرتے تھے اُسے دیکھ کر
کبھی کبھی ”حاضری“ کا گمان گزرتا تھا! عبدالعزیز خالد مرحوم کے محض چند
اشعار کو بھی سمجھنے اور ”پچانے“ کے لئے جنات کا دماغ اور ہاضمہ درکار ہے!
سُنا ہے اُن کے بعض مصرعے تو جنات سے گلو خلاصی کے تعویذ کے طور پر بھی
استعمال کئے جاتے رہے ہیں! صہبا اختر جس ڈھب سے مشاعرہ پڑھتے تھے کیا اُسے
دیکھ کر کوئی دعویٰ کرسکتا ہے کہ مرحوم جناتی صفات کے حامل نہیں تھے؟ فرحت
عباس شاہ نے جس قدر شاعری کی ہے وہ بھی کچھ جنات ہی کا خاصہ معلوم ہوتی ہے!
اور.... اللہ بخشے، محترم راغب مراد آبادی جس مقدار میں رُباعیاں کہتے تھے
وہ کچھ کچھ جنات ہی کے بس کی بات نظر آتی ہے! اور تَعدّدِ رباعیات کے
معاملے میں تنقید برداشت کرنے کی جو صلاحیت محترم راغب میں تھی وہ بھی کم
ہی اِنسانوں میں پائی گئی ہے! اِس حوالے سے دلاور فگار مرحوم کی ”تربوز کی
منڈی“ والی رباعی سند ہے!
اُردو کے بعض شعراء جُثّے کے اعتبار سے جنات کی ہم سَری کرتے نظر آتے تھے۔
اِن میں عبدالحمید عدم اور ضمیر جعفری مرحوم خاص طور پر قابل ذکر ہیں!
اُنہیں سامنے پاکر ادب کی دُنیا کے معمولی بھوت پریت تو ویسے ہی بھاگ کھڑے
ہوتے تھے! عدم کی کئی غزلیں خاصے اہتمام اور دلچسپی کے ساتھ گائی گئی ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ عدم اپنی غزل کسی مغنی یا مغنیہ کے سامنے رکھ کر کہتے
ہوں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے!
اور اُنہیں دیکھ کر بے چارے گانے والے یا گانے والی میں انکار کی جرات ہی
پیدا نہ ہو پاتی ہو! |