گدھا

گدھے دیکھنے میں جتنے شریف اور نفیس نظر آتے ہیں ۔حقیقت میں بھی اتنے ہی شریف اور مسکین ہوتے ہیں ۔ میری بات کا یقین نہ آئے تو آئینہ دیکھ لیں۔یا کسی بھی گدھے کے پیچھے سے گزر کر دیکھیں ،وہ دولتی جھاڑ کر میری بات کی سچا ئی پر اپنی مہر ثبت کر دے گا۔سیانے کہتے ہیں کہ بیل کی اگالی اور گدھے کی پچھالی سے نہیں گزرنا چاہیے۔ایک فرنٹ فٹ پہ آکے سٹروک کھیلتا ہے اور دوسرا بیک فٹ پہ یقین رکھتا ہے۔

زمانھ اوائل میں گدھے مال برداری کے کام آتے تھے ۔آجکل بھی گدھے یہی کام کرتے ہیں۔۔تاریخ کے اوراق سے نہ تو گدھوں کے اپنا پیشہ تبدیل کرنے کی کوئی سند ملتی ہے اور نہ ہی مینیو۔ کل بھی وہ گھاس اور سبز چارہ رغبت سے کھاتے تھے،اور آج بھی ان کے ٹیسٹ میں بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ البتہ گدھے نام بدلتے رہتے ہیں ،مگر جس نام سے بھی پکارو رہتے گدھے کے گدھے ہی ہیں۔۔ہمارے یہاں گدھے زیادہ تر بلیک اینڈ وائٹ پائے جاتے ہیں۔

البتہ یورپی ممالک میں سفید گدھوں کی بہتات ہے۔ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ ۔گدھوں میں جہاں وزن اٹھانے کے علاوہ اور بہت سی نامعلوم خصوصیات پائی جاتی ھیں وہاں ان کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔۔زیادہ تر گدھے آٹو سسٹم یعنی خودکار سسٹم کے تحت بلاوجہ ڈھینچو ڈھینچو کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔ اور اچانک بریک لگا دیتے ھیں ۔کہنے کو تو ان کی زندگی کی کہانی ڈھینچو ڈھینچو سر شروع ہو کر ڈھینچو ڈھینچو پر ختم ہو جاتی ہے ۔لیکن راوی جانتا ہے کہ اس کہانی میں کئی دردناک موڑ بھی آتے ہیں۔ خاص طور پر جب گدھے کی پیٹھ پر ڈنڈے بن بادل برسات کی طرح برستے ہیں اور وہ بیچارہ یہ بھی نہیں کہہ پاتا کہ ً اے ابر کرم اتنا نہ برسً اس کی پیٹھ پر برسنے والے ڈنڈے مہمیز کا کام کرتے ھیں اور گدھے کی ڈھینچو ڈھینچو دھیمے سروں کی لے سے اونچے سروں میں چلی جاتی ھے گدھوں کی لغت کا بغور مطالعہ کرنے پر انکشاف ہوا ہے کہ گدھوں کی لغت میں پہلا لفظ ڈھینچو اور آخری لفظ بھی ڈھینچو ہی ہے اور ان دونو لفظوں کے درمیان بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

تاریخ کے اوراق پلٹنے پر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پہلے گدھوں کے سر پر سینگ بھی ہوا کرتے تھے مگر کسی کم ظرف نے انہیں اپنی ضرب المثل میں استعمال کر کےاتنی مہارت سے غائب کیا کہ اب اگر کوئی آپ سے ادھار لے کر اچانک غائب ہو جائے تو آپ کہیں گے کہ وہ ایسے غائب ہوا ہے جیسے گدھے کے سر پر سے سینگ"۔

اہل پنجاب کے یہاں گدھے سے زیادہ اس کے پدر محترم کو لائق توجہ سمجھا جاتا ھے۔اور اکثر بے تکلفی میں " کھوتے دا پتر" کہہ کر پیار سے ڈانٹا جاتا ہے۔کچھ حاسد قسم کے لوگ اسے بدکلامی سے تعبیر کرتے ہیں ۔جو یقینناً ان کی ناقص معلومات کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔چونکہ شہر والوں کا اصلی گدھوں سے زیادہ واسطہ نہیں پڑتا اس لیے اہل دیہات گدھوں کی یہ نشانی بیان کرتے ہیں کہ"جو سوتا ھے، وہ کھوتا ھے"۔اس نشانی سے شہری لوگ نہ جانے کیوں پریشان ہو جاتے ہیں اور جب بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو گفتگو کا آغاز اس طرح کرتے ہیں ۔ًنہ جانے کیوں آجکل نیند نہیں آتی۔ً ہمارے ایک دوست کو دنیا کا سب سے بڑا گدھا ہونے کا اعزاز حاصل ھے اس کے والد دن میں کم از کم دس بار یہ کہہ کر کہ ًتم سے بڑا گدھا نہیں دیکھاً اس کی جنرل نالج میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ہمارے دوست کو اپنے والد صا حب کی جنرل نالج پر بڑا فخر ہے۔

یوں تو کئی شاعروں نے گدھے کی تعریف و توصیف میں کئی قصیدے لکھے ہیں لیکن گدھوں پر قصیدہ لکھنے میں مغلوں کے درباری شعرا کو جو ممتاز مقام حاصل ہوا ہے۔وہ قابل رشک ہے ۔ بعد میں آنے والوں میں اگر امام دین گجراتی کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ گدھوں سے زیادتی ہو گی اور گدھوں کی تاریخ بھی ادھوری رہ جائے گی۔ان کا یہ شعر کئی دھائیوں سے زبان زد وعام ہے۔
"حسینوں کی زلفیں کہاں تیری قسمت،
تو کھوتی کا پُوچھل پکڑ امام دینا"

یہاں کھوتی سے مراد گدھے کی زوجہ محترمہ اور پُوچھل گدھے کی ُدم کو کہتے ہیں ، جو گدھے کے علاوہ اور بہت سے جانوروں میں قدر مشترک ہے۔

ھمارے گاؤں میں کمہار کے پاس گدھوں کی کافی تعداد تھی۔ نوعمری میں ایک دن ھم اپنے فطری تجسس سے مجبور ھو کر کمہار سے پوچھ بیٹھے کہ یہ گدھے کی پیٹھ پر زین کیوں کستے ھیں۔اس نے ایک ننگی پیٹھ والے گدھے کو رسی سے کھینچ کر میرے سامنے کیا اور کہا اس پر بیٹھو ابھی پتہ چل جائے گا۔میں نے گدھے کو ایک پتھر کے ساتھ کھڑا کر کے اپنے آپ کو گدھے کے قد کے برابر کیا حالانکہ ذہنی لحاظ سے میں پہلے ہی اس کے ہم پلہ تھا۔میں لات گھما کر جتنی تیزی سے اس کی پیٹھ پر بیٹھا ،اس سے زیادہ تیزی سے پھسل کر خاک نشین ہوگیا اور درد سے اپنی کمر سے نیچے ناقابل اشاعت جگہ پر سہلانے لگا۔ میں نے کھڑے ھو کر غصے سے کہا یہ کیا حرکت تھی ۔ کمھار نے ہنستے ہوئے کہا اب پتھ چلا زین کیوں ڈالتے ھیں"ھم نے درد سے دہرے ہوتے ہوئے کہا اس کی کیا ضرورت تھی۔ ویسے ہی بتا دیتے،وہ خبیث کہنے لگا "اس طرح بات جلدی سمجھ میں آتی ہے اور دیر تک یاد رھتی ھے۔"واقعی اتنے سال گزرنے کے بعد بھی ھم آج بھی جب کبھی گدھے کے سامنے سے گزرتے ہیں ھمارا ہاتھ بے اختیار ناقابل اشاعت جگہ پہنچ جاتا ہے اور ہم غصے سے گدھے کو گھورتے ہوئے سوچتے ہیں کہ اگر اللہ گدھوں کو پیدا ہی نہ کرتا تو کیا حرج تھا۔ مگر پھر خیال آتا کہ بغیر چُوں چِراں کیے اتنا بوجھ کون اٹھاتا ۔اور ہمارے ارد گرد جو انسان نماں گدھے وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ان کی پہچان کیسے ہوتی۔ میرا اشارہ اس طرف بالکل نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ میرا اشارہ اس طرف بھی نہیں ہے جو آپ نہیں سمجھ رہے ہیں،اور میں اتنی دیر سے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ بہرحال گدھوں کی بیان کی گئی خصوصیات سے کسی کی مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی اور مصنف ہرگز اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔
بابر ندیم جنجوعہ
About the Author: بابر ندیم جنجوعہ Read More Articles by بابر ندیم جنجوعہ: 2 Articles with 3786 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.