تپتی چھاؤں

آج ایک عجیب کتاب کی رونمائی تھی ۔ مصنف کی جگہ گمنام لکھا ہوا تھا ۔ اور انتساب انسان کی تقسیم کے ازلی نظام کے نام تھا ۔ اور کتاب کا نام تھا " تپسیا " ۔ یہ ایک مشہور ناشر کمپنی کی طرف سے کتاب کی رونمائی کی عجیب ترین تقریب تھی ۔ جس میں مصنف کو کوئی نہیں جانتا تھا اور مصنف کی طرف سے کوئی بھی نہیں تھا ۔ مگر اس کتاب کا ہر ہر لفظ زندگی کے ہر سانس لیتے لمحے کی تصویر کشی تھی ۔ کچھ تو ایسا تھا اس کتاب کے لفظوں میں جو پڑھنے والے کو سحر زدہ کر رہا تھا ۔ اس سے ناشر کمپنی کا تو بھلا ہو گیا تھا ۔ اور بھی کسی کا بھلا ہوا تھا جس کی روح بھی شاید اس تقریب میں شامل ہو گی ۔ اور اپنی کامیابی پر سرشار ہو گی ۔ دھیمے لبوں سے سکون کا سانس خارج کرتے وہ مسکرا رہی ہو گی ۔ آج وہ مطمئن ہو گی کہ کتاب کو پڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ اور وہ جانتی تھی کہ بھلے اس کا نام کسی کو معلوم نہ ہو مگر الفاظ تو اس کے تھے ۔ اور کتنے لوگوں نے اس کے لکھے لفظوں کو پڑھا ہو گا اور پھر خود کو ان لفظوں کے سحر میں جکڑتا محسوس کیا ہو گا ۔ وہ بھی تو بس اتنا چاہتی تھی کہ اس کے سوچے ہوئے الفاظ کو تحریر کی صورت میں پڑھا جائے اور سراہا جائے ۔ مگر یہ خواہش لیے وہ منوں مٹی تلے چلی گئی ۔ اور آج اس کے بیٹے نے ماں کی یہ خواہش پوری کر دی ۔ اس کو لگتا تھا کہ ماں کی یہ خواہش مرتے دم تک آسیب بن کر اس کا پیچھا کرتی رہے گی ۔ وہ کون تھی ۔ ایک عام سی عورت ایک عام سا انسان تھی ۔ مگر جس ماحول میں رہتی تھی وہ بہت خاص تھا ۔ جہاں صرف مرد کی حکمرانی مانی اور جانی جاتی ہے ۔ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی مگر اتنا لکھنا جانتی تھی کہ اپنے اندر کے انسان کی سوچ کو لفظوں میں ڈھال لیتی تھی ۔ پتہ نہیں اس کو مردانہ حکمرانی کے تحت رہنے کے باوجود پڑھنے لکھنے کا شوق کیسے ہوا ۔ یہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی ۔ مگر یہ لکھنا اس کی بے چین روح کو سکون دیتا تھا اور کبھی کبھی مزید بے چین کر دیتا تھا ۔ پہلے ماں باپ کے گھر سنتی کہ یہ لڑکیوں کے شوق نہیں ہوتے ۔ یہ صرف فرضی قصے کہانیاں ہوتی ہیں ۔ جو عورتیں یہ کام کرتی ہیں ان کو گھر بار سے دلچسپی نہیں ہوتی ۔ وہ لڑکیوں کا ذہن خراب کرتی ہیں ۔ لڑکیوں کو خواب دکھاتی ہیں جن کی تعبیر ہمیشہ بھیانک ہوتی ہے ۔ وہ بھی خاموشی سے سنتی کہ ماں باپ ہیں غلط تو نہیں کہہ سکتے ۔ اور ہر بار عہد کرتی کہ اب وہ اپنے اندر سے سوچنے اور محسوس کرنے کو ہمیشہ کے لیے اپنی ذات سے بے دخل کر دے گی ۔ مگر ہمیشہ وہ ناکام رہی ۔ پھر اس عام سی عورت کی ایک خاص مرد سے شادی ہو گئی جو اس معاشرے کا ایک اور حکمران تھا ۔ اس نے سوچا شاید یہ حکمران تھوڑا نرم دل ہو اور اس سے چمٹی لکھنے کی خواہش کو بےضرر سمجھ کر قابلِ تعزیر قرار نہ دے ۔ کبھی تو وہ اتنا گھبرا جاتی کہ یہ کوئی بدروح ہے جو اس سے چمٹ گئی ہے اور اس کے اندر لفظوں کی صورت میں بھنگڑا ڈالتی ہے ۔ اور اس کی ناکامی پر چیخ چیخ کر خوشیاں مناتی ہے ۔ اس کو لگتا تھا کہ وہ تپتی دھوپ میں کھڑی ہے اور چھاؤں تو ہر دھوپ کے زوال کا لازم حصہ ہے ۔ وہ اپنے حصے کی چھاؤں کی منتظر تھی ۔ یوں لگتا وہ صدیوں سے اس کی منتظر ہے اور بہت جلد چھاؤں اس کا نصیب بن جائے گی ۔ مگر اس حاکم نے بھی پچھلے حاکموں کی طرح اس کام کو ایسی عورتوں کا کام قرار دے کر قصہ ختم کر دیا کہ جو عورتیں یہ کام کرتی ہیں وہ پھر اپنے حاکم کا حکم ماننے سے باغی ہو جاتی ہیں ۔ اور کوئی حکمران بغاوت کو برداشت نہیں کرتا ۔ سو اس کو فیصلہ سنا دیا گیا ۔ اگر اس سلطنت میں رہنا ہے تو بغاوت سے باز رہنا ہو گا ورنہ اس سلطنت سے نکال دی جائے گی ۔ پھر اس سلطنت میں اس کے بیٹے کا اضافہ ہوا ۔ اور اب تو اس کو لگا کہ بس اب تو چھاؤں میرا مقدر بن گئی ہے جو یہ میرے وجود کا حصہ ہے آج جیسے میں اسے دھوپ سے بچا رہی ہوں کل یہ بھی مجھے درخت بن کر چھاؤں دان کرے گا ۔ وہ اس پودے کو درخت بنتے دیکھتی رہی اور اپنی قسمت پر نازاں ہوتی کہ قدرت نے کتنا خوب انتخاب کیا ہے ۔ جب وہ پودا درخت بنا اور ماں نے اس کی چھاؤں میں سکون کا سانس لینا چاہا تو اس کو پتہ چلا کہ بیشک اس نے پودے کو تناور درخت بنایا ۔ مگر درخت میں گردش کرتے خون اور سلطنت میں پڑھائے گئے اسباق کے آگے اس باندی کی کیا حیثیت ہے ۔ وہ نیا حاکم بھی گرج رہا تھا کہ اماں یہ تم کیا کہہ رہی ہو کیا تمہارا نام سرِ عام لیا جائے گا یہ ہماری سلطنت کے اصول کے خلاف ہے ۔ اور وہ جو فوراً ہی اجازت نامہ ملنے کی خوشی میں مگن تھی ۔ پھر سے خاموشی کی دنیا میں واپس چلی گئی ۔ اور آخر کار منوں مٹی تلے جا سوئی ۔ مگر جاتے جاتے ایک خزانے کی چابی بیٹے کو دے گئی کہ مرنے کے بعد اس خزانے کو کھولنا ۔ بیٹے نے جب وہ خزانہ کھولا تو اس میں سے اس عام سی عورت کے لکھے گئے الفاظ صفحات کی صورت میں قید پڑے تھے ۔ اس نے کب یہ لکھے اور کیسے سنبھال کر رکھے کسی کو پتہ نہ چلا ۔ اور ماں کے ہاتھ کا لکھا ایک رقعہ بھی پڑا تھا جس میں التجا کی گئی تھی کہ ان کو جلانے سے پہلے ایک بار پڑھ لینا کہ ان میں بغاوت کے کیا قصے لکھے گئے ہیں ۔ اس نے وہ خاموشی سے پڑھے اور ان کو ختم کرنے کا سوچا کہ مرنے کے بعد اس کی ماں کا مزید نام نہ لیا جائے بغاوت کرنے والوں میں ، مگر کسی انجانی قوت نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا ۔ اس کو ہر وقت لگتا اس کی ماں کی نظریں اس کا پیچھا کر رہی ہیں ۔ایک دن اس نے ان پیچھا کرتی نظروں سے پیچھا چھڑانے کا فیصلہ کیا اور اس نے خاموشی سے وہ صفحات لیے اور ایک ناشر کمپنی کے نام بے نام پارسل بھیج دیا ۔ اور آج اسی کتاب کی تقریب رونمائی تھی ۔ ناشر نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس کی زندگی کا انہونا واقعہ ہے مگر ان صفحات میں لکھی گئی زندگی کی کہانیاں اتنے سچے الفاظ میں لکھی گئیں کہ وہ ان کو شائع کرنے سے خود کو روک نہ سکا ۔ آج اس عام سی عورت کی عام سی خواہش پوری ہو گئی تھی ۔ وہ اس درخت کی چھاؤں میں آ گئی تھی مگر یہ چھاؤں تپتی چھاؤں تھی ۔ مگر وہ پھر بھی اس چھاؤں کے ملنے پر بیٹے کی خوشیوں کی دعاؤں میں مصروف ہو گئی ۔
 

Zulikha Ghani
About the Author: Zulikha Ghani Read More Articles by Zulikha Ghani: 13 Articles with 13336 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.