حافظہ قندیل تبسم
ایک صاحب فنِ مکالمہ پر لیکچر دے رہے تھے اس سلسلے میں انہوں نے یوسف علیہ
السلام کا قصہ بیان کیا جب وہ قرآن کی اس آیت پر پہنچے
وَدَخَلَ مَعَہُ السْجْنَ فَتَیٰنِ
"اس کے ساتھ قید خانے میں دو نوجوان بھی داخل ہوئے۔"
تو انہوں نے حاضرین کو بغور دیکھا ،پھر ان سے دریافت کیا :
,,اس کے ساتھ قید خانے میں دو نوجوان بھی داخل ہوئے ؟ ان تینوں میں سے کون
پہلے داخل ہوا ؟
یوسف یا دونوں نوجوان ؟
ایک پکارا:
"یوسف علیہ السلام"
دوسرے نے کہا :
"نہیں دونوں جوان"
تیسرا بولا :
"نہیں ،نہیں، یوسف، یوسف"
چوتھے نے ذرا ہوشیار بننے کی کوشش کی :
"وہ اکٹھے داخل ہوئے تھے"
پھر پانچواں بولا اور ایک شور بپا ہو گیا اصل بات کہیں غائب ہو گئی لیکچرار
صاحب یہی چاہتے تھے انھوں نے حاضرین کے چہروں کو غور سے دیکھااور مسکرائے،
پھر انہیں خاموش ہو جانے کا اشارہ کیا اور کہنے لگے :
"آخر مشکل کیا ہے؟ یوسف علیہ السلام پہلے داخل ہوئے ہوں یا دونوں نوجوان ،
بات ایک ہی ہے کیا یہ مسئلہ اتنے اختلاف اور بحث و تکرار کا مستحق ہے ؟"
واقعی بسا اوقات ہم لوگ خواہ مخواہ دوسروں کی باتیں کاٹ کر اعتراض کرتے اور
ساری بات کا مزہ کرکرا دیتے ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی چیز کی حقیقت
سمجھے بغیر اس پر اعتراض جڑ دیتے ہیں اور صبر یا انتظار کرنے کا تکلف نہیں
کرتے
اللہ تعالی نے سچ فرمایا :
(وَکَانَ الْاِنْسِانُ عَجُوْلاً )
"اور انسان جلد باز واقع ہوا ہے" |