اتحادِ عالم اسلام

ہیں ضبطِ باہمی سے قاٸم نظارے سارے
یہ نقطہ ہے نما یاں تاروں کی طرح سے
اتحادواتفاق سے مرادمل جل کر رہنا ہےاور اس میں بڑی طاقت ہے۔اتحادواتفاق کا قانون ایک عالمگیر اصول ہے جس پر کاٸنات کا نظام چل رہا ہے۔قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے،بہت سے پھول مل کر باغ کی خوب صورتی سے بنتے ہیں۔

کوٸی ملک،کوٸی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کہ افراد میں یک جہتی نہ ہو۔موتی جب ایک لڑی میں پروۓ جاٸیں تو ہار کی صورت اختیار کر لیتے ہیں پھول اکٹھے ہو کر خوب صورت گل دستے کا روپ دھار لیتے ہیں اس طرح افراد جب ایک خاص نظام فکر میں وابستہ ہو جاٸیں تو ایک تحریک یا قوم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں علا مہ اقبال فرماتے ہیں
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

شیخ سعدی کے قول کے مطابق اگر چڑیوں میں اتفاق ہو جاۓ تو وہ شیر کی کھال اتار سکتی ہیں۔بالکل اسی طرح اگر کسی قوم میں اتفاق ہو جاۓ تو ہر مشکل چٹان سے ٹکرا سکتی ہے جس طرح دریا کے باہر موج کوٸی معنی نہیں رکھتی اسی طرح فرد کی اپنی کوٸی قوت نہیں۔فرد تنہا کوٸی حیثیت نہیں رکھتا لیکن جب وہ ایک ملت میں گم ہو جاتا ہے تو بڑی قوت بن جاتا ہے

اسلام اپنے ماننے والوں کو اخوت و مساوات کا درس دیتا ہے۔حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم فرماتے ہیں کہ ”بے شک مومن آپس میں بھا ٸی بھاٸی ہیں“

اقبال نے”رموزِبے خودی“ میں اسلامی تاریخ کا ایک واقعہ رقم کیا ہے کہ ایرانیوں کے ساتھ ایک جنگ کے دوران یزدگرد کے سپہ سا لاروں میں سے ایک سپہ سالار مسلمانوں کا قیدی بن گیا۔اس نے اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھتے ہوۓ ایک مسلمان مجاہد سے جان بخشی کی اپیل کی، جسے اُس نے قبول کر لیا۔جب جنگ ختم ہوٸی تو پتہ چلا کہ دشمن فوج کا وہ شخص تو وہ ایرانی جنگجوٶں کا سپہ سالار ”جابان“ تھا لہٰذا مسلمانوں نے اپنے سپہ سالار سے اس کے قتل کی اجازت مانگی۔اس وقت مسلم فوج کے سپہ سالار ابو عبیدہ ثقفیؓ تھے۔انھوں نے کہا کہ ”ہم میں سے ہر ایک امینِ امت ہے۔جب ملت فرد کی جان کی بنیاد ہو جاۓ تو فرد کا پیمان ملت کا پیمان بن جاتا ہے۔اے امت خیرالانام! اب جابان کاخون ہماری تلواروں پر حرام ہے“

جب تک مسلمان حکمرانوں میں اقتدار پر باکردار لوگ فاٸز رہے ہیں انہوں نے اس منصب حکمرانی کو امانت تصور کیا لیکن جوں ہی اقتدار مفاد پرست لو گوں کی ہاتھ میں آیا سلطنت کا شیرازہ بکھرنےلگا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کی حکمرانی غیر قوموں کے ہاتھ میں چلی گٸ اور مسلمان زوال کا شکار ہو گۓ
الغرض آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے اختلافات کو بھلا کر پھر سے ایک مر کز پر اکٹھےہوں غلامی کی زنجیروں کو توڑ دیں اور اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کریں۔۔
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا توں
مجھ کو گلا تجھ سے ہے یورپ سے نہیں

ABDULLAH Butt
About the Author: ABDULLAH Butt Read More Articles by ABDULLAH Butt: 10 Articles with 8317 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.