مینارِ پاکستان کی کہانی۔عہدِ رفتہ کی نشانی

23 مارچ کے حوالے سے خصوصی تحریر مینارِپاکستان کی کہانی ۔عددِرفتی کی نشانی مینار پاکستان کی تاریخ اور فن تعمیر۔

فیصلہ ہوا کہ اقبال پارک لاہورمیں عین اسی جگہ یہاں (جو اس وقت منٹو پارک کہلاتا تھا)23 مارچ 1940ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارات میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی تھی۔ اُس جگہ کو ئی یادگار تعمیر کی جائے۔مگر اسے علامت اور عمارت کے طور پر کیا صورت دی جائے۔باغ،مسجد، کتب خانہ،عجائب گھر،درسگاہ یا مینار۔بحث و تمحیص کے بعد مینار کی تعمیر کا فیصلہ ہوا۔

یادگاری منصوبے کی مجلس تعمیر کے سربراہ معروف دانش ور مختار مسعود کی زیرصدارت مجلس تعمیر کے اجلاس میں غور ہوا کہ ”یادگار“ وہ نشانِ خیر ہے جو مرنے کے بعد باقی رہے۔جب یادگار کا عام تصور موت اور فنا ہے،تو قرار دادِپاکستان جو ایک زندہ جاوید حقیقت ہے،اس سے اس کا کیا تعلق۔اس لیے منصوبے سے یادگار کا لفظ خارج کرکے اس کا نام ”مینارِقرار دادِ پاکستان“رکھ دیا گیا۔مگر ستم ظریفی دیکھئے! لاہورے اسے اب بھی یادگار کے نام سے پکارتے ہیں۔

مینارِ پاکستان کا نقشہ نصیرالدین مرات خان نے تیار کیا تھاجن کا تعلق روسی ریاست داغستان سے تھا۔انہیں روسی حکومت کی طرف سے بہترین نقشہ نویسی پر کئی انعامات ملے،مگر روسی کمیونسٹ پارٹی سے اختلاف کی بنا پر جرمنی چلے گئے۔قیام پاکستان کے بعد انہوں نے مستقل لاہور میں سکونت کا فیصلہ کرلیا اور جرمنی چھوڑ کر 1950ء میں پاکستان آگئے۔

مرات خان قرار دادِ پاکستان کی یادکے حوالے سے ایسا ڈیزائن بنانا چاہتے تھے جس میں جدوجہدآزادی کی مکمل جھلک نظر آئے۔ انہوں نے مینارِ پاکستان کے ڈیزائن اور نگرانی کے کام کا معاوضہ جو تقریبااَڑھائی لاکھ بنتا تھا نہیں لیا،بلکہ تعمیراتی کام کی نگرانی پر مامور اپنے عملے کوتنخواہ بھی اپنی جیب سے دی۔تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈکمپنی نے انجام دیا۔ مینارِ پاکستان تعمیراتی اعتبار سے اسلامک،مغل اور جدید فن تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔

مینارِپاکستان کا سنگ بنیاد 23مارچ1960ء کو رکھا گیا۔یہ 70لاکھ58ہزار روپے کی لاگت سے 8سال کی مدت میں تعمیر ہوا۔ اس کی باضابطہ تعمیر26جولائی1967ء میں مکمل ہوئی اور افتتاح 31 اکتوبر 1968ء کوہوا۔

مینارِ پاکستان ہائپر بولاڈیزائن میں تعمیر کیا گیا ہے،اس ڈیزائن میں عمارت کی چوڑائی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا بیشتر سامان پاکستانی ہے۔سنگِ سرخ اور سنگِ مرمر ضلع ہزارہ اور سوات سے حاصل کیا گیا۔مینارکی بلندی 196 فٹ6انچ ہے۔180فٹ تک اسے لوہے اور کنکریٹ سے تعمیر کیا گیا،باقی ساڑھے سولہ فٹ اسٹین لیس اسٹیل کا گنبد بنایا گیا ہے جس سے روشنی منعکس ہو کر اپنی کرنیں بکھیرتی ہے۔اس میں 255سیڑھیاں اور برقی لفٹ بھی ہے۔مینار میں 5گیلریاں اور 20منزلیں ہیں پہلی گیلری 30فٹ کی اوبچائی پر ہے۔مینار کی بالائی منزل پر جانے کے لیے پہلی منزل 95سیڑھیوں کے بعد آتی ہے۔

مینارِ پاکستان کی تعمیر میں بہت تکنیکی مہارت استعمال کی گئی ہے جس سے پاکستان کے ابتدائی ادوار میں پیش آنے والی مشکلات کی عکاسی ہوتی ہے۔مینار کی بنیاد کے نیچے مختلف تختے ہیں۔پہلا تختہ کھردرا اور ناراشیدہ ہے یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان آزادی کے وقت کن دگرگوں حالت کا شکار تھا۔دوسرے تختے میں پتھروں کو ترتیب اور تراش دی گئی ہے،تیسرے تختے میں پتھروں میں ملائمت پیدا کی گئی ہے۔ جب کہ چوتھے تختے پر سنگِ مرمر استعمال کیا گیا ہے۔ان علامتوں سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کس طرح آہستہ آہستہ ترقی کرتا رہا۔

پانچواں تختہ پانچ کونوں والے ستارے کی شکل کا ہے جس سے اسلام کے پانچ ارکان کی طرف اشارہے۔اور ستارے کو دو ہلالوں نے گھیر رکھا ہے، جو فضائی منظر سے واضع ہوتا ہیں۔اس سے اوپر مینارِ پاکستان کا ڈیزائن ایسا ہے جیسے پھول اپنی پتیاں کھولے ہوئے ہو۔

مینارِ پاکستان کے نچلے بیرونی حصے پر سنگِ مرمر کی7فٹ لمبی اور 2فٹ چوڑی 19تختیاں نصب ہیں۔ان پر آیات قرآنی خطِ کوفی میں،اسمائے حسنہ خطِ ثلث میں،پاکستان کی آزادی کی مختصر تاریخ، قومی ترانہ، قائد اعظم کی تقاریر سے اقتباسات،علامہ اقبال کی نظم ”خودی کا سرِنہاں لاالہ الااللہ“ خطِ نستعلیق میں اور قرار دادِ پاکستان کا مکمل متن اردو،بنگالی اور انگریزی زبانوں میں کندہ ہیں۔صدر دوازے پر ”اللہ اکبر“ اور ”مینارِ پاکستان“کی تختیاں آویزاں ہیں۔یہ تمام خطاطی حافظ یوسف سدیدی،محمد صدیق الماس،صوفی خورشید عالم،ابن پروین رقم، اور محمد اقبال کی مرہونِ منت ہے۔

مینارِپاکستان کے ارد گرد 18ایکڑ رقبے پر محیط خوبصورت اقبال پارک ہے۔جس میں سبزہ زار،فوارے،رہداریاں اور ایک جھیل بھی موجود ہے۔مینارِ پاکستان کے سائے تلے قومی ترانہ کے خالق حفیظ جالندھری آسودہ ء ِ خاک ہیں۔1984 ء میں ایل ڈی اے نے مینارِ پاکستان کو اپنی تحویل میں لے لیاتھا۔
پنجاب حکومت نے 2015ء میں اقبال پارک کو 125ایکڑ رقبے تک وسعت دیتے ہوئے 981ملین کی خطیر رقم سے پارک کی تزئین و آرائش کا آغاز کیا۔اور سبزہ زار،فوارے،رہداریوں اور جھیل کی توسیع اور مزید خوبصورتی کیساتھ پوئیٹ ریسٹورنٹ اور نیشنل ہسٹری میوزیم کازبردست اضافہ کیا۔اب تاریخی عالمگیری مسجد،شاہی قلعہ اور علامہ اقبال کے مزار کو بھی پارک کی حدود میں شامل کر کے اسے ،،گریٹر اقبال پارک ،،کا نام دیدیا گیا ہے۔اور ایک نیا محکمہ پارک اینڈ ہارٹیکلچرل قائم کر کے اس کا انتظام و انصرام اسے دیدیا گیا ہے۔

ikramulhaq chauhdryاکرام الحق چوہدری
About the Author: ikramulhaq chauhdryاکرام الحق چوہدری Read More Articles by ikramulhaq chauhdryاکرام الحق چوہدری: 20 Articles with 50744 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.