موجودہ حالات میں ہر طرف موت اور بیماری کا خوف
پھیلا ہوا ہے اور ہر دوسرا شخص اس خوف میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اس خوف میں
مبتلا ہونے کی ایک اچھی خاصی وجہ بھی ہے۔ تمام دنیا اس خوف میں مبتلا ہے۔
خوف سے خوف جنم لیتا ہے۔ تمام دنیا کو اس خوف میں مبتلا دیکھ کر ہر شخص
اپنے اوپر اس خوف کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ جب چین، امریکہ، برطانیہ اور پورا
یورپ، آسٹریلیا ، اور ایشیا و افریقہ اس خوف میں مبتلا ہیں تو کوئی ایک شخص
اس سے کیسے بچ سکتا ہے۔ دنیا میں اس سے بڑا لاک ڈاؤن پہلے کبھی نہیں دیکھا
گیا ۔ اس لاک ڈاؤن کا اپنا ہراس بھی ہے جو کہ کرونا کے خوف کے قریب قریب
پہنچ جاتا ہے۔ کہیں بیماری سے موت اور کہیں بھوک سے موت کا ڈر انسانوں کے
سروں پر منڈلا رہا ہے۔ اس خوف کی فضا میں ہر شخص دوسرے کو شک کی نگاہ سے
دیکھتا ہے کہ کہیں وہ کرونا کا سفیر تو نہیں ہے۔
اگر بات کو تھوڑا سا فلسفیانہ ٹچ دیا جائے تو بات کسی اور انداز میں ڈھل
جاتی ہے۔خدا کی انسان سے قربت کے متعلق خود قرآن پاک کا بیان ہے کہ خدا
تمہاری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔ لیکن ہم انسانوں کو خدا کا خوف کبھی
محسوس ہی نہیں ہوا۔جب کہ اصل میں ڈرنے کا حق تو اسی کا ہے کہ صرف اور صرف
اسی سے ڈرا جائے۔ اور جو انسان اس خدا سے ڈرتا ہے وہ کسی اور سے نہیں ڈرتا۔
دوسری بات بیماری اور موت کی ہے۔ انسان ان دونوں سے ڈرتا ہے۔ اور ڈرنا بھی
چاہیئے۔ بیماری کا ڈر بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ انسان کو موت کے قریب
تر کر دیتی ہے۔ لیکن کیا انسان موت سے دور ہے؟ ہرگز نہیں ، موت تو خود
انسان کے اندر ہے، جب چاہے باہر نکل سکتی ہے یا ظاہر ہو سکتی ہے۔ انسان ہر
وقت موت کے قبضے اور گرفت میں ہے۔ تو پھر کرونا کا خوف کیوں ہے؟
یہ بات دراصل نفسیاتی ہے۔ انسان کی نفسیات یہ ہے کہ وہ دور کی چیز سے کم
ڈرتا ہے اور قریب کی چیز سے زیادہ۔جیسا کہ کہا جاتا ہے : مکا نزدیک یا خدا
نزدیک۔ تو انسان دراصل خدا سے کم اور ’مُکے‘ سے زیادہ ڈرتا ہے۔ اس نفسیات
کا انسان جب موت کے کسی سورس کو اپنے نزدیک پاتا ہے تو زیادہ خوف زدہ ہو
جاتا ہے۔
مَر تو ہر کسی نے جانا ہے کیوں کہ موت انسان پر ہر بات سے زیادہ لازم ہے۔
وہ موت کے منہ میں جا کر ہی رہ سکتا ہے۔ موت سے کسی کی کوئی رشتہ داری
نہیں۔ لیکن وقت سے پہلے مر جانے کا کسی کا ارادہ یا خواہش نہیں بنتی۔ ہر
کوئی اس دنیا میں ایک لمبی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ اور جب اس زندگی میں کسی
کمی یا کٹوتی کا خطرہ محسوس کرتا ہے تو وہ ڈر جاتا ہے۔
جب کوئی زلزلہ، سیلاب، جنگ، وبا وغیرہ کا مسئلہ شروع ہوتا ہے تو دنیا بھر
کے لوگ اس سے ڈر جاتے ہیں کیوں کہ اس صورت میں انسان کو اپنی موت پہلے سے
زیادہ نزدیک محسوس ہوتی ہے۔ کرونا، ڈینگی اور کسی بھی اور وبا اور بیماری
سے ڈرنے ، بچنے اور محفوظ رہنے کی انسانی نفسیات ہے۔ ہمیں اس وائرس سے بچنا
بھی ہے اور دوسروں کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کرنی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ
اپنے مقدر اور نصیب پر پورا یقین بھی رکھنا ہے۔ کیوں کہ موت برحق ہے اور
اپنے وقت پر ہی آنی ہے۔ اور ہم نے اپنے خالق و مالک کے پاس جانا ہے اور
ضرور جانا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کی بھلائی چاہتے اور مانگتے ہوئے زندگی کے
آسان اور مشکل وقت گزاریں۔
کرونا کا مشکل وقت اﷲ کی مہربانی سے گزر ہی جائے گا لیکن اس مشکل وقت میں
اپنے ایمان کو برقرار رکھنے بلکہ اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ایمان
میں ، بیماری کے خلاف دفاعی اقدامات کرنا بھی ایمان کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
وبا کی صورت میں معاشروں کی اجماعی ذمہ واری بن جاتی ہے ۔ ہمیں ایک مہذب
معاشرے کی طرح، ایک ایماندار معاشرے کی طرح اور ایک فلاحی معاشرے کی طرح اس
نزدیکی خطرے کا سامنا کرنا ہے۔اس یقین کے ساتھ احتیاطی تدابیر کرنی ہیں کہ
موت ہمیشہ اﷲ کے حکم سے آتی ہے لیکن موت سے بچنے کی تدبیر کرنا بھی خدا کی
رضامندی حاصل کرنے میں سے ہے۔ |