کرونا، افواہیں، الزمات اور عالمی ماحول

چین میں کرونا وائرس نے بہت زیادہ پریشانی پھیلائی ہوئی ہے ۔ عالمی ادارہ صحت نے تقریباً سب ممالک کو اس وائر س سے بچنے کا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ کرونا وائرس کا یہ حملہ تقریباً زیادہ تر ایشیائی ممالک پرہوا ہے ۔ تمام ملکوں کے باشندے ہر جگہ موجود ہیں اور آنا جانا بھی لگا رہتا ہے نہ جانے اس پاگل ہوا نے ابھی کیا کچھ کرنا ہے ۔معیشت کی بربادی کے ساتھ ساتھ پیار اور محبت بھی ملیا میٹ ہوتی جا رہی ہے ۔ الزامات ، خدشات اور افواہوں نے عالمی ماحول کو بہت زیادہ جنگ آلود اور زنگ آلود کر دیا ہے ۔عالمی سطح پر خوف و ہراس کی لہریں دیکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان پر بھی کرونا کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ ہائی الرٹ جاری ہو چکا ہے ۔ کاروبار ٹھپ ہو چکے ہیں ہسپتالوں میں کرونا وائرس کی تشخیص و تحقیق کے لیے مشینیں آچکی ہیں یا منگوانے کے لیے فائل ورک آخری مراحل پر ہے میڈیا پر طرح طرح کے قصے کہانیاں سنائے جا رہے ہیں الیکٹرونگ میڈیا بار بار نیوز بریک کے ذریعے کرونا کرونا کھیل رہا ہے دل دھل چکے ہیں سانسیں رک ہوئی ہیں۔ پولیس کا کاروبار بھی کافی چمک چکا ہے ۔ کئی جگہ اور شادی ہالوں پر سودے بازی کا سماں بھی دیکھا گیا ہے ۔ سرکاری مشینری اپنے اختیارات کے ساتھ ساتھ ذاتی طور پر بھی کرونا سے نمٹنے کے لیے متحرک نظر آتی ہے حکومتی وزارء بھی عجیب و غریب بیان بازی کر رہے ہیں ۔ محترم چوہان صاحب نے کمال کا بیان دیا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کو شکست دے دی ہے کرونا وائرس کی ہمارے سامنے کیا حیثیت ہے ۔ ارے او بابا کہاں دہشت گردی اور کہاں کرونا آپ کے جذبات سے ہمت، جرأت اور مقابلے کا تاثر واقعی ملتا ہے ۔ یقینا قومی چیلنج سے نمٹنے کے لیے بھر پور تیاری کی اشد ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر کی خدمات سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے پیار اور نرم دلی گولیوں کا استعمال بھی ہر کسی کے لیے ضروری ہے ۔ جذبات کبھی بکھر بھی سکتے ہیں اور بپھر بھی سکتے ہیں ۔ عوام کیلئے ہر سطح پر آگا ہی مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے الیکٹرنک میڈیا کو خصوصی طور پر خوف و ہراس ختم کرنے کے لیے نہایت موثر اقدامات کر نے کی کوششوں کو تیز کرنے کی بے حد ضرورت ہے ۔ قوم کے حو صلوں کو اس وقت بلند کرنے کا سہرا میڈیا کو اپنے ذمے لینا ہوگا۔ کیونکہ ہر گھر کا تعلق میڈیا سے کسی نہ کسی طرح ضرور ہے ۔ چوکناہو کر کرونا سے جنگ کرنا ضروری ہے کیو نکہ اس سے قبل کسی وائرس کا خوف عوامی سطح پر کبھی محسوس نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثرافرادکی تعداد200سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ وائرس نامراد ہمسایہ ملکوں میں بھی تباہی اور خوف و ہراس پھیلا رہا ہے ہر ملک اپنے وسائل کے مطابق احتیاطی تدابیر اور دوا دارو کر رہا ہے ۔ سعودیہ میں طواف کعبہ اور پنجگانہ نماز کی ادائیگی بھی محدود ہو چکی ہے ۔ پاکستان میں بھی نماز اور جنازوں پر قدغنیں لگ چکی ہیں ۔ ہوائی اڈوں ، ہوٹلوں اور عوامی جگہوں پر خاموشی کا عالم طاری ہے ۔ ایسے میں عدالتوں کچہر یوں کے معاملات کا کیا بننے گا۔۔۔۔۔۔جیلوں میں بند ملزموں کی خبر گیری کیسے ہوگی ۔ سفری معاملات کو کس طرح نمٹیا جائے گا ناجانے ہمیں کیا کیا مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ ٹھیک سہی ۔مگر ہم بھی تو بکھر ے ہوئے ہیں ۔ یہ ہماری شامت اعمال نہیں تو کیا ہے ۔طاغوتی طاقتیں کب مسلمانوں کو برداشت کرتی ہیں۔ جیسا کہ مرحوم صدر صدام حسین نے بھی ایک دفعہ امریکا کی دھمکی دورائی تھی جس میں کرونا وائرس چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔ اﷲ جانے حقیقت کیا ہے کیا نہیں اگر امریکا نے چھوڑا ہے تو خود بھی اس دلدل میں پھنس چکا ہے ۔ اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔ کچھ دیر پہلے غیر مسلم دنیا کا مذاق اُڑا رہے تھے کہ یہ پردہ کیا ہے لیکن اب مرد اور لڑکیاں بھی منہ پر ماسک پہن کر منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔ ہم مسلمانوں نے یہ ماسک بھی 300%مہنگے کر دیے ہیں بلکہ پاکستان میں کئی مقامات پر اس کی نایابی کی خبریں بھی گردش کررہی ہیں۔ خان صاحب نے خصوصی خطاب میں معشیت کی تباہی کو بھی کرونا وائرس کے کھاتے میں ڈال دیا ہے ۔ پاکستان کے تمام صوبوں نے خصوصی ویب سائٹ بنا کر عوام کو لمحہ با لمحہ کرونا سے آگاہی کا سلسلہ جاری کر دیا ہے ۔ وزارت صحت پاکستان نے کرونا سے پہلی ہلاکت کی تصدیق بھی کر دی ہے یہ حافظ آباد کا رہائشی تھا اور تفتان بارڈر کے راستے ایران سے پاکستان میں آیا تھا۔ اس ہلاکت سے اہل تشیع کی مجالس پر قدغنوں کی تلوار لٹک چکی ہے اب حکومت کس طرح اس سے نبر د آزما ہوتی ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔عمرہ کی ادائیگی پہلے ہی معطل ہو چکی ہے اس وقت دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم بھی پس رہی ہے ۔ اور بجائے ایک دوسرے کے قریب ہونے کے حفاظتی تدابیر کے تحت بکھر کر پارہ پارہ ہو رہی ہے ۔ بہت دیر پہلے بڑی طاقتیں اپنے مفاد کے لیے تب دق ،طاعون ، ایڈز وغیرہ سے اپنے مفاد کیلئے خوف و ہراس پھیلا کر بہت پیسہ کما چکی ہیں کیا اس غلطی کو پھر سے تو نہیں دہرایا جا رہا ہے ۔ ہمیں آگاہ ہونا ہوگا۔ اس کرونا سے مقابلے کے لیے فرانس میں فوج کی خدمات حاصل کر لی گئی ہیں ۔ قطر،ترکی،سوئٹر لینڈ، ایران سب متاثر ہو چکے ہیں ۔ کئی ممالک اپنی سرحدیں بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔ سعودی عرب میں سرکاری دفتر بند ہوچکے ہیں پرتگال اور اسپین میں ٹرین سروس معطل ہوچکی ہیں ۔ قارئین نظام زندگی درہم برہم ہو چکا ہے ۔ میں تو یہی سمجھا ہوں کہ گناہوں کی معافی مانگنے کی بھی نہایت اشد ضرورت ہے ۔ کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ دنیائے عالم بے بس دکھائی دے رہی ہے ۔ ٹیکنالوجی کے عروج کا جن لوگوں کو گھمنڈ تھا اسکا کا جنازہ نکل چکا ہے ۔ پاکستان میں مخیر حضرات کے کمی نہیں ہے ان کو بھی سامنے آکر اپنا کردار ادا کرنے کی نہایت ضرورت ہے ۔ ایران اور اٹلی میں تباہی کچھ زیادہ محسوس کیا جار ہی ہے ۔ ہم بطور انسانیت ان کے ہر قدم پر ساتھ ہیں ۔ ہماری محبتیں ان کے لیے ہیں صدر ڈولنڈ ٹرمپ نے ایمر جنسی کا نفاذ کور دیا ہے ہم ہر حال میں بھی ان کا بھی احترم بھی کرتے ہیں کیونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ان سے ہمیں بہت توقعات ہیں ۔ ان کا احترام ضر وری ہے ۔
بقوم شعر
شہر میں رقص جنوں جاری ہے
یہ مصیبت کی گھڑی بھاری ہے
تو میر ے حال پہ ہنستاتھا بہت
اب میر ے بعد تیر ے باری ہے

بہر حال پاکستان کے بجٹ سے 50عرب ڈالر ایمر جنسی رلیف کے لیے فراہم کرنے کا اعلان منظر عام پر آچکا ہے ۔ کئی لوگوں کے پیسے بنانے کے دن شروع ہو چکے ہیں ۔ وزیر اعظم پر اعتماد ہیں ہم اس کے ساتھ ہیں کیا نکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو۔ جناب قارئین ہم محب وطن شہری ہیں پاکستان کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں ۔ کیونکہ یہ ایک المیہ ہے ۔
بقو ل شاعر
ہمیں یہ ماننا ہوگا
کتاب حق بھی سچی ہے
نبی کا دین بھی سچا ہے
سبھی احکام بھی سچے ہیں
مگر ہم لوگ جھوٹے ہیں

اس نازک مرحلے پر نہایت سوچ و بچار اور عقم فہم کی ضرورت ہے ۔ اقوام متحدہ کے بھی طوطے اْڑے ہوئے ہیں اور اس نے کئی باتوں پر لوگوں کو بھی الو بنا رکھا ہے ۔ یہاں تک ہم اپنے آپ سے بھی الگ ہو چکے ہیں ۔ ہم بطور مسلمان کمزور دکھائی دے رہے ہیں شاید اس لیے کے محمد ﷺ و آل محمد ﷺ کے فرامین کو بھول چکے ہیں ۔
ہر ابتدا سے پہلے ہر انتہا کے بعد
ذات نبیﷺبلند ہے ذات خدا کے بعد

ہمیں چائیے کے اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور احتیاطی تدابیر اپنائیں اور جو خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے اس کو کم کرنے کی کوشش کریں ۔ کرونا وائرس جس طرف سے بھی آیا ہے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے ۔ ہمارا پروردگار اس سے ہمیں محفوظ رکھے۔ اور جلد ازجلد اس وباء سے نجات دلائے ۔ آمین !
 

Tahir Mehmood Asi
About the Author: Tahir Mehmood Asi Read More Articles by Tahir Mehmood Asi: 3 Articles with 2638 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.