گل خان دوڑتے ہوئے میرے پاس آیا کہ یارا یہ تو بتاؤ
’’ساڈے تے ناں رہنا ‘‘کا مطلب کیا ہے ؟۔ گل خان کا بہت دنوں بعدمنظر عام
پرآنا غور طلب تھا کہ اصل معاملہ کیا ہے ، کیونکہ گل خان کی بے سروپادعوے
ہمیشہ سردرد کا باعث بنے ہیں ۔میں نے بے اعتنائی سے پوچھا کہ خیر تو ہے نا
، بڑے دنوں بعدآئے ہو، کیا بھنگ پی کر کہیں سوگئے تھے ۔ میرے لہجے میں بڑی
تلخی تھی ، کیونکہ شوگر کے ریٹ بڑھنے کے بعد چینی کا استعمال کم کردیا تھا
، گل خان نے ہمیشہ کی طرح سنی اَن سنی کرتے ہوئے کہا کہ نہیں ،پہلے مطلب
بتاؤ ، میں تو پہلے سے ہی جَلا ُبُھنا بیٹھا تھا ، تنگ آمد بجنگ آمد، دل
بڑا کرکے کہہ دیا ’ خان صاحب بڑے مطلب پرست ہو، کبھی بغیر مطلب کے بھی بات
کرلیا کرو ‘ ۔ گل خان نے جھلاہٹ سے کہا کہ تم جیسوں نے بیڑا غرق کردیا ہے ۔
جب بھی کچھ پوچھو ، فلسفہ جھاڑنے بیٹھ جاتے ہو، کبھی سنجیدہ بھی ہوجایا کرو
۔ یہ سننا تھا کہ دل نا مُرادپتا نہیں کیا کیا چاہنے لگا ۔
خاکسارعدم تشدد کا پیروکار ہے ، اس لئے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا کہ دیکھو
یارا ، بے شک مل جُل کر بوٹ پالش کیے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پالش
ختم ہوجائے تو بھی رگڑا لگایا جاتا رہے۔گل خان نے محسوس کرلیا کہ ’’ شاید‘‘
میں غصے میں ہوں ، لیکن درحقیقت میں اب بھی سہما ہوا تھا ، کہ گل خان بڑا
زور آور ہے ، اگر اس نے مجھے جھڑک دیا تو ۔۔۔ وقت کی نزاکت کا ادراک کرتے
ہوئے کہا کہ چوکیدار عموماََ پہرہ داری کرتے وقت آواز لگاتے ہیں کہ جاگدے
رہنا ، ساڈے تے ناں رہنا ‘ ۔ مطلب اگر کوئی چور، ڈاکو کہیں قریب ہو تو وہ
خوف زدہ ہوجائے اور سمجھ لے کہ کوئی رکھوالا ہے ۔ یہ تو بڑی عام سے بات ہے،
تمھیں سمجھ کیوں نہیں آرہی ۔ گل خان نے کہا ’ خانہ خراب ، سمجھ میں نہیں
آئی ،تبھی تو تم جیسے کند ذہن کے پاس آیا۔ اچھا یہ بتاؤ کہ کیا چوکیدار کے
پاس ہتھیار نہیں ہوتا کہ وہ چور کو ڈرا کر پکڑ لے ۔
کند ذہن کی چھاپ مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے تئیں پتے کی بات بتائی کہ
اسے ہتھیار کی ضرورت نہیں ہوتی ، بلکہ اکثر جگہوں پر تو نابینا چوکیدار بھی
لالٹین اٹھائے بیٹھے لیٹے ، زور دار آواز لگاتے رہتے ہیں، جاگدے رہنا ،
ساڈے تے ناں رہنا ۔گل خان نے پھر استفسار کیا کہ ان کی خدمت کیوں نہیں کی
جاتی ، راتوں کو انہیں تکلیف میں کیوں ڈالا جاتا ہے ۔ میں جزبز ہوا ، لیکن
کند ذہن کے طعنے کا جواب بھی تو دینا تھا ، اس لئے کہا کہ آج کل تبدیلی کی
وجہ سے احساس کی کمی ہے کہ بزرگوں کو بوجھ سمجھے جانے لگا ہے ، اس لئے یہ
حضرات ، اپنے سفید پوشی کابھرم رکھنے کے لئے کسی لنگر خانے میں بھی نہیں
جاتے بلکہ رات بھر جاگ کر مزدوری کرتے ہیں ، حالاں کہ انہیں تو ویسے بھی
نیند نہیں آتی ، رات بھر کھانستے رہتے ہیں ، اوّل کھانسنے سے پہلے بیماری
نہیں پھیلتی ،دوم گھر والے آرام سے سو جاتے ہیں ، سوم بابے کو روٹی شوٹی
بھی مل جاتی ہے ۔
گل خان کسی سوچ میں گم ہوگیا، پھر چونک کر کہنے لگا کہ واقعی ایسا ہوتا ہے
۔ میں نے اثبات سے سرہلایا ۔ اُس نے کہا ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوگا ، میں نے
اس بار گردن ہلائی ،سر خود بخود ہل گیا ۔ لیکن گل خان اس بار کچھ اور
پوچھنا چاہتا تھا ۔ سمجھ چکا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے ، لیکن اس نے
مجھے کند ذہن کہا تھا ، اس لئے میں نے اس طعنے کا دفاع کرنے کا سوچ لیا تھا
کہ گل خان کا ذہن دوسری جانب نہیں دینا ، جہاں یہ دھکیلنا چاہتا تھا ۔لیکن
، گل خان تو گل خان ہی تھا ، اُس کو باتوں میں گھمانا حکومت چلانے سے مشکل
کام تھا ، وہ اتنی آسانی سے کیسے بچ کر نکل سکتا تھا ۔ پھر وہی ہوا جس کا
خدشہ تھا ، کہنے لگا کہ گھبرانا نہیں ، ساڈے تے ناں رہنا میں ایسا کیا تعلق
ہے ،جو لوگوں کو پریشانی کا باعث بنا ، حالاں کہ بڑی اچھی بات ہے کہ کوئی
تسلی دے کہ گھبرانا نہیں ، لیکن کوئی کہے کہ مطلب’’ ساڈے تے ناں رہنا ‘‘ہے
،اس کی سمجھ نہیں آرہی ۔ اب میں واقعتاََ پریشان سا ہونے لگا تھا کیونکہ
یہاں دُور دُور تک یو ٹرن نہیں تھا کہ میں سیدھی سادی بات کو جلیبی کردیتا،
لیکن کچھ تو کرنا ہی تھا ، اپنے تئیں پھرکمال چالاکی سے کہا کہ ایک اردو کا
لفظ اور دوسرا پنجابی کا، اور مسئلہ یہ ہے کہ تم دونوں ’’اہل‘‘ زبان نہیں
ہو ۔
گل خان غصے سے لال پیلاہوگیا ، سیاہ سفید کا پتہ نہیں کیونکہ حالت اب بڑی
پتلی ہورہی تھی ۔ کہنے لگا کہ تو کیا مجھے مخبوط الحواس سمجھ رکھا ہے کہ
کھلی بات سمجھ نہیں پاتے ،اردو میں مخاطب ہوں ، قومی زبان ہے ، تم
کیاسمجھتے ہو تو یہ تمھاری غلط فہمی ہے ، مجھے لگتا ہے کہ تمھیں ہی کچھ بھی
نہیں آتا ، ورنہ بتاؤ ’’ ساڈا حق ایتھے رکھ ‘‘ کا کیا مطلب ہے ؟۔ اب تو سہم
جانا میرا حق بن چکا تھا ، اس لئے فوراََ مان گیا کہ آپ درست فرماتے ہیں کہ
ساڈا حق ایتھے رکھ کے معنی مجھے نہیں معلوم ، بلکہ زندگی میں’’ پہلی بار‘‘
سن رہاہوں۔ شدت سے چاہتا تھا مجھے چَین ملے کہ اب گل خان جلدی سے رخصت
ہوجائے ، ورنہ یہ خود تو مرے گا ہی مجھے بھی کھڈے لگا دے گا ۔ میں نے ٹرمپ
کارڈ’ جوکر‘ پھینک کر کہا کہ اب تو یہاں بھی لاک ڈاؤن ہوچکا ،اب ہم امریکا
، یورپ و عرب ممالک کے ہم عصر ہوچکے ہیں ، کیا خیال ہے ، تفتان چلیں، سنا
ہے کہ بڑے اچھے زبردست انتظامات کئے گئے( کورونا پھیلانے کے لئے) ۔ گل خان
چھینک مارتے ہوئے اٹھا، جوپہلے گلے پڑتاتھا اب تو ہاتھ بھی نہیں ملانے سے
بھی گریز کرتے ہونے کہنے لگاکہ مجھے تم سے کورونا سازش کی بو آرہی ، لگتا
ہے تمھیں قرنطینہ کی ضرورت ہے ، جاکر غرق ہوجاؤ، پوچھا کہاں ، اُس نے کہا
کہ اُس مگر مچھ کے آنسو بہت ہیں ڈوب مرنے کے لئے، جو جھوٹے دلاسوں کے بعد
چوٹ کھانے والوں کو بھی رُلاتا ہے۔
گل خان کبھی کبھی کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی بہت سمجھداری کی بات کرجاتا
ہے۔الجھن میں ہوں کہ کند ذہن ، میں ہوں یا سب کی عقل کوزنگ لگ چکا ہے کہ اب
بھی کوئی سمجھ نہیں پا رہا کہ ہمیں کب ، کیا کرنا چاہیے۔ پھر یقین سا ہوگیا
کہ مسئلہ میرے ساتھ نہیں بلکہ سب کے ساتھ یکساں ہے ، لگتا ہے کہ سب نے اُس
گاؤں کاپانی پی لیا، جسے پینے کے بعد سب پاگل ہوجاتے ہیں۔ فوراََ تالاب
کنارے جا پہنچا ، اب اُس پار کھڑا سوچ رہا ہوں کہ پی لوں یا چُلّو بھر پانی
میں ڈوب مَروں؟ ۔آپ بتاؤ کیا کروں ؟؟۔
|