وہ سب لوگ جن کو لگتا ہے ''کچھ نہیں ہوتا''- چھٹیاں ہیں
تو سمندر پر چلتے ہیں، مری چلتے ہیں،منال چلتے ہیں- سیال چلتے ہیں ''کچھ
نہیں ہوتا'' ان کو اس دنیا کی تاریخ پڑھنے کی ضرورت ہے۔
1346-ء1353ء ''بلیک ڈیتھ'': جب طاعون نے اس دنیا میں تباہی مچا دی۔ ایشیا،
یورپ اور افریقہ میں بیس کروڑ لوگ اس ناگہانی آفت کی نذر ہوگئے۔ ان بیس
کروڑ لوگوں میں ہزاروں لوگوں نے جو اس وقت بحری جہازوں کے لنگروں کی جگہ پر
کام کرتے تھے (جو اس بیماری کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے چوہوں کی افزائش کی
جگہ تھی)؛ وہاں جانے سے گریز نہیں کیا تھا یہی سوچ کر کہ ''کچھ نہیں ہوتا
''۔
1918ء کا ''سپینش فلو''، جس میں پانچ کروڑ لوگ جو اس وقت کی دنیا کی آبادی
کا 24 فیصد بنتے تھے،انفلوئنزا کی عالمی وبا کا شکار ہو کر لقمہِ اجل بن
گئے تھے۔ یہ تعداد اس وقت عالمی جنگِ عظیم اوّل کی ہلاکتوں سے بھی زیادہ
تھی۔ اس وقت بھی فرانس کے پارکس اور ساحلوں اور امریکا میں کینساس کے
تفریحی مقاموں میں ان میں سے بھی بہت سے لوگ ایسا سوچتے ہوں گے کہ ''کچھ
نہیں ہوتا -''
1956ء میں ''ایشین فلو ''اور 1968ء میں ''ہانگ کانگ فلو'' جس میں کل تیس
لاکھ لوگ لقمہِ اجل بن گئے۔ شاید ان میں بھی بہت سے لوگ سیر و تفریح اور من
موجی زندگی کو بہادری کی علامت سمجھتے ہوئے اپنے ان دوستوں کو ''ممی ڈیڈی''
کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہوں گے جو گھروں میں احتیاط کے طور پر خود کو قید
کر کے بیٹھے ہوئے تھے اور خود تمام احتیاطی تدابیر کا قتل کرتے ہوئے کہتے
ہوں گے کہ ''کچھ نہیں ہوتا''- کسی بھی وبا کا ذکر پڑھ لیں- 1910ء میں بھارت
میں ہونے والی ہیضہ کی وباکا حال ہو یا 2003ء میں ہانگ کانگ چائنا میں سارس
کی وبا کا احوال ہو؛ ہر جگہ ایسے من موجی اور من چلے لوگ نظر آئیں گے جن کے
نزدیک تمام احتیاطی تدابیر کے بخیے ادھیڑ کر پبلک مقامات پر جانا بہادری
اور شجاعت کی نشانی سمجھا جاتا رہا۔ کیوں کہ ان کے نزدیک ''کچھ نہیں ہوتا''
تھا- اور پھر دنیا کو ان کی اس خوامخواہ کی بہادری کی سزا کروڑوں مریضوں،
لاکھوں اموات اور عالمی وباؤں کی صورت میں بھگتنی پڑی اور پھر دنیا میں
''بہت کچھ ہوگیا ''----!
اس وقت بھی ہم ایک عالمی وبا کا سامنا کر رہے ہیں- جس میں دنیا کہ 140 سے
زیادہ ممالک اور ایک لاکھ ستر ہزار سے زیادہ لوگ مبتلا ہیں جب کہ اب تک سات
ہزار لوگ لقمہِ اجل بن چکے ہیں- اسپین اور اٹلی میں لاک ڈاؤن ہے۔ نیو یارک
میں ایک پورے ضلع‘‘نوروشیل‘‘ کو‘‘نیشنل گارڈز‘‘ کے حوالے کردیا گیا ہے۔
ہوبوکن نیو جرسی میں کرفیو نافذ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف امریکا میں
پندرہ کروڑ لوگوں کے اس سے بیمار ہونے کی پیشین گوئی ہے۔پاکستان میں اس کی
تعداد کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا کیوں کہ ہماری آدھی سے زیادہ آبادی
بیمار ہونے پر ہسپتالوں کا رُخ نہیں کرتی بلکہ آج بھی دیسی ٹوٹکوں اور
حکیموں پر اکتفا کرتی ہے اور ہسپتالوں میں بھی ٹیسٹ کرنے کی کٹ جو گیارہ
ہزار کی ہے کا فقدان ہے۔ جو تعداد میڈیا پر بتائی جارہی ہے وہ بھی روز بروز
بڑھ رہی ہے۔ عالمی ادارہِ صحت کی ہدایات کے مطابق یہ وائرس تین فٹ کے فاصلے
سے پھیل سکتا ہے اور کم از کم چھے فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنے کی تجویز ہے۔
جب کوئی مریض جو اس وقت خود بھی اس مرض سے واقف نہیں ہوتا کھانستا ہے،بولتا
ہے، سانس لیتا ہے، ہنستا ہے یا چھینکتا ہے، تو یہ وائرس پانی کے نا نظر آنے
والے قطروں کی صورت میں ہوا میں معلّق ہو جاتا ہے اور پھر سانس کی ذریعے یا
ان مریضوں کے ہاتھوں سے ملائے جانے والے ہاتھوں کے ذریعے اس انسان کے جسم
میں شامل ہوجاتا ہے، جو تمام تر وارنننگ کو پسِ پشت ڈال کر اس وقت سمندر پر
نہانے یا پہاڑوں پر گھومنے گیا ہوتا ہے۔ آج مساجد میں بس جمعہ کی نماز ہی
پڑھنے اور باقی نمازیں گھروں میں ادا کرنے کے فتوے جاری ہورہے ہیں۔ ملک میں
سکول،کالج، شادی ہال،بڑے اجتماع اور کرکٹ سٹیڈیم بند کردیے گئے ہیں۔ آج اگر
دنیا میں حرم شریف، کربلا،کلیسے،مندر، ڈزنی لینڈ،ایئرپورٹس،بندرگاہیں، اور
ٹرین سٹیشن سب جام کر دیے گئے ہیں تو کوئی تو سنجیدہ وجہ ہوگی جو آپ کے
اتوار کے دن کراچی کے ساحل پر جانے 'سمندر میں نہانے' مری کے پہاڑوں کی سیر
کرنے اور منال کی چائے پینے سے زیادہ اہم ہوگی۔ ان حالات میں سیر و تفریح
کے لیے منال اور مری جانا، دعاؤں کے لیے درباروں میں اکٹھا ہونا اور گھروں
میں سب کو بلا کر''باربی کیو'' کرنا ایسے ہی ہے کہ کسی گھر میں آگ لگی ہو
اور اس جلنے کی بدبو کو کم کرنے کے لیے آپ خود کو سائنسدان سمجھتے ہوئے اس
پر ''پرفیوم اور ایئر فریشنر'' چھڑکنے لگیں جس سے وہ آگ بجھتے بجھتے پھر سے
بھڑک اٹھے------
پچھلے ایک ماہ سے اس شور شرابے کے باوجود نا صرف پی ایس ایل کے بہت سے
میچوں میں ہجوم کو روکنے میں تاخیر ہوئی بلکہ ہمارے ملک میں رائیونڈ تبلیغی
اجتماع کو بھی وقت پر معطل نہ کیا جا سکا۔ تمام تر وارننگ اور تنبیہ کے
باوجود بھی ملک بھر سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد رائیونڈ (لاہور) میں
اکٹھے ہوگئے اور وجہ یہ بتائی گی کہ ہم اپنی احتیاط خود کرنے کی صلاحیت
رکھتے ہیں اور‘‘یہ سب اسلام کے خلاف سازش ہے''.. خدا خدا کرکے دو دن پہلے
جب حکومت نے سختی اختیار کی تو اجتماع کینسل کیا گیا۔ ہزاروں لوگ واپس لوٹ
گئے اور ہزاروں اب بھی کیمپوں میں مقیم اپنے بڑوں کے اگلے حکم کے منتظر
ہیں۔یہ سب اس وقت ہوا جب 'حرم پاک’مسجد نبویﷺ اور عمرے بند کر دیے گئے تھے-
اسلام کی خدمت کے نام پر ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ ایک دوسرے کو کون کون سا
تحفہ دے کر واپس چلے گئے اس کا اندازہ نا ان کو ہوگا نا ان کے بڑوں کو-
یقین جانیے یہ نا کسی بہادری اور جُرات کی داستان ہے اور نا کسی خدمت اور
عقیدے کا بیان ہے- یہ اس لا علمی اور ہٹ دھرمی کی نشانی ہے جس کا بحثیت قوم
ہم شکار ہیں- یاد رکھیے---- اٹلی جیسا ترقی یافتہ ملک جہاں وینٹی لیٹرز کی
کمی کی وجہ سے بوڑھوں کو بیمار ہونے پر موت کی آغوش میں جانے دیا جارہا ہے،
ایسے میں ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کے وسائل اس قدر محدود ہیں کہ خدا
نخوستہ اگر یہ جن بوتل سے باہر آگیا تو ہمارے پاس قسمت کو دہائیاں اور
حکومتوں کو گالیاں دینے کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔ اس لیے گزارش بس اتنی
تھی کہ گھر بیٹھ کر فیس بک پر اس کرونا وائرس پر لطیفے بنائیں،تصویریں
لگائیں میمیز شیئر کریں، سیاستدانوں کی بینڈ بجائیں،'' اس وائرس کے
''سازش'' ہونے اور گوروں پر عذاب ہونے کے موضوع پر آرٹیکل لکھیں۔ الغرض کچھ
بھی ایسا کریں، جس کی وجہ سے آپ گھروں میں رہیں، لیکن ان سکولوں کی چھٹیوں
کو ''ویکیشن'' سمجھ کر سیر و تفریح اور ہلے گلے سے پرہیز کریں، کیوں کہ یہ
صرف آپ کی ہی نہیں، آپ کے اردگرد ہزاروں لوگوں کی زندگی کا سوال ہے جو ہرگز
کوئی شغل نہیں ہے۔ہر بات کا یہ جواب نہیں ہوتا کہ‘‘کچھ نہی ہوتا‘‘- کبھی
کبھی ہو بھی جاتا ہے۔۔۔۔۔ |