کرونا وائرس اور پاکستان میں لاک ڈاؤن

کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں غیر معمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں اور سپین سے لے کر امریکہ تک بلکہ اس ب تو تمام حکومتیں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔
چین، جہاں سے اس وائرس کا پھیلاؤ شروع ہوا تھا، ہفتوں تک اسے روکنے میں ناکام رہا۔ وائرس کو ایک لمبے عرصے تک پھیلنے سے روکنے میں ناکام رہنے پر اس کی دنیا بھر میں مذمت ہوئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ چین وائرس کی شدت کو گھٹا کر پیش کر رہا ہے۔

حالات خراب ہونے پر سب سے پہلے ووہان کو لاک ڈاؤن کا سامنا ہوا۔ تمام سفری سہولیات معطل کر دی گئیں۔ اس لاک ڈاؤن سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے۔

اس وائرس کے پھیلنے کے بارے میں معلومات شیئر کرنے والے دو صحافی لاپتہ ہو گئے۔

سڑکوں پر لوگوں کا درجہ حرارت چیک کیا جانے لگا۔ عمارتوں میں سے لوگوں کو باہر نکلنے سے روکا جانے لگا۔ چین پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے لوگوں کے بارے میں خفیہ معلومات کا اس دوران استعمال کیا تاکہ ان پر نظر رکھی جا سکے۔

چین میں اب حالات معمول پر آنے کے ساتھ زندگی پٹڑی پر لوٹتی نظر آنے لگی ہے۔

مجھے یقین نہیں آرہا کہ اس کرونا نے پوری دنیا کو اس طرح ہلا کر رکھ دینا تھا ، بڑے بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن ہوگیا ، بڑے بڑے ممتاز لوگوں نے اپنی سرگرمیاں محدود کردی، پاکستان اس وبا سے محفوظ تھا ہماری وفاقی حکومت نے عوام کے تحفظ کے لئے چین سے اپنے طلبہ تک واپس نہیں بلائے ، لیکن پھر ایران میں یہ وبا پھیلی ، ایران کے شہر قُم میں ہر دوسرا فرد کرونا کا شکار ہوگیا ، یہاں ہماری حکومت سے بھول ہوگئی ، کہتے گھر کا بڑا بھول کرے تو اس کا اثر پورے خاندان پر پڑتا ہے ، جماعت کا سربراہ بھول کرے تو اس غلطی کو پوری جماعت کو بھگتنا پڑتا ہے اور اگر ملک کا سربراہ غلطی کرے تو پورے ملک کو اس کی سزا ملتی ہے ، حکمرانوں نے بھول کی ایرانی زائرین کے لئے پاکستانی سرحدیں کھول دی گئیں ، قانونی اور غیر قانونی طریقے سے پاکستان آنے والے ایرانی زائرین پورے پاکستان میں پھیل گئے ، جس کی وجہ سے ان کے ساتھ آنے والی وبا بھی پورے مُلک میں پھیل گئی ، سندھ حکومت کی کارکردگی کا یہ حال رہا کہ وزیراعلیٰ سندھ کے بہنوئی تک کرونا وائرس میں مبتلا ہوکر پاکستان آ گئے ، ایران سے آنے والے ان ہزاروں لوگوں نے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے ، پہلے صوبہ سندھ میں لاک ڈوان والی صورتحال پیدا ہوئی ، اب ہمارے صوبہ پنجاب میں بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا ہے کاروباری مراکز ، اسکول ، کالج ، حتیٰ کے دینی مدارس تک بند ہیں ، ایران سے آنے والوں کو لاکر جو غلطی حکمرانوں نے کی اس غلطی کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے ، ملک کی موجودہ صورتحال میں دینی طبقے نے جس بردباری کا ثبوت دیا ہے وہ قابل رشک ہے ، اب تک کسی حکومتی قدم کی دینی طبقے نے مخالفت نہیں کی ہے۔

اس وقت کریانہ وغیرہ کی دکانیں ضرور کھلی ہیں لیکن میرا اندازہ ہے کہ چند روز بعد پنجاب حکومت یہ دکانیں بھی بند کروا دے گی ، پنجاب اور سندھ حکومت کو سوچنا چاہیئے کہ اگر یہ رویہ برقرار رہا تو لوگ کرونا سے مریں نہ مریں بھوک اور غربت سے مر جائیں گے کیونکہ ہمارے ہاں ایسے گھروں کی اکثریت ہے جن میں دو دن کا راشن بھی اسٹاک نہیں ہوتا ، ایسے حالات میں اگر 15 دن لاک ڈوان کی صورتحال برقرار رہی تو مجھے خدشہ ہے کہ لوگوں کی قوت برداشت جواب دے جائے گی جس کے نتائج سنگین نکلیں گے ، میں اس بات کا حامی ہوں کہ لوگوں کو اپنی سرگرمیاں محدود کرنی چاہیئں ، لیکن حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ عوام کو محدود کرنے کے لئے مستقل لاک ڈاؤن کرنے کے بجائے دن 10 بجے سے شام 6 بجے تک لوگوں کو کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دے ، البتہ اس میں احتیاطی تدابیر کی ہدایت بھی دی جائیں ، جیسے ماسک وغیرہ لگا کر بازار میں آنا شرط ہوجائے ، صرف خریدار کو بازار میں آنے کی اجازت ہو ، بچوں کا داخلہ منع ہو ، بازار میں ہاتھ ملانے کی اجازت نہ ہو وغیرہ وغیرہ ، اس کے ساتھ ایک اور بھی حقیقت ہے جسے ہم نظرانداز کر رہے ہیں اور وہ حقیقت یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں ، چین نے جو کیا ، امریکا جو کر رہا ہے ، یا اٹلی میں جو ہوا ہمیں ان پر بھی نظر رکھنی چاہیئے لیکن ایسے حالات میں ہمارے دین کی کیا تعلیمات ہیں اس پر بھی نظر رہے ، ہمارے پاس دعا ایک ایسا ہتھیار ہے جو لکھے ہوئے مقدر کو بھی بدل سکتا ہے ، اس لئے لوگوں کو یہ ترغیب بھی دی جائے کہ ہم مسلمان ہیں ہم اللہ کے ماننے والے ہیں دنیاوی اسباب کے ساتھ ہمارا رب کریم کی ذات پر اصل یقین ہوتا ہے ، کرونا کی آڑ میں کچھ لوگ نماز جمعہ اور باجماعت نماز پر بھی پابندی لگانا چاہتے ہیں ، جیسا کہ سعودی عرب میں اعلان کر دیا گیا ہے لیکن یہ مناسب نہیں ہوگا ، ہمیں نمازوں پر پابندی کا سوچنا بھی نہیں چاہیئے ، کرونا کی وبا بہرحال ایک قدرتی آفت ہے جسے قدرت والا ہی ٹال سکتا ہے ، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے بھی گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہی کہا کہ احتیاط بھی اور علاج بھی دونوں پر عمل کریں لیکن خوف اور وہم میں نہ پڑیں ، وہم دنیا کا سب سے بڑا مرض ہے ، اپنے لوگوں کو اس مرض سے بچائیں ، اپنے لوگوں میں اعتماد پیدا کریں ۔

خدانخواستہ اگر وائرس ایسے پھیلتا جیسے دوسرے ممالک میں پھیل رہا ہے تو ہمارے پاس لاک ڈائون کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔ لیکن اس کے نتیجے میں کئی اموات ہوجاتیں۔ یہ صحیح وقت تھا کیوں کہ معاملات ابھی بھی قابو میں ہیں لیکن ہم ابھی بھی ایران اور کچھ دوسرے ممالک سے سیکڑوں افراد کے آنے کی توقع کررہے ہیں، اگر ان حالات میں بھی کسی حکومتی فرد کی نظریں امدادی مال پر ہیں تو یقیناً وہ شخص ملک وملت کا محسن نہیں ہے۔

حالانکہ امکان یہ ہے کہ اگر ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو ʼوائرسʼ تیز رفتاری سے پھیل سکتا ہے۔بڑے پیمانے پر لوگ اب بھی مناسب احتیاطی اقدامات نہیں اٹھا رہے ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان نے سچ کہا ہے کہ لاک ڈوان جیسی صورتحال کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہوسکتا ، اس لئے اس کا کوئی بہترحل نکالنا چاہیئے ، باقی میرا تو یہی پیغام ہے کہ ساری کائنات رب کریم کی قدرت میں ہے ، کرونا واقعی ایک وبا ہے ، لیکن ہمت سے ، طاقت سے اور ایمان کی قوت سے اس کا مقابلہ کریں گے، یقین جان لیں رب کریم ہمیں سرخرو کریں گے ان شاءاللہ...!

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Nafees Danish
About the Author: Muhammad Nafees Danish Read More Articles by Muhammad Nafees Danish: 43 Articles with 28135 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.