بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ محمد و آل محمد پر بے پناہ درود
و سلام
وہ شخص جو اپنے مذہب کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے، اسے محض آباء واجداد کے
تقلیدی ایمان پر مطمئن نہیں رہنا چاہیے۔ اس کے ایمان کا یہ تقاضا ہونا
چاہیے کہ وہ اپنے عقائد کی جانچ پڑتال استدلال و دلیلوں,، تجربات، مشاہدات
و مطالعات کی بنیادوں پر کرے اور ان کے حق میں ایسے ہی دلائل مہیا کرے کہ
وہ لوگ جو ایمان سے سرفراز نہیں اور جو صرف عقل کو معیارِ حق و باطل جانتے
ہیں، انہیں سمجھ کر ان عقائد کو حق سمجھنے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ ایک غیر
فطری امر ہے کہ لوگ ایسے عقائد پر ایمان لائیں جن کو وہ سمجھ نہ سکیں اور
جو اُن کی عقلِ سلیم کے معیار کے مطابق نہ ہو۔ عقائد و شریعت کے معاملے میں
کسی قسم کا جبر وزبردستی کرنا ایک انتہائی ظلم ہے، حق و صداقت تک پہنچنے
کیلئے شک کرنا ایک ضروری اور ناگزیر مرحلہ ہے اس منزل سےگزرے بغیر ایمان کی
روشنی حاصل ہونا محال ہے خصوصا اس صورتحال میں جب منزل ایک اور طریقے جدا
ہوں یا پھر ان میں تاریخی عرصے میں مفادات کے تحت خود ساختہ دینداری داخل
کرنے کا بھی شائبہ ہو، یہ سب عقل ہی کی مدد سے تحقیق و تجربے سے سمجھی اور
سمجھائی جاسکتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اسلاف کی جن کتابوں کو ہم نے مستند تسلیم کیا ہے ان میں
عقائد اور سماجی و عائلی زندگی کے کافی اہم معاملات میں کافی اختلافات پائے
جاتے ہیں۔ اب چونکہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے اور خدا کی طرف سے فیصلہ
کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس موجود نہیں اور تحریفات کی خبریں بھی موجود
ہیں اس لئے لازمی طور پر ہمارے سامنے یہی طریق کار ہے کہ ہم اپنی فطری عقل
و دانش سے ان کا مطالعہ کریں، تجربی ومشاہداتی حقائق کی روشنی میں ان پر
تنقید کریں اور ان کے تضادات اور اختلافات کو رفع کرنے کی کوشش کریں۔اس چیز
کے احساس سے منطقی طور پر قوانین کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی ترغیب ملتی
ہے کیوں کہ اختلافات کو رفع کرنے اور سب کو یا اکثریت کو کسی ایک موقف پر
متفق کرنے کیلئے منطقی دلائل سے بہتر اور کوئی ذریعہ ممکن نہیں ہے۔ متنوع
نظریات/خیالات و اعتقادات میں یہ حقیقت عیاں ہے کہ اسلاف کی سند یا قرآن و
حدیث، بائبل، توریت، زبور یا گیتا وغیرہ کا حوالہ کسی دعوے کے ثبوت میں پیش
کرنا بے معنیٰ ہے کیوں کہ غیروں کیلئے یہ چیزیں مستند نہیں ہیں اور قابل
قبول نہیں ہوسکتی ہیں، اسلئے لازمی طور پر اپنے عقائد کے دفاع میں عقلی
استدلال و دلیلوں کا سہارا لینا پڑےگا کیوں کہ یہی ایک چیز ہے جو سب
انسانوں کے نزدیک قابل احترام اور قابل وثوق و قبول ہے۔ اگر ایمان اور
عقائد کو استدلال سے صحیح ثابت کیا جاسکتا ہے تو پھر کسی اور دلیل کی ضرورت
باقی نہیں رہتی۔اساسی اور اہم عقائد و شرعی قوانین کو استدلال سےاس طرح
ثابت کیا جائے کہ انہی دلائل سے وحی اور غیب پر ایمان کی ضرورت کا بھی
احساس پیدا ہو یا انسانی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے کسی روحانی شخصیت کو ماننا
اور اطاعت کرنا ضروری سمجھا جائے اسی طرح مختلف مذاہب کے آسمانی صحیفوں کے
متعلق فیصلہ کرنا کہ کون سا واقعی صحیح طور پر الہامی ہے، عقل ہی کے ذریعے
ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الٰہیات کے اہم ترین موضوع،
مثلاًاثبات باری تعالیٰ، روح کی ماہیت، فرشتے، غیب و شہود، اخلاق و کردار
یا شخصی باطن ،امامت اور قیادت, دعا و توسل، دینی رسوم، اُخروی زندگی،قبور
کی زیارت، جہاد، عالم برزخ وغیرہ بھی عقلی استدلال و تجربات سے ثابت کیے
جاسکتے ہیں۔ اس طریق کار کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ وحی اور ایمانیات کے دائرے
کو واضح طور پر تقدسی مباحث سے الگ کردیا جائے کیوں کہ اگر کسی ایسے معاملے
میں کوئی قاطع عقیدہ پیش کیا جائے جس کے متعلق انسانی عقل غلط ہونے کا
فیصلہ صادر کردے تو پھر مذہب کیلئے ایک سخت دشواری پیش آئے گی کیونکہ ہم
کسی ایسی بات کی تصدیق نہیں کرسکتے جو وحی اور ایمان کے خلاف ہو اور مقدس
ہو۔ اسی وجہ سے اس چیز کی اجازت بھی ہرگز نہیں دی جاسکتی کہ ہم اپنے ہر
عقیدے کو صحیح سمجھنا شروع کردیں اور اسے ایمانیات اور اپنی ثقافت و تہذیب
کا ایک لازمی حصہ قرار دیں جو ہمیں ذاتی طور پر پسند ہو۔ اگر ہم کسی ایسی
بات کو سمجھداروں یا پڑھے لکھوں کے سامنے بطور عقیدہ پیش کریں جو سائنسی
تحقیقات یا سائنٹفک انداز ِ فکر کے خلاف ہو تو ہم اپنے مذہب کی تذلیل کا
باعث بنتے ہیں۔ صحیح راستہ یہ ہے کہ ہم مذاہب کی تحقیق کیلئے وہ طریقہ
اختیار کریں جو عقل و منطق کے عین مطابق ہو اور جس میں مذاہب کا اختلاف کسی
طرح اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ یہ معیار وہ ہے جو عیسائی ، ہندو، یہودی،
اہلسنت، اہل تشیع یا فرقہ در فرقہ وغیرہ سب کیلئے برابر قابل قبول ہے۔اب تک
کی سائنسی تحقیقات خواہ علم طبیعیات میں ہوں یا ما بعد طبیعات جیسے کوانٹم
فزکس، حیوانیات، کیمیا، سماجی سائنسز جیسے نفسیات، عمرانیات ، سیاسیات یا
معاشی علوم، مجموعی طور پر مذہب و دین کی حقانیت کو ہی واضح کرتی ہیں جیسے
انسان اور انسانی سماج کی طبیعی ضروریات کو دین کبھی منع نہیں کرتا بلکہ ان
ضروریات کی تکمیل کیلئے حدود و قیود کا تعین کرتا ہے لہذا جتنا ہمارا انسان
کی فردی اور انسانی معاشرے کی طبیعی ضروریات کے حوالے سے علم بڑھتا جائے گا
تو ہم کبھی بھی ایسے منطقی اور فطری ضرورت کی تکمیل کیلئے کسی خاص تائید
کیلئے تشنہ نہیں رہیں گے۔ لہذا ایسا کارنامہ ہونا چاہیے کہ مذہب و دین
سائنس بن جائے اور سائنس مذہب۔ اس کام کیلئے نہایت دقتِ نظر اور عقلی سلیقے
کی ضرورت ہے۔ |