ملک میں تعلیمی تباہی کا رونا تو
ہر کوئی رو رہا ہے پر تباہی کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کر رہا۔ عوام سے
حکمرانوں تک کوئی نہیں چاہتا ہے کہ تعلیمی تباہی کا ملبہ ان کے اوپر ڈالا
جائے ۔ عوام تعلیم کی تباہی کا ذمہ دار حکمرانوں کو قرار دے رہے ہیں جبکہ
حکمران اپنے سنیئرز یعنی گئے گزرے حکمرانوں کو یہ اعزاز دینے پر بضد ہیں ۔لیکن
حقیقت میں تعلیم کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں جتنا کردار سابقہ و
موجودہ حکمرانوں کا ہے اتنا بلکہ اس سے زیادہ عوام کا بھی۔ مانا کہ
حکمرانوں نے تعلیم کے شعبے کو یکسر نظر انداز کر کے تعلیمی تباہی کو دعوت
دی لیکن اگر بغور دیکھا اور سوچا جائے تو اس تباہی کو عملی جامہ تو ہم نے
خود پہنایا ۔ آج اگر تعلیم غریب کی دسترس سے باہر ہے تو یہ ہمارے اعمال و
افعال اور کردار ہی کا نتیجہ تو ہے ۔حکمرانوں نے غریب عوام کے بچے و بچیوں
کی تعلیم کیلئے شہروں کے ساتھ دور دراز علاقوں میں بھی سکول تعمیر کروائے ۔
ان سکولوں میں ہمارے اپنے ہی ٹیچرز تعینات ہوئے ۔لیکن ہمارے ان ہی ٹیچروں
کی کام چوری کی بدولت نہ صرف سرکاری تعلیمی ادارے تباہ ہوئے بلکہ پرائیویٹ
تعلیمی اداروں کو سر اٹھانے کا موقع بھی ملا۔ آج ہم حکمرانوں کو تعلیمی
تباہی کا ذمہ دار تو قرار دے رہے ہیں مگر یہ بھول رہے ہیں کہ اس تباہی میں
ہمارا بھی کوئی ہاتھ ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تعلیمی تباہی میں حکمرانوں
کا کوئی ہاتھ یا کردار نہیں ۔ اصل ہاتھ اور کردار تو حکمرانوں کا ہی ہے کہ
جنہوں نے تعلیم یافتہ پاکستان کو اس قوم اور ملک کا مقدر نہیں بننے دیا ۔
63سال کا عرصہ کوئی کم نہیں ۔ہمارے بعد جو ممالک اور قومیں آزاد ہوئیں و ہ
آج تعلیم کے میدان میں ہم سے بہت آگے ہیں اس کی اہم وجہ انہوں نے تعلیم کے
ساتھ ہمارا جیسا سلوک نہیں کیا بلکہ انہوں نے تعلیم کو سینے سے لگایا ۔مگر
ہم نے تعلیم کے ساتھ کیا کیا۔۔۔؟اس بارے میں تو سوچتے ہوئے بھی آنکھوں سے
آنسو گرنے لگتے ہیں ہمارے حکمرانوں کے پاس عیش و عشرت۔۔ بیرون ممالک کے
دوروں اور اپنوں کو نوازنے کے لئے فنڈز کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن افسوس کہ جب
تعلیمی شعبے کا نام آتا ہے تو پھر یہی حکمران فنڈز نہ ہونے کا رونا شروع کر
دیتے ہیں۔ در حقیقت ہم نے تعلیم کو اپنانے اور سینے سے لگانے کی بجائے
غیروں کی جھولی میں ڈال دیا ہے ۔ صرف اس لئے تا کہ وہ اس کیلئے کچھ فنڈز
منظور کرے۔ اب خود سوچئے کہ جس شعبے کے لئے ہمارے پاس فنڈز نہیں اور جس کو
ہم نے بھیک یعنی دوسروں کے فنڈز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ہم اس شعبے
میں کیسے ترقی کر سکتے ہیں یا انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔۔۔۔؟ بجٹ میں تعلیمی
شعبے کو نظر انداز کر کے تعلیمی تباہی کا آغاز تو حکمرانوں نے کیا لیکن
سرکاری تعلیمی اداروں کا حشر نشر کر کے اس تباہی میں ہم بھی کسی طرح پیچھے
نہیں رہے ۔قیامت خیز زلزلے میں تو اکثر سکول تباہ ہوئے لیکن زلزلے سے پہلے
دور دراز علاقوں میں کئی سکول ایسے بھی تھے کہ جن کے بننے کے کئی سال بعد
بھی ان میں کلاسیں شروع نہیں ہو ئی تھیں اور وہ سکول بھوت بنگلوں کا منظر
پیش کر کے ہماری غفلت ۔۔لاپرواہی اور نااہلی کا رونا رو رہے تھے۔ مگر افسوس
ہم تماشا ہی دیکھتے رہے۔ جس ملک میں تعلیمی اداروں کی یہ حالت ہو وہ ملک
تعلیمی میدان میں کیسے ترقی کرے گا۔۔؟ کیا تعلیم کے نام پر ادارے قائم کر
کے پھر ہمیشہ کیلئے ان کو تالے لگانے سے فروغ تعلیم کا خواب پورا ہونا ممکن
ہے ۔۔؟یا معصوم اور پھول جیسے بچوں کو کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر
مجبور کر کے تعلیمی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے ۔۔۔؟اگر نہیں توپھر ہم
ایساکیوں کر رہے ہیں۔ اس بد قسمت ملک میں آج بھی کئی علاقے ایسے ہیں کہ
جہاں تعلیمی اداروں کا نام و نشان تک نہیں ۔زلزلے کے دوران جو تعلیمی ادارے
تباہ ہوئے تھے وہ بھی آج تک تعمیر نہ ہو سکے ۔ اس وقت ملک کے اندر ہزاروں
بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں مگر کسی کو ان کا احساس
نہیں ۔ عوام کو تعلیمی سہولیات کی فراہمی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے مگر لگتا
ہے کہ اس ذمہ داری کا اطلاق پاکستانی حکمرانوں پر نہیں ہوتا ۔یہی وجہ ہے کہ
ملک میں تعلیم کا حصول غریب عوام کیلئے مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔فروغ تعلیم
میں پرائیویٹ سیکٹر کا یقیناً بہت اہم کردار ہے جس سے کسی بھی طور پر انکار
ممکن نہیں لیکن پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ذریعے ہر کسی کیلئے تعلیم کا
حصول ممکن نہیں کیونکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھاری فیسیں جمع کرانا
غریب عوام کے بس سے باہر ہے اور اسی وجہ سے غریبوں کے اکثر بچے تعلیم کا
شوق رکھنے کے باوجود تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں ۔ یہ اٹل حقیقت ہے
کہ جب تک غریب کے بچے زیور تعلیم سے آراستہ نہیں ہوں گے اس وقت تک تعلیمی
ترقی اور انقلاب کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا اس لئے غریب بچوں کو زیور
تعلیم سے روشناس کرانے کے لئے طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ نا گزیر ہے۔ فنڈز
و سرکاری تعلیمی اداروں کی کمی اپنی جگہ لیکن طبقاتی نظام تعلیم فروغ تعلیم
میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ امیروں کے بچے انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل کریں
اور غریب کے بچوں کیلئے اردو میڈیم کے دروازے بھی بند ہوں تو ایسے میں
تعلیمی انقلاب کیسے برپا ہوگا۔۔؟ دینی مدارس نے اگر محدود وسائل کے باوجود
تعلیمی انقلاب برپا کیا ہے تو اس کی اہم وجہ طبقاتی نظام کا خاتمہ ہے۔ امیر
ہو یا غریب سب کے بچے دینی مدارس میں ایک چھت کے سائے تلے بیٹھ کر تعلیم
حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے ارباب اختیار اگر عصری تعلیم میدان میں انقلاب برپا
کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ان کو طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کر کے ،،تعلیم
سب کیلئے ،،کا نعرہ بلند کر کے آگے پڑھنا چاہےے کیونکہ جب تک غریب کے بچوں
کیلئے تعلیم کے بند دروازے کھولے نہیں جاتے اس وقت تک تعلیمی میدان میں
ترقی اور انقلاب کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ غریبوں کے بچوں کو زیور تعلیم
سے آراستہ اور ان کے ذریعے ملک کے اندر تعلیمی انقلاب لانے کے لئے کراچی سے
گلگت ۔۔ پشاور سے مکران مطلب شما ل سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پورے ملک
میں یکساں نصاب و نظام تعلیم نافذ کرنا ہوگا کیونکہ جب امیر اور غریب سب کے
بچے ایک نظام اور نصاب کے تحت تعلیم حاصل کریں گے تو پھر تعلیمی انقلاب
برپا اور پڑھا لکھا پاکستان بننے میں زیادہ دیر ہر گز نہیں لگے گی اس لئے
ملک کے غریب ، نادار، یتیم اور بے سہارا بچوں کو مفت تعلیمی سہولیات فراہم
کر کے اس انقلاب کا آغاز کر نا چاہیے تا کہ حقیقی معنوں میں ملک کے اندر
تعلیمی انقلاب کی راہ ہموار ہو سکے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |