انتظار

اچھا اماں اب اجازت دیں، میری فلائٹ کا وقت ہوگیا ہے"، اذلان نے اپنی ماں سے ایرپورٹ کے ڈیپارچر لاؤنج میں گلے ملتے......

اچھا اماں اب اجازت دیں، میری فلائٹ کا وقت ہوگیا ہے"، اذلان نے اپنی ماں سے ایرپورٹ کے ڈیپارچر لاؤنج میں گلے ملتے ہوئے کہا۔

"بیٹا! وہاں پہنچتے ہی مجھے اپنی خیریت کی اطلاع کر دینا، میری تو سارا وقت سانس اٹکی رہے گی تمھاری فکر میں"، انہوں نے گلوگیر لہجے میں کہتے ہوئے اس کا آخری بوسا لیا۔

"جی، جی آپ فکر نہ کریں وہاں پہنچتے ہی سب سے پہلا کام یہی کروں گا اماں"، ماں کو بازوں کے گھیرے میں لیتے ہوئے اس نے یقین دہانی کرائی۔

"میرے چندا خدا کے حوالے، میرا انتظار تو ابھی سے شروع ہوگیا، نہ جانے اب کب تمھاری صورت دیکھنا نصیب ہو"، وہ کچھ اور آبدیدہ ہو گیئں تھیں۔

"ارے! اماں کیسی باتیں کرتی ہیں، یہ موبائل ہے نہ آپ کے پاس جب دل چاہے اس کے ذریعے کال ملا کر آپ مجھے دیکھ سکتی ہیں، مجھ سے بات کر سکتی ہیں"، اذلان نے انہیں بچوں کی طرح سمجھایا۔

یہ کہ کر وہ اپنی ماں کی دعاؤں کے سائے میں میں رخصت ہو گیا تھا، ایک انجان ملک کے انجان شہر میں اپنی قسمت آزمانے کو۔ اور یہ اس کی ماں کی دعائیں ہی تھیں پر ساتھ میں اس کی محنت اور لگن کہ اس مقابلے بھری دنیا میں وہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتا گیا، کرتا گیا لیکن اس کی ماں کا انتظار بڑھتا گیا، بڑھتا گیا۔

☆☆☆

"اب تو کب آئے گا اذلان بیٹے! پانچ سال ہونے کو آئے ہیں اب تو تیری شادی کی عمر بھی نکلے جا رہی ہے، دیکھ بہت پیسا کما لیا تم نے اب تو کیسی چیز کی کمی نہیں رہی ہمارے پاس، تمھارے باپ کی بیماری کے علاج پر خرچ ہوئے پیسوں کا قرض بھی اتر گیا ہے، اب آجا تیرے بیاہ کی بہت چاہ ہے مجھے، چاند سی دلہن لے کر آؤں گی تمھاری"، اماں نے موبائل اسکرین سے نظر آتے اپنے بیٹے سے بڑی آس سے کہا تھا۔

"آپ اس کی پرواہ نہ کریں اماں، دراصل آج میں نے اسی سلسلے میں آپ کو فون کیا ہے بات یہ ہے کہ میں نے یہاں پر شادی کرلی ہے بس دو دن ہی ہوئے ہیں ہماری شادی کو"، اس نے تھوڑا ٹھر کر اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا اور اپنی ماں کے چہرے سے جھلکتے شاک اور ملال کو یکسر نظر انداز کردیا۔

"اس سے ملیے یہ 'روز' ہے، 'مائی ڈیر وائف' اور آپ کی بہو!"، اذلان نے ایک انگریز لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو اس کے برابر میں آکر بیٹھ گئی تھی اور اماں کو ہاتھ جوڑ کر سلام کر رہی تھی۔

ان کے چہرے پر تو سارے جہاں کا دکھ سمٹ آیا تھا، کتنا ارمان تھا ان کو اپنی بہو اپنی پسند اور اپنی چاہ سے لے کر آنے کا ایک ہی تو لاڈوں پلا بیٹا تھا ان کا۔ اور اب ان کے لخطے جگر نے ان کی اس خواہش کو بھی تمام کیا۔ اذلان نے ماں کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھے تو آہستہ سے گویا ہوا؛

"اماں میرے اس عمل کو سمجھیں، اس ملک میں مزید سیٹل ہونے کے لیے یہ ضروری تھا اور روز میری پسند بھی ہے، آپ کو تو میری خوشی میں خوش ہونا چاہیے الٹا آپ تو اداس لگ رہی ہیں مجھے۔"

"ارے نہیں بیٹا ایسا تو کچھ نہیں بس اگر تم پہلے بتا دیتے تو..."، انہوں نے دانستا اپنی بات کو ادھورا چھوڑا، خیر یہ بتاؤ کے کب ملوانے لے کر آو گے؟

"ابھی تو اس کو اور مجھے اپنی نوکری سے چھٹی ملنا مشکل ہے، پر میں کوشش ضرور کروں گا جلد آنے کی۔"

"اچھا میں اب فون رکھتی ہوں نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے، اپنا خیال رکھنا اللہ کی امان میں۔"

یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ انہوں نے ازخود کال منقطع کر دی تھی ورنہ تو ان کا دل ہی نہیں بھرتا تھا اس کو دیکھ دیکھ کر۔ اور یہ تو ان کا پہلا انتظار تھا جو اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ اس کے بعد تو لاتعداد انتظار تھے جو ایک ایک کر کہ ختم ہونے لگے تھے۔

ایک لڑکا شہر کی رونق میں سب کچھ بھول جائے

ایک بڑھیا روز چوکھٹ پر دیا روشن کرے

اس کے ہاں پہلا بچہ ہوا۔ بیٹا کب آرہے ہو؟ ، اماں ابھی تو معیز بہت چھوٹا ہے ابھی تو آنا مشکل ہے۔ اماں اب تو معیز کا اسکول شروع ہو گیا ہے ابھی تو نہیں آسکتا پر میں کوشش کر رہا ہو کہ وقت نکال کر آجاوں۔ اماں اب تو سارہ کی زمہ داری بھی ہے دفتر سے آنے کے بعد تو گھر سے کہیں باہر جانے کا وقت نہیں ملتا کجا کہ یہاں سب چھوڑ چھاڑ کر آئیں پلیز آپ میری مجبوری کو سمجھیں۔

"اماں ابھی مصروف ہوں تھوڑا، آپ سے کچھ دیر بعد بات کرتا ہوں۔"

"اماں آپ بھی نہ بے وقت فون مت کرا کیجیے، ابھی تو فلحال آپ سے بات نہیں کر سکتا۔"

☆☆☆

"آپ کو اپنا کوئی پیغام دینا ہے تو برائے مہربانی اپنا پیغام ریکارڈ کرا دیجئے، مطلوبہ نمبر جیسے ہی بحال ہوگا آپ کا پیغام پہنچ جائے گا۔"

"بیٹا اذلان میں تمھاری خالہ بات کر رہی ہوں، بیٹا آپا کی طبیعت ٹھیک نہیں وہ ایک ہفتے سے ہسپتال میں داخل ہیں، بیٹا جیسے بھی ہو سکے تم فورا آجاو اس وقت ان کو تمھاری بہت ضرورت ہے، وہ منہ سے کچھ نہیں کہتی پر سب کو پتہ ہے وہ شدت سے تمہارا انتظار کر رہی ہیں، تمھاری راہ دیکھ رہی ہیں، بیٹا جلد از جلد یہاں آنے کا بندوبست کرلو، تمھارے جواب کا انتظار رہے گا۔"

اور...

ان کو انتظار ہی رہا جواب کا۔

بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک بھر پور دن گزار کر جب وہ گھر پہنچا تو وہاں ایک نہیں دو پیغام تھے۔ دوسرا پیغام بھی اس کو واپس بلانے کے لیے ہی کیا گیا تھا پر اپنی ماں کا آخری دیدار کرنے کے لیے ۔

عرصے بعد وہ ان کے سامنے آیا بھی تو ایسے کہ اب اس کو انتظار رہے گا ان کے جواب کا، جو نہ سن سکتی ہیں نہ بول، یہ انتظار اس نے شروع کرایا تھا اور اب اس کو خود بھی سہنا پڑے گا، اس کی نسلوں تک چلے گا، سب کو اس پہیے کا چکر کاٹنا ہو گا۔
 

Zubia Majid
About the Author: Zubia Majid Read More Articles by Zubia Majid: 4 Articles with 5574 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.