ابا کوئی ڈھنگ کا کام کیوں نہیں کرتے ۔ ٹوٹے جوتے لے کر
سارا دن سلائی کرتے رہتے ہو اور دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے ۔ یہ
آواز اسد کی تھی جو اپنے باپ یعقوب کے کام سے ہمیشہ ناخوش رہتا ۔ ناں بیٹا
! ایسا نہیں کہتے ٹوٹی چیزوں کو جوڑنے میں تو سکون ہے رب بھی تو یہی مانگتا
ہے کہ ٹوٹے دل جوڑو ، ٹوٹے رشتے جوڑو ، خالق سے ٹوٹا رشتہ جوڑو اور اپنے
وجود کا روح سے ٹوٹا رشتہ جوڑو ۔ ابا یہ کیا اتنی مشکل باتیں شروع کر دیتے
ہو ۔ سکول تو تم ایک دن نہیں گئے اور باتیں پروفیسروں والی کرتے ہو ۔ اسد
ہر بار کی طرح ابا کی باتیں سمجھ نہ پاتا اور بول کر چلا جاتا ۔ اور ابا جو
اپنے رازق کے دئیے رزق پر راضی تھا بیٹے کی باتیں سن کر ہنس پڑھتا ۔ جھلا
ہے ، کم عقل ہے ، وقت آنے پر سمجھ جائے گا ۔ یعقوب کا باپ بھی جوتے سلائی
کرتا تھا اس نے بھی باپ سے یہی کام سیکھا اور پھر کوئی اور کام کرنے کی طرف
کبھی خیال ہی نہیں گیا ۔ سارا دن گلی کے کونے پر ایک بوری پر بیٹھتا اور
تھیلے میں سے سامان نکالتا اور اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا کہ ایک اور
دن کام کرنے کی توفیق بخشی ۔ رب کا شکر ادا کرتا کہ ہاتھ پاؤں سلامت ہیں
اور کام میں جُت جاتا ۔ اس کے پاس جو بھی آتا یہی شکایت کرتا کہ مہنگائی
بہت ہے گزارا نہیں ہوتا ۔ اور وہ ہنس پڑتا کہ پہلے جو جوتے سالہاسال چلتے
تھے اور سب کی خواہشات محدود ہوتی تھیں تو تب بھی اس پر اللّٰہ تعالیٰ کا
خاص کرم تھا اور اب وہ دیکھتا تھا کہ اس کے پاس جوتوں کی تعداد روز بڑھ
جاتی تھی جوتوں کی ناپائیداری اور جوتوں کی بے تحاشہ خریداری اس کی آمدنی
میں اضافے کی وجہ تھے ۔ لوگ اس کے پاس آتے جوتے مرمت کرواتے اور چلے جاتے ۔
امیر غریب ، پیدل گاڑیوں والے آتے اور اس سے کام کرواتے ۔ اسد نے ایک دن
پوچھا ، ابا ! تمہارے پاس گاڑیوں والے آتے ہیں جوتے پالش کرواتے ہیں تو آپ
کا دل کبھی نہیں چاہا کہ آپ کے پاس بھی کبھی اتنا پیسہ ہوتا آپ بھی گاڑی
میں بیٹھیں ۔ نہیں بیٹا ، میں اسی پر خوش ہوں جو اللّٰہ تعالیٰ نے میرے
نصیب میں لکھا ہے اللّٰہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر ایک کے ذمے ایک کام لگایا
ہے اگر ہر کوئی اپنے کام پر راضی رہے اور سوچے کہ مجھے اسی کام کے لیے چُن
لیا گیا ہے تو پھر اپنے کام سے سکون ہی ملتا ہے ۔ مگر اسد کبھی بھی اس کی
منطق سے راضی نہیں ہوا ۔ ابا میں تو یہ کام نہیں کروں گا ۔ کچھ اور کروں گا
۔ اور ابا کہتا ہاں تو تم سکول جاؤ ، پڑھائی کرو ، اپنی مرضی کا کام کرو
مگر جو بھی کام کرو اس کام سے خود کو لوگوں سے جوڑنے کا کام کرنا ۔ اور اسد
جو اب سرکاری سکول میں میٹرک کا طالب علم تھا ۔ آنکھوں میں بڑے بڑے خواب
سجائے سر جھٹک کر پڑھنے لگ جاتا اور اس کا باپ یعقوب موچی یہی دعا کرتا کہ
یا اللّٰہ پاک ، اس کے سارے خواب پورے کرنا مگر اس کو دلوں کو جوڑنے کی
صلاحیت دینا ۔ اس کو اپنی ذات سے جوڑ کر رکھنا ۔ آمین کہتا ہوا رب کا شکر
ادا کرتا کہ اس کام کے ذریعے جوڑنے کا نقطہ سمجھا دیا ۔
|