پاکستا ن ایک غریب ملک ہے۔ اس کا بچہ بچہ ایک لاکھ سے
زیادہ کا مقروض ہے۔ معیشت قرضو ں کے سہارے پر چل رہی ہے۔ ورلڈ بنک آئی ۔ایم
۔ایف اور ایشیائی بنک پاکستان میں کئی منصوبوں کو چلا رہے ہیں ۔ زیادہ تر
دارومدار زراعت پر ہے۔ گندم چاول میں خود کفالت کے باوجود کئی مرتبہ خوردنی
اور دیگر اخباس باہر سے منگوانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں صنعتکار
ٹیکس کے لین دین کی وجہ سے صنعتوں کو بند کر کے بیٹھا ہوا ہے۔ حکومتِ وقت
کیساتھ معاملات راہِ راست پر نہ آنے کی وجہ سے کافی مجبور ہوچکا ہے۔ اسی
وجہ سے صنعتوں کا پہیہ جام ہو چکا ہے۔ اب یہاں مزدور بے چارہ چکی میں پس
رہا ہے۔ اوپر سے کرونا کے حملے نے فیکٹریوں پر بھی لاک ڈاؤن کر دیا ہے۔
مالک کرونا کے خطرے کی وجہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔ حکومت اور صنعت کاروں
میں پہلے ہی بگاڑ کی فضا چل رہی تھی۔ کئی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور کئی
فیکٹریوں میں مزدوروں کو شارٹ لسٹ کر دیا گیا ہے۔ دکانیں بند، بازار بند
،ٹریفک بند ، کارخانے بند، ریڑھی بان بند ،یوں کہیے کہ کاروبار ِ زندگی بند
ہو چکا ہے۔ حکومت اپنی بساط کے مطابق معاملات کا حل نکال رہی ہے لیکن بے
روزگاری کے اتنے بڑے سیلاب کو روکنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کرونا سے پہلے
بھی بیروزگاری کا ہر طرف چرچا تھا مگر اب تو چار سُو ڈنکا بھی بجنے لگا ہے۔
مزدور سے مزدوری چھن جائے تو صرف اﷲ نبی وارث ہی کہا جا سکتا ہے۔ سڑکوں پر
کھڑا مزدور بچوں کیلئے روٹی کی تلاش کر رہا ہے اور پولیس سے ڈنڈے اور تھپڑ
کھا رہا ہے طرح طرح کی باتیں سن رہا ہے صرف پیچھے نظر دوڑا کر دیکھتا ہے تو
گھر میں بھوک اور افلاس رقص کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کیا یہ مزدور عقل و فہم
سے خالی ہے ؟ کیا اس کی کوئی عزت نہیں ہے۔۔۔؟ ارے نہیں ! مجبور ہو کر ایسا
کر رہا ہے اگر نہ کرے تو پھر کیا کرے۔
اوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے
عشق کے د ردمند کا طرزِ کلام اور ہے
میرا خیال ہے کہ دونوں طرف مجبوریاں ہیں لیکن میٹھے بول میں جادو ہے اور اس
جادو کو سر چڑھ کر بولنا چاہیے ۔ قارئین ِ کرام! ایران اور چائنہ سے کرونا
پہنچ چکا ہے اور پیچھے پیچھے امدادی سامان بھی پہنچ رہا ہے۔ مزدور کا حق
مزدور کو پہنچنا چاہیے۔ مردہ ضمیروں کو اب جاگ جانا چاہیے کیونکہ زیادہ
نیند بھی صحت کو برباد اور خراب کرتی ہے۔ اگر آتی ہے تو برائے نام آتی ہے۔
الکاسب حبیب اﷲ کا لباس پہن کر مزدور کے روپ میں انسانیت تڑپ رہی ہے۔ روٹی
روٹی صدائیں بلند ہو رہی ہے۔ مگر سننے والا کوئی نہیں ۔ ڈنڈے مارنے والے ہر
طرف موجود ہیں ہم تو شرمندہ ہیں اس دور کے انسان ہے کر کیونکہ پاس بھی کچھ
نہیں اور آس بھی کوئی نہیں ، نا امیدی گناہ ہے۔ چلے ہیں تو کٹ ہی جائے گا
یہ سفر آہستہ آہستہ ۔
قارئین ِ کرام ! کرونا نے ہر طرف نفسا نفسی اور افرا تفری کی ایک فضا قائم
کر دی ہے۔ خدا کرے کہ جلد چھٹکارا مل جائے۔ مزدور کی بے بسی اور بے کسی
جتنی ان دنوں عروج پر ہے میں نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔ کیا
مزدور کے بچے ہمارے نبیﷺ کو پیارے نہیں تھے۔ کیا اﷲ عزوجل کو ان سے پیار
نہیں ہے۔اگر ہے توپھر مایوسی کیوں ہے۔ لگتا ہے کہ زمانے کو کسی حضرت عمر
رضی اﷲ عنہ کی تلاش ہے جو رات کے اندھیرے میں گندم اور اشرفیاں مزدور کو
پہنچائے۔
بچہ کوئی کھلونا مجھ سے مانگ نہ لے
میں اسی لیئے دیر سے گھر جاتا ہوں
بڑی بڑی سیاسی شخصیات چپ سادھ کر بیٹھی ہوئی نہ جانے کیوں۔۔۔؟ سندھ حکومت
کے اعلانات حوصلہ افزا ہیں ۔جداکرے کہ اعلانات کے مطابق سب کچھ درست ہو۔
یونیسف کے سربراہ کے اعلان کے مطابق دنیا کی چالیس فیصد آبادی معیاری
جراثیم کش صابن، ماسک اور سینیٹائزر خریدنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ان میں
پاکستانی آبادی بھی شامل ہے۔ تو پھر ایسے حالات میں صرف اعلانات تک محدود
نہیں رہنا چاہیے ۔ وفاقی اور دیگر حکومتوں پر ایسے حالات میں بہت بڑی ذمہ
داری آن پڑی ہے۔ ہوش کے ناخن لینے ہونگے۔نامور کھلاڑی ، فنکار سیاسی شخصیات
بھی اسکی لپیٹ میں ہیں لیکن ان کے پاس مکمل بچاؤ کے انتظامات موجود ہیں ۔
اﷲ پاک سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ فیکٹریوں ، کارخانوں اور چھوٹی صنعتوں
کے مزدور کا خیال رکھنا بھی حکومت اور مالکان کی نہایت اہم ذمہ داری ہے۔
روزانہ کے محنتی مزدور کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ان کے پاس
مہینوں کا راشن موجود نہیں ہوتاہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ کرونا سے تو
بچ جائیں لیکن بھوک اور سسکیوں سے قبروں تک پہنچ جائیں۔ مجھے گمان ہے کہ یہ
لوگ زیادہ دیر تک خود کو تنہائی میں نہیں رکھ سکیں گے کیونکہ ان کے چولہے
ٹھنڈے ہوتے ہوئے ان کی بے یقینی اور بے چینی کا باعث بنیں گے۔ ایک محتاط
اندازے کے مطابق پاکستان میں چھ کروڑ لوگوں کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
حفاظتی طریقے اپنا کر کمی ضرور ممکن ہے۔
مخیر حضرات اور مختلف تنظیمیں جو خود کو فلاحی تنظیمیں کہتی ہیں ۔ میدان
عمل میں غریبوں ، مزدوروں اور سفید پوشوں کیلئے کیونکر نکل نہیں رہی ہیں۔
کیا لُٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے۔ محلہ اور یونین کونسل کی سطح پر
نہایت صاف اور شفاف طریقے سے خفیہ طور پر امداد کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہر جگہ
غریب اور مزدور طبقہ موجود ہے۔ تشہیر سے غریبوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی
ضرورت نہیں ہے۔ راشن کے ساتھ ساتھ حفاظتی اور جراثیم کش ادویات کی فراہمی
کی بھی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں بے ہنگم راگ الاپنے کی کوئی ضرورت
نہیں ہے۔ عوام سے شدید ردِّ عمل کو سنبھالا نہیں جا سکے گا۔ مسائل بڑھیں گے
اور حالات بگڑیں گے۔ بہر حال آقاﷺ کے 1400سال پہلے کے ارشادات اور لاک ڈاؤن
سے اس موذی وائرس سے لڑا جا سکتا ہے۔ یہ مشکل صورتِ حال انشاء اﷲ بہت جلد
ختم ہو جائے گی۔ مزدوروں اور غریبوں کی عزتِ نفس کو مجروح نہیں ہونا چاہیے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ
ہمیں ہمارے قد سے بھی گرا دیا جائے
ہمیں ہمارا رزق بھی اچھال کر دیا جائے
قارئینِ کرام ! اب وقت آگیا ہے کہ مخیر حضرات آگے آئیں اور ملک کی ڈوبتی
ہوئی ناؤ کو سہارا دیں۔ سب اختلافات بھلا کر تمام سیاسی قائدین اور ورکروں
کو انسانیت کی خدمات کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ قافلے محبت ، پیار اور اُنس
سے آگے بڑھیں گے تو انشاء اﷲ ہر منزل کو حاصل کر لیں گے۔ غریبوں سے دعائیں
اور اﷲ پاک سے جزائیں لینے کا وقت ہے۔ بہر حال ہمیں اپنے گھروں پر زیادہ
وقت گزارنے کی ضرورت ہے۔ نفرتیں ختم کر کے خدمت خلق کے مشن کے ساتھ آگے
بڑھنے کی ضرورت ہے۔ غریبوں کا سہارا بننے کی ضرورت ہے۔ غریبوں کا سہارا
بننے کی ضرورت ہے۔ مذاق کی فضا سے باہر نکل کر سوچیں ۔ احتیاط کریں ،
احتیاط کروائیں ۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندرقطار اب بھی
|