جہاں کرونا وائرس نے آتے ہی پوری دنیا میں تہلکہ مچا کر
رکھ دیا ہے۔ذہین و فطین دماغ بھی حیران ہوگئے کہ آخر اس پھیلتی وبا کی کیسے
روک تھام کی جائے ڈاکٹروں نے اس وائرس سے بچنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر
بھی بتائیں لیکن یہیں سے ہماری جہالت نظر آنے لگی۔
جہاں لوگوں نے اسے مزاق کا نشانہ بنایا وہیں ہر احتیاطی تدابیر کو نظرانداز
کردیا’’ہمیں کچھ نہیں ہو سکتا،ہم مسلمان ہیں‘‘ کہہ کر مصافحہ کرتے رہے اور
یہ وائرس ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا رہاجبکہ مسلمان ہونے کے ناطے ہم
احادیث کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے پیارے رسول ﷺ نے بھی ہمیں احتیاطی
تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
خیر یہ سب تو اپنی جگہ لیکن جیسے ہی پاکستانی حکومت نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ
کیا۔ ویسے ویسے عوام کی جہالت کھل کر سامنے نظر آنے لگی لاک ڈاؤن کو تو
عوام نے جیسے عید کا تہوار تصور کرلیا اور کھلے عام باہر گھومتے نظر آنے
لگے۔ گلی محلوں کے بچوں نے کرکٹ کا سماں باندھ لیا اور ہر جانب ٹولیوں میں
اپنے پسندیدہ کھیل کھیلنیمیں مصروف ہو گئے۔ بچوں کو سمجھانا تو کجا بڑے
بوڑھے بھی گھروں سے باہر اپنی ایک ٹولی بنا کر ملکی حالات اور کرونا وائرس
سے متعلق اپنی اپنی آراء دیتے نظر آئے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں غریب طبقے کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا وہیں
اپنے آپ کو غریب ثابت کرنے والے لوگ بھی اُمڈ اُمڈ کر آنے لگے۔چند لوگوں نے
مسحقین کو راشن پہنچانے کا بیڑہ اُٹھایا اور اپنی طرف سے لوگوں میں راشن
تقسیم کرنے لگے۔ تو لوگ ان پر پل پڑے اور راشن کا زبردستی مطالبہ کرنے لگے۔
یہ سوشل میڈیا پر مشہور ایک ویڈیو میں باآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ غریب
طبقہ ابھی سیلانی ویلفئیر سے پیٹ پوجا کر کے باہر تشریف لایا ہے اور راشن
دینے والے شخص کو گھیرے میں لے کر اس سے راشن کا زبردستی مطالبہ کرنے لگا
اور تو اور کچھ لوگ تو اسے مارتے بھی نظر آسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بدولت
تو جو سفید پوش اور مستحق لوگ ہیں وہ بھی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ اﷲ
ہی محافظ ہو ایسی قوم کا۔ نجانے ہم نے کس ڈگر پر چلنا ہے۔کرونا وائرس تو
ختم ہو جائے گا لیکن اس جہالت کا خاتمہ کیسے ہوگا۔ پاکستان کو بعد میں
کرونا وائرس سے لیکن سب سے پہلے عوام میں نظر آتی اس جہالت کا سامنا کرنا
پڑرہا ہے۔ اس ملک کا اﷲ ہی حامی و ناصر ہو۔ اور ہم سب کو ہدایت نصیب
فرمائے۔آمین
|