اس وقت عالمی سطح پر کووڈ۔19 کی تباہ کاریوں کا سلسلہ
بدستور جاری ہے۔ ایک جانب جہاں دنیا بھر میں متاثرہ مریضوں کی تعداد ساڑھے
آٹھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے وہاں دوسری جانب بدقسمتی سے بیالیس ہزار سے
زائد قیمتی جانیں بھی جا چکی ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بشمول امریکہ ،
برطانیہ،جرمنی ،فرانس،اٹلی ،اسپین وغیرہ نوول کورونا وائرس سے سنگین طور پر
متاثر ہیں۔امریکہ اس وقت دنیا بھر میں متاثرہ مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے
سب سے بڑا ملک ہے جبکہ اٹلی اموات کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔بلاشبہ موجودہ
صورتحال کو دوسری عالمی جنگ کے بعد انسانیت کو درپیش سب سے بڑا مشترکہ
چیلنج قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ کووڈ۔19 کسی ایک ملک ،قوم یا جغرافیائی
سرحد تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ اس کے اثرات دنیا کے سبھی آباد خطوں تک
پہنچ چکے ہیں۔
ایک جانب تو صورتحال کی یہ سنگینی اور دوسری جانب چین میں انسداد وبا کی
موئثر روک تھام و کنٹرول کے بعد معمولات زندگی تیزی سے بحال ہو رہے
ہیں۔ووہان شہر جسے دسمبر کے اواخر میں نوول کورونا وائرس کا مرکز قرار دیا
گیا تھا ، وائرس کے خلاف جنگ جیت چکا ہے اور یہاں کے عوام بے پناہ قربانیاں
پیش کرنے کے بعد اب راحت و مسرت کی تصویر ہیں۔
چین نے ایک قلیل مدت میں عالمگیر وبا کو کیسے شکست دی ؟ یہ وہ سوال ہے جو
اس وقت دنیا بھر میں زیر بحث ہے ۔دنیا جہاں چین کی کامیابیوں کی معترف ہے
وہاں اُس کی دلچسپی کا نقطہ وہ اسباب بھی ہیں جن کی بدولت چین کووڈ۔19 کے
خلاف جنگ میں فتح یاب ہوا۔
حقائق کے تناظر میں چین کی قیادت ،نظام کی برتری ،عوام کی جدوجہد و تعاون ،وسائل
کی دستیابی اور ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال وہ بنیادی اسباب رہے جن کی
بدولت چین نے کورونا وائرس کے خلاف فتح حاصل کی اور اس وقت دنیا بھی چین کے
اس کامیاب ماڈل پر عمل پیرا ہے۔
اس سارے عمل میں سائنس و ٹیکنالوجی اور تحقیق بھی کلیدی عناصر ہیں۔چین نے
ایک سائنٹفک اپروچ کے تحت انسداد وبا کی سرگرمیوں کو آگے بڑھایا اور
سائنسی پیمانہ وبا کے خلاف فتح کا آلہ ثابت ہوا۔چینی صدر شی جن پھنگ نے
بھی سائنس و ٹیکنالوجی کو وبا کے خلاف جاری انسانیت کی جنگ میں سب سے
طاقتور ہتھیار قرار دیا۔
چینی محققین نے انسداد وبا میں وقت کی تیز رفتاری کا مقابلہ کرتے ہوئے
جنوری کے آغاز میں ہی نوول کورونا وائرس کے پیتھوجن کا دنیا کے ساتھ فوری
تبادلہ کیا تاکہ مشترکہ تحقیقی کاوشوں کو فروغ دیا جا سکے۔کورونا وائرس پر
تحقیق کے دوران بائیو سیفٹی کے اصولوں پر بھی عمل درآمد کیا گیا جس کے
باعث وائرس کی تشخیص کے لیے کٹس ، ادویات کی اسکریننگ اور ویکسین کی تیاری
میں نمایاں پیش رفت ہوئی۔کلینکل مشاہدات کی روشنی میں وائرس کے ماخذ سے
متعلق معلومات بھی فوری سامنے آئیں اور یہ دریافت کیا گیا کہ جنگلی حیات
چمگادڑ اور پینگولین ممکنہ طور پر وائرس کے پھیلاو کا سبب ہو سکتے ہیں۔ایک
مریض کے فضلے کے جائزے کے بعد دنیا کو بتایا گیا کہ نوول کورونا وائرس سانس
کے ذریعے یا براہ راست رابطے کے علاوہ نکاسی نظام کے ذرریعے بھی منتقل ہو
سکتا ہے۔ چینی پتھالوجسٹس نے کووڈ۔19 کے باعث جاں بحق ہونے والے گیارہ
مختلف مریضوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹس جاری کیں تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ وائرس
کیسے ایک فرد کے اندرونی اعضاء کو متاثر کرتا ہے ۔اس کے علاوہ تقریباً
گیارہ سو مصدقہ مریضوں کی جانچ کے بعد اس بات کا پتہ بھی لگایا گیا کہ یہ
لازمی نہیں کہ کورونا وائرس سےمتاثرہ مریض میں بخار یا پھر سی ٹی اسکین سے
متعلق کوئی غیرمعمولی علامت سامنے آئے۔چینی ماہرین نے مستند بین الاقوامی
جریدوں میں تحقیقی مقالے بھی شائع کیے تاکہ دیگر عالمی ماہرین کے ساتھ
معلومات اور پیش رفت کا تبادلہ کیا جا سکے۔
اس سارے عرصے کے دوران یہ کوشش کی گئی کہ مریضوں کے بہتر علاج معالجے کی
خاطر موئثر ادویات اور علاج کے نئے طریقہ کار سامنے لائے جا سکیں تاکہ ہلکی
علامات والے مریضوں کو شدید علامات سے بچایا جا سکے اور انسانی جانوں کا
تحفظ کیا جا سکے۔تقریباً ستر ہزار سے زائد ادویات کی سائنسی پیمانے پر جانچ
کے بعد پانچ ہزار ادویات کا انتخاب کیا گیا۔ان ادویات کی عام کورونا وائرس
انفیکشن کے لیےآزمائش کی گئی اور تقریباً ایک سو ادویات کو مزید تجربات کے
لیے منتخب کیا گیا جس کے بعد کلینکل آزمائش کے لیے حتمی موئثر ادویات کا
انتخاب عمل میں آیا۔ چند ادویات مثلاً فویپیراویر ، کلوروکوین فاسفیٹ ،
ٹوکلیزوماب ، ریمڈیسویر اور روایتی چینی ادویات کو مریضوں کے علاج کے لیے
بہترین کارکردگی کا حامل قرار دیا گیا اور ان میں سے چند ادویات چین میں
کلینکل آزمائش پوری بھی کر چکی ہیں۔
چین میں کورونا وائرس سے شدید متاثرہ مریضوں کے لیے جدید طریقہ علاج کو
آگے بڑھایا جا رہا ہے ۔ اس ضمن میں اسٹیم سیل تھراپی اور جگر اور خون کی
مصنوعی صفائی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔اسٹم سیل تھراپی سے چونسٹھ شدید
متاثرہ مریضوں کے علاج میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے جبکہ اُن کے پھیپھڑوں کو
بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
چینی ماہرین نے کووڈ۔19 ویکسین کی تیاری کے لیے جنیٹک انجینئرنگ اور نیو
کلک ایسڈ ویکسین سمیت پانچ مختلف تیکنیکس استعمال کی ہیں۔یہ امید کی جا رہی
ہے کہ پری۔کلینکل تحقیق اپریل میں مکمل کر لی جائے گی۔چین کی اکیڈمی آف
ملٹری سائنسز کے تحت ری کومبیننٹ ویکسین تیار کی جا چکی ہے اور سولہ مارچ
سے اس کی کلینکل آزمائش بھی جاری ہے۔اس سارے تحقیقی عمل کے دوران چینی
ماہرین نے ہمیشہ سائنسی اصولوں کے احترام اور عالمی معیارات کی عمل پیروی
پر زور دیا ہے تاکہ ویکسین کے تحفظ اور معیار کو یقینی بنایا جا سکے۔
نوول کورونا وائرس کی موجودہ سنگین صورتحال نے پاکستان سمیت دنیا بھرکے
ممالک کو واضح پیغام دیا ہے کہ سائنسی تحقیق کی اہمیت ناگزیر ہے ۔انسانیت
کی فلاح و بہبود اور تحفظ کے لیے حکومتی ترجیحات میں سائنس و ٹیکنالوجی کے
فروغ کو اولین فوقیت دی جائے۔جامعات اور تحقیقی اداروں کو وسائل کی فراہمی
سے مزید مضبوط کیا جائے تاکہ اعلیٰ معیاری تحقیقی کاوشیں سامنے آ
سکیں۔یورپی ممالک میں ناقدین کا اعتراض لمحہ فکریہ ہے کہ جب کھلاڑیوں کو
ماہانہ لاکھوں ڈالرز دیے جا سکتے ہیں تو محققیں کو کیوں نہیں ؟
شائد یہی وقت ہے کہ مستقبل کی ترجیحات کے ازسرنو تعین سے پالیسی سازی میں
خامیوں اور نقائص کو دور کرتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی اور تحقیق کے فروغ سے
انسانیت کا تحفظ کیا جائے ۔
|