ہزاروں اورلاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں اوراربوں چلتے پھرتے
انسانوں کو سفیدکپڑے میں لپیٹ کراسی انسان نے اپنے ہاتھوں سے اس مٹی کے
حوالے کئے ۔وہ جن کے ہاتھوں میں یہ انسان پلے بڑے۔ جن کے بغیراس نے کبھی
کھاناکھانابھی گوارہ نہ کیا۔ان پربھی اس انسان نے نہ صرف قبرکے تختے رکھے
بلکہ ایک نہیں ہزارباران حسین وجمیل چہروں پراپنے ہاتھوں سے مٹی بھی
ڈالی۔دادا،دادی ،نانا،نانی،ماں ،باپ ،چچا،چچی اوربہن بھائیوں سمیت نہ جانے
کتنے لوگ ایسے آئے جواس انسان کے سامنے آنکھیں بندکرکے اس مٹی میں مٹی
ہوگئے۔پھرجس رب نے اس انسان کودنیامیں بھیجااس رب نے بھی بھیجنے سے پہلے ہی
اس انسان کوواضح طورپریہ بتایاکہ زندگی 5سوسال کی بھی کیوں نہ ہو۔آخرایک دن
آپ نے واپس پلٹ کرآناہی ہے۔ دنیامیں آتے ہوئے جس طرح انسان کی کوئی مرضی
نہیں اسی طرح دنیاسے جانے میں بھی انسان کی مرضی کاکوئی عمل دخل نہیں
۔انسان راضی ہویاناراض ۔چاہت ہویانہ۔دونوں صورتوں میں انسان نے اپنے رب کے
حکم سے ا سی طرح خالی ہاتھ اس دنیاسے واپس جاناہے جس طرح یہ انسان خالی
ہاتھ اس دنیامیں آیاتھا۔اوراس اچانک اورخالی ہاتھ واپس جانے کااس انسان کے
پاس کوئی خبر،کوئی اطلاع اورکوئی ٹائم ٹیبل بھی نہیں ۔یہ صرف اورصرف اس
عظیم رب کی مرضی ہے کہ وہ کس ٹائم اورکس دن اس انسان کواپنے پاس بلاتاہے۔اس
اٹل حقیقت سے نہ صرف ہم مسلمان خوب واقف ہیں بلکہ ہندو،یہودی اورعیسائیوں
سمیت دنیاجہان کے ہرانسان کوبھی یہ پتہ اورخبرہے کہ اس نے ایک نہ ایک دن
واپس جاناہی ہے لیکن اس کے باوجودہمیں اپنے سروں پرموت کی لٹکتی اس تلوار
کی اتنی فکر نہیں جتنا آج ہمیں کروناکاخوف ہے ۔کروناکسی کومارے یانہ
۔۔؟لیکن موت سے تونہ کوئی پہلے بچاہے اورنہ ہی اب کسی کے پاس اس سے بچنے کی
کوئی امیدیاکوئی راستہ ہے۔وہ جواکڑکرکہتاتھاکہ۔۔ اناربکم الاعلی۔۔ میں سب
سے بڑارب ہوں۔اسی موت نے جب رب کے حکم سے اسے دبوچ لیاتوپھرنہ صرف مغرب سے
مشرق اورشمال سے جنوب تک پوری دنیانے اس کی چیخیں سنیں بلکہ پروردگارعالم
نے اس کے ڈھانچے کوقیامت تک کے انسانوں کے لئے عبرت کاایک مرکز بھی بنادیا
۔کروناکے بارے میں توپھربھی یہ کہاجاتاہے کہ یہ زیادہ تربچوں یابڑے عمرکے
افرادپرزیادہ اٹیک کرتاہے مگرموت کے لئے توبچہ،جوان،مرد،خواتین ،مسلم
غیرمسلم اوربوڑھے سب برابرہے۔موت کافرشتہ جب آتاہے تووہ پھرنہ
چھوٹادیکھتاہے اورنہ ہی بڑا۔اس کے قریب توپھرامیر،غریب،بادشاہ اورفقیرمیں
بھی کوئی تفریق نہیں ۔کروناسے لرزنے اورکانپنے والے آج یہ سمجھ رہے ہیں کہ
اگریہ کروناسے بچ گئے توپھرموت سے بھی یہ بچ جائیں گے مگرایساباالکل بھی
نہیں۔کروناسے بچناضروراوریقینناً ممکن ہے مگرموت سے کنارہ کرناکسی انسان کے
بس کی بات نہیں۔ بڑے بڑے بادشاہ اورشہزادے اس سے نہیں بچے آج کے یہ انسان
پھرکس باغ کی مولی ہیں کہ یہ موت سے بچ جائیں گے۔۔؟جس چیزکی وجہ سے ہمیں
ڈرنا،لرزنااورکانپناچاہیئے تھااس کی توہمیں فکرنہیں لیکن کروناکے ہاتھوں آج
ہم سب کھیلونابن گئے ہیں ۔کروناکے خوف اوردہشت کی وجہ سے آج ملکوں کے
ملک،شہروں کے شہر،بازاروں کے بازار،گاؤں کے گاؤں اورگلی محلوں سے لیکرگھروں
کے گھرتک بندہوگئے ہیں مگرجس موت کی ہمیں ہروقت اورہرلمحے فکرکرنی چاہیئے
تھی اس موت کوہم نے بھلادیاہے۔ہمیں اﷲ کاخوف اورموت کی فکرہوتی توآج ہماری
یہ حالت کبھی نہ ہوتی۔کوئی مانے یانہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم سے بڑے سرکش
اورظالم اورکوئی نہیں۔ہم سے تو وہ جانورہزاردرجے بہترہیں جوکم ازکم اپنے آپ
پرتوظلم نہیں کرتے۔قدرتی آفات ،آزمائش ،وباء اوروقتی امتحانوں کے ذریعے
رحیم وکریم رب ہمیں راہ راست پرآنے کے باربارمواقع دے رہے ہیں مگرافسوس ہم
ہرگزرتے لمحے اوروقت کے ساتھ راستے سے مزیدبھٹکتے جارہے ہیں ۔ 2005کاقیامت
خیززلزلہ بھی ہمیں راہ راست پرلانے اورسدھرنے کے لئے رب کی طرف سے ایک
وارننگ کے طورپرآیاتھامگرآج کی طرح اس وقت بھی ہم راہ راست پرآنے اورسدھرنے
کی بجائے خراب سے خراب ترہوئے۔اس طرح کے آزمائش ،وباء،آفات اوروقتی
امتحانوں کے دوران وقت اوحالات کاتقاضایہ ہوتاہے کہ انسان اپنے
گناہوں،جرائم اورظلم وستم پرشرمندہ ہوکرنہ صرف سچے دل سے توبہ کریں بلکہ
روٹھے ہوئے رب کوراضی اوراس سے رجوع کاسلسلہ بھی پھرتواترکے ساتھ جاری
رکھیں۔2005کاقیامت خیززلزلہ ہویاآج کروناوائرس کی یہ وباء ۔آزمائش ،وباء
اور امتحان کے ایسے مواقع پرہم بحیثیت قوم ہمیشہ اجتماعی طورپرتوبہ اوررجوع
الی اﷲ سے محروم یاپھرخوددوررہے۔ایسے مواقع پرلوگ روٹھے رب کوراضی کرنے کے
راستے تلاش کرتے ہیں مگرایک ہم ہیں کہ ایسے مواقع پربھی ہماری نظریں دوسری
کی جیبوں ،چہروں اورہاتھوں پرہوتی ہیں۔دوسراانسان کتنامجبورہے۔۔؟اسے
کتنالوٹناہے۔۔؟کہاں لوٹناہے۔۔؟ہماری سوچ۔فکراورنظرآج تک ان جملوں سے آگے
کبھی نہیں بڑھی۔کروناوائرس کی وجہ سے آج جب دنیاکوجان کے لالے پڑے ہوئے ہیں
ہمیں اس موقع پربھی شکارکے لئے لاچاراورمجبورانسانوں کی تلاش ہے۔ میت کے
سرہانے کھڑے ہوکرمگرمچھ کے آنسوبہانے اورمردے کوکندھادینے کاکام توہم فرض
جان کر پابندی کے ساتھ ادا کرتے ہیں مگرکسی زندہ کوسہارادینے کاطریقہ ہمیں
نہ کبھی پہلے آیانہ آئندہ آنے کی کوئی امیدہے۔آج جب دنیابے
سہارا،مجبوراورلاچارانسانوں کوکندھااورسہارادینے کے لئے آگے بڑھ رہی
ہے۔مشکل کی اس گھڑی اورعالمی امتحان کے موقع پربھی ہمیں مجبور،لاچاراوربے
سہاراانسانوں کولوٹنے سے فرصت نہیں۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے ،عیدین
اوردیگراسلامی تہواروں کے موقع پرتولوٹ مارکے نئے نئے ریکارڈقائم کرنے کی
عادت ہماری پرانی بہت پرانی تھی مگراب قدرتی آفات ،آزمائش ،وباء اوروقتی
امتحانوں کے دوران بھی لوٹ مارکوہم نے اپنی زندگیوں کاایک مستقل حصہ
بنالیاہے۔دس روپے کے ماسک کو200اوراٹھ سوروپے کے آٹے کو1500میں فروخت
کرنایہ ہماری اسی لوٹ مارکاایک حصہ ہے۔کروناوائرس کی وجہ سے اس وقت جہاں
ایک طرف پورے ملک میں لاک ڈاؤن کاسماں ہے ۔وہیں دوسری طرف ہاتھوں میں تسبیح
پکڑنے اورچہروں پرمحراب سجانے والے ہم جیسے پکے اورٹکے مسلمانوں نے لوٹ
مارکانہ ختم ہونے والاایک سلسلہ شروع کردیاہے۔کالے کافرتوآج
مجبوراورلاچارانسانوں کاسہارابننے کی کوشش اورفکرکررہے ہیں مگرہم
سفیدمسلمان مجبوروں کاخون چوسنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے پھررہے
ہیں۔مجبور،لاچاراورغریب انسانوں کواپناشکاربنانے والے ہم مسلمان کیاسمجھ
رہے ہیں کہ کروناسے بچ کرہم موت سے بھی بچ جائیں گے۔۔؟نہیں
ہرگزنہیں۔کروناسے ایک نہیں ہزارباربھی ہم بچ جائیں پھربھی موت سے ہم کبھی
نہیں بچ سکتے۔کروناتونئی ایجادہے لیکن موت سے ہمارارشتہ اورتعلق پرانابلکہ
بہت پراناہے۔دنیاکی ہرچیزسے چھٹکارااورخلاصی ممکن ہے مگرموت سے بچنے کی
کوئی سبیل نہیں۔کروناوائرس کی وجہ سے خانہ کعبہ کاطواف رک چکا،بیت اﷲ کے
دروازوں سمیت اس وقت تمام درانسانوں پربندہوچکے ہیں لیکن ایک دراب بھی
کھلاہے۔وہ درجب بندہوتاہے توپھرانسان کے پاس سوائے آفسوس،ذلت اوررسوائی کے
کچھ نہیں بچتا۔اس وقت پھرانسان ہائے ہائے اوراﷲ اﷲ توکرتاہے لیکن پھرہاتھ
کچھ نہیں آتا۔اس وقت پھررونے ،چیخنے اورچلانے کابھی کوئی فائدہ پھرنہیں
ہوتا۔آج سارے دراگربندہوچکے توکوئی مسئلہ نہیں ۔اﷲ نے چاہا۔زندگی رہی تویہ
سارے دروازے پھرسے کھل جائیں گے لیکن وہ ایک دراگربندہواتوپھران سارے
دروازوں کے کھلنے کابھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اس لئے اب بھی وقت ہے کہ ہم
سب سچے دل سے توبہ کرکے اپنے رحیم وکریم رب سے اپنے گناہوں کی معافی
مانگیں۔اﷲ نہ کرے وہ دربھی اگربندہوگیاتوپھرہمارے پاس بھی فرغون کی طرح
ہاتھ ملنے اورافسوس کرنے کے کوئی چارہ نہیں رہے گا۔اس لئے اس وقت کوغنیمت
سمجھ کراس سے فائدہ اٹھایاجائے۔کہیں ایسانہ ہوکہ یہ دربھی بندہوجائے۔
|