کورونا کی سرکاری راحت :بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

نوول کرونا وائرس کی تباہ کاری کا اندازہ لگانے میں حکومت ہند بری طرح ناکام رہی ۔اس لیے احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے میں مجرمانہ تساہلی سے کام لیا گیا ۔ لاک ڈاون کا اعلان پہلے تو ۲۲ مارچ کے علامتی تماشے سے ہوا ۔ شام کے پانچ بجے برپا ہونے والی ہنگامہ آرائی نے یہ ثابت کردیا کہ عوام نے اس کا مقصد نہیں سمجھا اور وزیراعظم کے تنہا رہنے کی تلقین کے خلاف اجتماعی شکل میں سڑکوں پر نکل آئے ۔ اس کے بعد جب حقیقی کرفیو یعنی لاک ڈاون کے نتیجے میں عوام کو پیش آنے والی مصیبتوں کا اندازہ لگانے میں بھی حکومت بری طرح ناکام ر ہی اور وہ ضروری تدابیر اختیار نہیں کرسکی جس سے عوام کا اعتماد بحال کیا جاتا یا ان کی مشکلات کو دور کیا جاتا ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ سہولیات اس قدرتاخیر سے عوام کے سامنے آئیں کہ اس پہلے ہی بڑے شہروں سے ہزاروں لوگ جان بچانے کی خاطر پیدل اپنے اپنے گاوں کی جانب چل پڑے ۔

یہ معاملہ کسی دور دراز کے علاقہ میں پیش نہیں آیا جہاں ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہو بلکہ ملک کے دارالخلافہ سے نکل کر جانے والوں کی ویڈیو دیکھ کر اور خبریں پڑھ کر انسانیت شرمسار ہو گئی۔ باضمیر انسانوں کے راتوں کی نیند حرام ہوگئی لیکن بے حس حکمرانوں پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ کرفیو کا اعلان ہوتے ہی بے یارو مددگار حکومت کے منع کرنے کے باوجود عوام کے اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر نکل کھڑے ہونے کی ٹھوس وجوہات ہیں ۔اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ عوام کو حکومت پر بالکل بھی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ مشکل کی گھڑی میں ان کے کام آئے گی ۔ وہ جانتے ہیں کہ ان جمہوی حکمرانوں کا کام انتخاب کے وقت آکر ان جذباتی استحصال کرناہے۔ انتخابی جلسوں نعرے لگانا ، وعدے کرنا ،روپیہ اور شراب بانٹ کر الیکشن جیت جانا ہے۔اس کے پانچ سالوں تک یہ لوگ عیش و مستی میں ڈوبے رہتےہیں۔ ملک کے باشندوں کی فلاح و بہبود سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس لیے کورونا کی وباء سے بچانے کے لیے بھی وہ کچھ نہیں کریں گے اور لوگ ان کے بھروسے رہیں گے تو فاقہ کشی کا شکار ہوجائیں گے ۔ ان غریب لوگوں کوکورونا سے زیادہ بھوک کا خطرہ لاحق تھا۔
کورونا کی بابت عوام کی اعتماد بحالی میںہندوستان کا وہ بدنامِ زمانہ میڈیا بھی بری طرح ناکام ہوگیاجو رائے عامہ کو بدلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وباء کے عام ہونے سے قبل ہی خوف و دہشت کا شکار ہوکر ۷ لوگوں کی خودکشی اخبارات کی زینت بن گئی۔ ان شائع شدہ سانحات میں سے تین دہلی اور تین اترپردیش نیز ایک کرناٹک میں وقوع پذیر ہوا۔ لوگوں نے مختلف طرح سے اپنی جان گنوائی۔ کسی نے پھانسی لگا لی تو کوئی ریل گاڑی کے آگے لیٹ گیا۔ دوبچوں کےایک باپ نے اپنی گردن کاٹ لی اور ایک بیچارہ تو دہلی کے مشہور اسپتال کی ساتویں منزل سے کود گیا۔ ان لوگوں کی اگر مناسب طبی رہنمائی کی جاتی اور علاج کا یقین دلایا جاتا نیز جو معاشی مشکلات متوقع ہیں ان کی بابت اعتماد میں لیا جاتا تو یہ ایسا انتہائی اقدام کیوں کرتے؟ اس بابت بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ حکومت کے پاس کوئی واضح حکمت عملی نہیں تھی۔ ایسے میں کسی تیاری کی توقع ہی فضول ہے ۔ ذرائع ابلاغ نے فی زمانہ اپنے آپ کو اس قدر محتاج محض کرلیا ہے کہ اسے سرکاری موقف کی خبررسانی کے سوا کوئی کام ہی نہیں سوجھتا ۔ وہ ازخود محنت کرکے مفاد عامہ کی کوئی ضرورت پہوری کرنے کی زحمت نہیں کرتا ۔ اس لیے کہ ایسا کرنے پر اشتہار یا معاوضہ نہیں ملتا۔ صارفیت زدہ میڈیا کا یہ حال ہے کہ مادی مفاد کے بغیر وہ وائرس تو دور اپنے چہرے پر بیٹھی مکھی بھی نہیں مارتا۔

وطن عزیز میں ہر اچھے یا برے کام کی ابتداء وزیراعظم کے دست مبارک سے ہوتی ہے۔ وہ پہلی بار جمعرات (19مارچ) کو عوام کے سامنے آئے اور انہوں نے اتوار کے دن صبح پانچ بجے سے رات نو بجے تک علامتی جنتا کرفیو کا اہتمام کرکے گھر بیٹھنے کی تلقین فرمائی۔ اسی کے ساتھ درمیان میں پانچ بجے تالی، تھالی یا شنکھ بجانے کا مشورہ بھی دے دیا ۔بھکتوں نے ۵ بجے شام جشن مناکر گویا کورونا سے نجات حاصل کرلی ۔ اس موقع پر وزیراعظم نے نہ تو کوئی طویل المدتی حکمت عملی پیش کی اور نہ کسی سرکاری مدد کا اعلان کیا ۔ یہ حسب عادت کی جانے والی ایک انتخابی تقریر کا گھسا پٹا نمونہ تھا۔ اس کے بعد انہیں احساس ہوا کہ یہ تماشہ کافی نہیں ہے۔ ملک بہت جلد وباء کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوسکتا ہے اس لیے بغیر کچھ سوچے سمجھے اور کسی حفظ ماتقدم کی تیاری کے نوٹ بندی کی مانند دیش بندی کا اعلان فرما دیا۔

اکیس دن کے اس طویل لاک ڈاون کا اعلان کرتے وقت انہوں نے پندرہ ہزار کروڈ کی مدد کا اعلان بھی کیا ۔ہندوستان کے ایک سو تیس کروڈ لوگوں کو اکیس دنوں تو گھروں میں قید رکھنے کی مصیبت پر خرچ کرنے کے لیے صرف پندہ ہزار کروڈ ایک مضحکہ خیز رقم تھی جبکہ کیرالہ کی ریاستی حکومت نے کئی روز اپنے ۴ کروڈ لوگوں کے لیے بیس ہزارکروڈ روپیہ مختص کردیا تھا ۔ اس بات کا علم یقیناً مودی جی کو نہیں رہا ہوگا ورنہ وہ مدھیہ پردیش میں تختہ پلٹنے کے لیے جس قدر رقم خرچ ہوئی ہے اس سے چار آنہ زیادہ رقم اس وباء کی روک تھام کے لیے رکھتے یا کم ازکم نئے ایوان پارلیمان اور اپنے گھر کی تعمیر کے بیس ہزار کروڈ سے کچھ بڑھا دیتے ۔ مودی جی تو خیر فقیر آدمی ہیں پیسے پانی کا حساب کتاب فی الحال امیت شاہ کے پاس رہتا ہے۔ وزیراعظم ان کے کام میں دخل اندازی تو دور اس کی معلومات تک رکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔

وزیر اعظم کے دوسرے شہرہ آفاق بھاشن کے بعد ممکن ہے کسی نے ان کی توجہ اس قلیل رقم کی جانب مبذول کرائی ہو تو اس کے نتیجے میں نرملا سیتا رامن کا سرکاری پیکج عالم شہود پرآیا۔ وزیر خزانہ کی سرکاری راحت ایک لاکھ ستر ّ ہزار کروڈ کی ہے۔ ویسے تو یہ بہت بڑی رقم لگتی ہے لیکن ملک کی آبادی کے تناسب سے یہ بہت کم ہے۔ عام خوش فہمی یہ ہے کہ جمہوری حکمراں غریب پرور ہوتے ہیں ۔ اس کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں ۔ اول تو یہ کہ ان میں سے کئی غربت سے نکل کر اقتدار کی کرسی پر فائز ہوتے ہیں اور دوسرے دوبارہ انتخاب لڑنے کی مجبوری ان سےبادلِ نخواستہ کچھ کچھ عوامی فلاح و بہبود کے کام کروا دیتی ہے۔ کورونا کی وباء نے اس غلط فہمی کو دور کردیا اس لیے کہ فی فرد مدد کے معاملے میں قطر کی ملوکیت نے تمام دنیا کے جمہوری حکمرانوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ وہاں ہر شہری پر خرچ ہونے والی رقم 6 لاکھ 18ہزار ہے ۔ اس کے بعد جرمنی کا نمبر آتا ہے جہاں ہر فرد پر 5 لاکھ 48 ہزار روپئے خرچ کیے جائیں گے ۔ امریکہ جس کا مجموعی بجٹ سب سے زیادہ ہے اپنے ہر باشندے پر 4لاکھ 55ہزارروپیہ خرچ کرے گا اور دنیا کی وسیع ترین جمہوریت ہندوستان میں اوسطاً ایک آدمی پر صرف 1200 روپئے خرچ کیے جائیں گے۔ وہ تو خیر یہ تفریق نہیں کی گئی کہ جن کے نام متوقع این آر سی میں ہوں گے وہی اس کے مستحق ٹھہریں گے باقی لوگوں کو چیل کووں کے حوالے کردیا جائے گا۔

آبادی سے قطع نظر اگر پیکج کی کل رقم کا موازنہ کیا جائے تو ہندوستان کی امدادی رقم امریکہ کے مقابلے صرف ایک عشاریہ ایک فیصد بنتی ہے۔ ہمارا ملک غریب ضرور ہے لیکن اتنا غریب بھی نہیں کہ اس قدرکم خرچ کرے ۔ یہ دراصل ہمارے حکمرانوں کی خودغرضی ، سنگدلی اور بخیلی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ہندوستان کی جملہ معیشت 2.94 ٹریلین ڈالرہے جبکہ امریکہ کی اس سے سو گنا زیادہ نہیں بلکہ صرف 21.44 ٹریلین ڈالر ہے۔ ہندوستان کی آبادی 130 کروڈ سے زیادہ ہے جبکہ امریکہ میں صرف 30 کروڈ لوگ بستے ہیں ۔اس کے باوجود امریکہ نے اپنی عوام کے لیے کل معیشت میں سے 10.72فیصد کی خطیررقم نکالی جبکہ بھارت سرکار اپنی کثیر آبادی کے لیے بھی اپنی مختصرمعیشت میں سے صرف 0.94 فیصد ہی مختص کرنے کی ہمت جٹا پائی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سرکار کو عام لوگوں سے کتنی ہمدردی ہے؟ کورونا وائرس نے تو مودی سرکار کے چہرے سے غریب پروری کا نقاب نوچ کر پھینک دیا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ لوگوں کی آنکھوں پر پڑا عقیدت کا پردہ کب اٹھتا ہے۔ اس لیے کہ بقول اقبال؎
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر ،پھر سُلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
جادوئے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز،
دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449600 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.