ارے تم کرتی کیا ہو ، سارا دن تو سست بیٹھی رہتی ہو ۔
مشکل سے ایک کام کرتی ہو اور یوں لگتا ہے سارا دن کام میں لگی رہتی ہو ۔
اور وہ چپ چاپ سنتی اور منہ کان لپیٹ کر چھت پر چلی جاتی ۔ نیچے سے اماں
بولتی رہتی ۔ ڈھیٹ جو ہے اپنی مرضی کرنی ہے ۔ اور وہ چھت پر بیٹھی آسمان کو
تکتی رہتی ۔ نیلے آسمان میں نجانے کیا ڈھونڈتی رہتی ۔ اڑتے پرندوں کو
دیکھتی اور آزاد فضاؤں میں اڑنے کی تمنا اس کے اندر وحشت بڑھا دیتی ۔ کبھی
بادلوں کو تیرتے دیکھتی اور ان کی ٹھنڈک کو اپنی سانسوں میں محسوس کرتی ۔
یوں ہی خاموش بیٹھی رہتی اور نجانے کتنے بادل اس کی آنکھوں کے پیچھے بنتے
رہتے اور بارش کی صورت اس کے ویران چہرے کو سیراب کرتے ۔ بارش کے باوجود اس
کا وجود صحرا کی مانند خشک ہی رہتا ۔ کچھ لمحے یوں گزار کر وہ نیچے چلی
جاتی اور اپنے پودوں کے پاس بیٹھ جاتی ۔ بس یہی ایک شوق تھا جو وہ شوق سے
پورا کرتی تھی ۔ پودوں کے پاس بیٹھ کر خاموش لہجے میں باتیں کرتی ۔ ایک ایک
پتہ اس کے دل کے حال سے واقف تھا اور کیوں نہ ہوتا وہ ایک ایک کو اپنا
ہمراز بناتی تھی ۔ اور امی بولتی رہتیں کہ پاگل لڑکی اللّٰہ نے ہمیں دے دی
ہے نہ سنتی ہے نہ سمجھتی ہے ۔ باقی دو بہنیں تو اپنے اپنے گھروں میں خوش
آباد ہیں یہ اپنے پاگل پن کی وجہ سے ہمارے لیے اذیت بنی ہوئی ہے ۔ ارے سنتی
ہو یا نہیں تمہارے بھلے کے لیے ہی کہتے ہیں ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں ۔ اور
وہ یوں انجان بنی رہتی جیسے یہ سب کسی اور سے کہا گیا ہو ۔ تین بہنوں میں
وہ سب سے بڑی بہن تھی ۔ قبول صورت اور تعلیم یافتہ تھی ۔ جب شادی کی عمر
ہوئی تو قریبی جاننے والوں میں رشتہ ہو گیا ۔ جس دن نکاح تھا اسی دن لڑکے
کا حادثے میں انتقال ہو گیا ۔ اس لڑکے کے گھر والوں نے لڑکی کو منحوس قرار
دے دیا ۔ سب کو کہتے نکاح سے پہلے ہی ہمارے بیٹے کو کھا گئی ہمیں کیا پتہ
تھا یہ رشتہ ہم سے ہمارا بیٹا ہی چھین لے گا ۔ اور وہ سوچتی اپنے ہاتھوں کو
دیکھتی جن پر مہندی لگی تھی کہ کیا یہ اس فرشتے کے ہاتھ ہیں جو جسم سے روح
نکالتا ہے ۔ اس دن سے اس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جب بھی وہ کسی سے
رشتہ بنائے گی تو اس کی وجہ سے اس کی جان چلی جائے گی ۔ اور یہ خیال اتنا
پختہ ہو گیا کہ امی ابو کے سمجھانے کے باوجود وہ پھر کبھی شادی کے لیے نہیں
مانی ۔ تھک ہار کر امی ابو نے اس کو چھوڑ کرچھوٹی بہنوں کی شادی کر دی ۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس کے وجود میں اترتی تھکن اس کو مکمل طور پر قبضے میں لے
چکی تھی ۔ اب تو اس کی عمر بھی اس حد سے نکل رہی تھی جب رشتوں کی امید بھی
دم توڑنے لگتی ہے ۔ امی ابو نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح مان جائے مگر جب بھی
وہ اپنی شادی کی بات سنتی اسے لگتا اس کے ہاتھوں سے خون بہہ رہا ہے ۔ اور
وہ سختی سے منع کر دیتی ۔ گھر کے کاموں میں تھوڑا ہاتھ بٹا کر اس کے دو ہی
مشغلے رہ جاتے چھت پر بیٹھنا اور پودوں کے ساتھ باتیں کرنا ۔ اسے لگتا تھا
یہ بادل ، یہ پرندے ، یہ پتے پھول اس کی بیگناہی کو سمجھتے ہیں ۔ اور یوں
لگتا کہ آہستہ آہستہ یہ تھکن سارے ماحول پر دھند کی طرح چھا جاتی جس میں
منزل کا پتہ کھو جاتا ہے ۔
|