روپ بہروپ

ایک اور قصہ دہرایا جا رہا تھا ۔ وہ خاموشی سے سب دیکھ رہی تھی ۔ وہ کیا کرتی ۔ مسکرائی اور وہاں سے چل پڑی ۔ آنے والے مریض پریشان حال اور زندگی سے تنگ ہوتے ۔ وہ خاموشی سے بیٹھی سب سنتی اور لکھتی ۔ اور آخر میں مسکرا کر چل پڑتی ۔ وہ ایک ماہرِ نفسیات کے ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر کام کر رہی تھی ۔ گزشتہ دس سالوں سے وہ یہ کام کر رہی تھی اور ڈاکٹر صاحب بھی اس کے کام سے بہت مطمئن تھے ۔ ان کو بھی تو بڑی مشکل سے ایسی اسسٹنٹ ملی تھی جو آج تک بغیر کسی شکوہ شکایت کے خاموشی سے کام کر رہی تھی ۔ وہ آتی جو کام ہوتا خاموشی اور سکون سے مکمل کرتی اور چلی جاتی ۔ نہ کبھی کام سے بچنے کے لیے حیلے بہانے ڈھونڈتی نہ تنخواہ کے کم زیادہ ہونے کی بحث چلتی ۔ ڈاکٹر صاحب بھی اس کے مزاج سے واقف ہو گئے تھے اس لیے سب کچھ پرسکون انداز میں رواں دواں تھا ۔ ڈاکٹر صاحب جو سارا دن ذہنی مسائل میں پھنسے لوگوں کے مسائل حل کرتے رہتے ۔ انسانوں سے ڈسے ہوئے انسانوں کا علاج کرتے ۔ ان کا کلینک بہت کامیاب چل رہا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب کی جاب کرتے کرتے اسے یہ سمجھ آ گئی تھی کہ پیروں فقیروں کے ڈیرے اور یہ نفسیات کے کلینک آباد رہتے ہیں کیونکہ انسان نے ہی انسان کو تباہ کرتا ہے ۔ معاشرے اور خاندان بنتے بھی انسانوں سے ہیں اور برباد بھی انسانوں کے ہاتھ ہوتے ہیں ۔ پہلے صرف پیروں فقیروں کے ڈیرے پر لوگ سکون کی تلاش میں اور مسائل کے حل کے لیے جاتے تھے ۔ وقت کے ساتھ جیسے زندگی کے رنگ ڈھنگ بدلے ۔ ہر پہلو میں جدت پسندی آئی تو پریشانیوں کے حل کے لیے ماہر نفسیات کے کلینک آباد ہو گئے ۔ یہ ڈپریشن کیا ہے یہ ٹینشن کیا بلا ہے یہ شدت پسندی کہاں سے ہمارے اندر گھس آئی ۔ یہ نیند کی ادویات کا استعمال بے جا کیوں ہونے لگا ہے ۔ ہر آدمی دوسرے کی شکایت کرتا ہے معاشرے کو برا کہتا ہے سب کے خود غرض ہونے کا اعلان کرتا ہے ۔ خون کے سفید ہونے کا رونا روتا ہے ۔ اپنے اندر جھانکنے کی کبھی کوشش بھی نہیں کی اور اپنے ہر عمل کی یہی دلیل دیتا ہے کہ میرے ساتھ سب نے برا کیا اس لیے میں ایسا ہوں ۔ اور یہی بات معاشرے کا ہر فرد کہہ کر الزام دوسروں کے کھاتے میں ڈالتا ہے ۔ تو بھئی اس مسئلے کا حل کیسے نکلے گا اگر سب ہی ایک دوسرے کے رویے کے بدلے میں برائی کا بدلہ برائی سے دیتے رہیں گے تو معاشرہ ایسے ہی ہو گا ۔ اور وہ جو اتنے پرسکون انداز میں زندگی گزار رہی تھی کیا حقیقت میں بھی وہ اتنی پر سکون تھی ۔ اس سے جب بھی کسی نے اس کی زندگی کے بارے میں پوچھنے کی کوشش کی اس نے ایسے انداز میں موضوع بدلا کہ سامنے والا خاموش رہ جاتا ۔ وہ کہتی زندگی کو ڈسکس کرنے سے خوامخواہ مسائل بڑھتے ہی ہیں اور جس بات پر گفتگو سے حاصل کچھ نہ ہو کیا فایدہ اس بات کو زیر بحث لانے کا ۔ اور وہ اتنے پرسکون انداز میں بات کرتی کہ اگلا لاجواب ہو جاتا ۔ اور ہنس دیتے کہ ماہرِ نفسیات کے ساتھ کام کر کے اس کو بھی اپنی بات منوانے کا گر آ گیا ہے ۔ اور وہ بس آگے سے مسکرا دیتی ۔ جب بھی اس کو تنہائی میسر آتی وہ یہی سوچتی کہ کیا وہ ٹھیک کہتی ہے ۔ اس کو لگتا اس کی ذات سمندر ہے گہرا سمندر جس میں ان گنت طوفان خاموش پڑے ہیں کچھ گزر گئے اور کچھ نے گزرنا ہے مگر بظاہر پرسکون اور مطمئن نظر آنا ہے ۔ وہ اپنے اندر کے طوفان کہانیوں کی صورت میں کاغذوں پر اتارتی اور لکھ کر پھاڑ کر پھینک دیتی ۔ وہ اپنی کہانیوں کو اپنی ذات کی حد تک رکھنا چاہتی تھی ۔ لوگوں کو یا تو دوسروں سے باتیں کرنے کا شوق ہوتا ہے یا تنہائی میں اپنے آپ سے باتیں کرنے کا بھی کسی کسی کو شوق ہوتا ہے ۔ مگر اسے تو کاغذوں سے باتیں کرنے کا شوق تھا ۔ کہانیاں لکھتی سوال بھی خود لکھتی اور جواب بھی خود لکھتی اور ایسا کر کے وہ پرسکون ہو جاتی ۔ بچپن میں ابو کی وفات کے بعد ماموں کے گھر بڑی ہوئی اکلوتی بہن ہونے کے ناطے بہن بھائیوں کے رشتے سے بھی محروم تھی ۔ نانا ابو کی وفات تک ماموں ممانی کا رویہ اچھا رہا ۔ امی نے گھر کے سب کام سنبھال لیے ۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کو سمجھ آ گئی کہ ہر رشتے کا اپنا مقام ہے ۔ کہیں نہ کہیں ماموں ممانی احساس دلا دیتے کہ ان کو پال کر بہت احسان کر رہے ہیں ۔ ہر کسی کو باتوں باتوں میں جتا دیا جاتا کہ اپنے بچوں سے زیادہ اس پر خرچ کرتے ہیں ۔ اور کبھی براہ راست کہنے کی بجائے رویے سے بہت کچھ سمجھا دیتے تھے کہ دوسروں کے احسان تلے جی رہے ہو ۔ وہ پڑھائی میں اچھی تھی تو ماموں بھی سرکاری سکول اور پھر سرکاری کالج میں تعلیم دلواتے رہے کہ کل پڑھ کر نوکری کر لے گی تو ہماری بھی ذمہ داری کم ہو جائے گی ۔ اس طرح ماموں نیک نام بھی رہے اور اس کی تعلیم بھی مکمل ہوتی رہی ۔ یہ تو وہی جانتی تھی کہ جب فیس کے لیے پیسے لینے ہوتے تو ہزار بار سوچتی کہ کیسے مانگوں ۔ مانگنا اس کو اندر سے بہت مجروح کر دیتا تھا ۔ ماموں بھی جانتے تھے کہ کتنا خرچہ ہوتا ہے تو وہ پہلے سے ہی اس کی امی کو دے دیتے تو شاید کچھ کم احساس ہوتا مگر ماموں تو چاہتے یہی تھے کہ اس کو احساس رہے اور بظاہر کہتے کہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ روپے پیسے کی قدر رہے ۔ وہ تو اس کا مزاج ایسا تھا خاموش اور تنہائی پسند تھی ۔ اس کو انتظار تھا کہ بس جلدی سے تعلیم مکمل کرے اور جاب کرے ۔ اللّٰہ نے اس کی سن لی سائیکالوجی میں ماسٹر کرتے ہی اسسٹنٹ کی جاب مل گئی ۔ اس دن سے اب تک اس نے ماموں سے پیسے لینے چھوڑ دئیے ۔ اپنا اور امی کا خرچ خود اٹھانے لگی ۔ رہائش کا مسئلہ تھا اس معاملے میں وہ بے بس تھی اس لیے ماموں کے گھر رہنے پر مجبور تھی ۔ ورنہ اس کو پتہ تھا کہ ممانی اور اس کے بچے ان کے وہاں رہنے سے خوش نہیں تھے ۔ جاب کے بعد ماموں ان کا جو بھی کام کرتے پیسہ کا پورا حساب کتاب کرتے ۔ اور ہر بار کہتے کہ اب تو جاب والی ہو اب تو خرچہ خود اٹھا سکتی ہو ۔ہر بیماری دکھ سکھ میں ایک ایک پیسہ کا حساب کتاب رکھا جاتا ۔ ممانی بھی ہر آئے گئے کو کہتی کہ ہم نے بہت خرچہ کیا اس مقام تک پہنچایا اب روزگار والی ہو گئی ہے ۔ ہمارا احسان ہے جو یہاں تک پہنچی ہے ۔ اور یونہی کچھ عرصہ بعد جاننے والوں میں شادی ہو گئی ۔ وہ بھی درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے بھی جاب برقرار رکھنے کا کہا ۔ قسمت نے ایک بار پھر اس کے ساتھ کھیل کھیلا اور ایک حادثے میں اس کا شوہر وفات پا گیا ۔ وہ ایک بار پھر امی کے پاس آ گئی ۔ خاموش تو پہلے بھی تھی اب مزید تنہائی پسند ہو گئی ۔ جاب ، گھر کے کام اور لکھنا بس یہی اس کی زندگی میں رہ گیا تھا ۔ پھر امی اور ماموں نے بہت کہا کہ دوسری شادی کر لو مگر اس نے سختی سے انکار کر دیا ۔ پھر اس کو لگا وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ذات میں ٹھہراؤ آتا جا رہا ہے ۔ جاب کرتی تھی گھر کے خرچ میں حصہ ڈالتی تھی تو گھر والے بھی خاموش تھے ۔ کاغذوں سے دوستی بڑھتی گئی ۔ سب کہتے پتہ نہیں کیا کرتی ہے اکیلی بیٹھ کر لکھتی رہتی ہے ۔ مگر بےضرر سے شوق سے ان کا کیا نقصان ہو رہا تھا اس لیے خاموش ہو جاتے ۔ کاغذوں سے دوستی کر کے وہ پرسکون رہنے لگی ۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام کرتے ہوئے وہ ہر رنگ اور ہر مزاج کے انسانوں سے ملی ۔ جو کچھ اس نے پہلے نہیں سیکھا تھا اب سیکھ لیا تھا کہ انسان کو انسان سے ہی بچ کر رہنا چاہیے ۔ کیونکہ اس نے دو ، تین بار دوست بنانی چاہیں مگر ان سے ایسا دھوکہ ملا کہ اس نے تنہا رہنا ہی بہتر سمجھا ۔ وہ روز جاتی انسانوں کے روپ اور بہروپ دیکھتی اور کھوجتی رہتی کہ ان میں سے اس کا بہروپ کون سا ہے ۔

 

Zulikha Ghani
About the Author: Zulikha Ghani Read More Articles by Zulikha Ghani: 13 Articles with 13338 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.