منزل

بس اس وقت ایک سنسان سڑک پر رکی ہوئی تھی۔ وہ سب کھڑکیوں سے باہر دیکھ رہے تھے۔ دور تک چٹیل میدان پھیلا ہوا تھا۔دھوپ تو تھی مگر آج پہلے جیسی شدت نہ تھی۔ ٹام نے سر کھڑکی کے شیشے سے سر چپکا کر اگلی بس کو دیکھنا چاہا۔ اس میں بھی کچھ ایسے ہی لوگ اچک اچک کر آگے دیکھ رہے تھے۔ کوئی پچھلی بس پر بھی نظر ڈال رہا تھا۔ ان کی بسوں کے ساتھ آنے والی پولیس کی گاڑیاں دور کھڑی تھیں۔ ایک پولیس آفیسر مسلسل وائرلیس پر رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ٹام سمجھ سکتا تھا وہ لوگ اس وقت کس قدر الجھن کا شکار ہوں گے۔ کچھ دیر انہیں دیکھتے رہنے کے بعد ٹام سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ ایک طائرانہ نگاہ بس کے دیگر مسافروں پر ڈالی۔ سب ڈھلکے کندھوں اور پست حوصلوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ستر سالہ مارتھا اپنے بوڑھے شوہر ایرک کے شانے پر سر دھرے آنکھیں موندے بیٹھی تھی۔ ایرک کے گلوز میں چھپے ہاتھ مارتھا کے ہاتھ سہلا رہے تھے۔سب بظاہر پرسکون تھے مگر ان کے دل ایک انجانے خوف سے دھڑک رہے تھے۔ شدید بیچینی آہستہ آہستہ انہیں اپنے گھیرے میں لے رہی تھی۔سب جاننا چاہتے تھے کہ ان کی بسیں سڑک پر اتنی دیر سے کیوں رکی ہوئی ہیں؟ مگر شاید سب وجہ جانتے بھی تھے بس اس سے نظریں چرا رہے تھے۔

ٹام نے ماسک اتار کر گہری سانس لینا چاہی تو اپنے ساتھ بیٹھے فریڈ کے گھورنے پر فوراً سے دوبارہ ماسک منہ پر چڑھا لیا اور پھر سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ گیا۔ بسوں کے ساتھ چلنے والی ایمبولینسز کا عملہ بھی باہر نکل کر خوش گپیوں میں مصروف تھا۔کتنے خوش قسمت ہیں وہ ٹام نے سوچا۔ وہ اس کی طرح محصور نہیں ہیں۔آزادانہ کھلی فضا میں سانس لے سکتے ہیں۔اس نے ایک بار پھر اگلی بس کی طرف نظر دوڑائی۔ ریٹا بھی اگلی بس میں ہی تھی۔ سفر کے آغاز سے پہلے ٹام کی خواہش تھی کہ وہ ریٹا کے ساتھ ساتھ رہے، اس سفر میں اس کا ہمسفر بنے۔ مگر اسے الگ بس پر سوار کروا دیا گیا۔لیکن اب اسے ایسی کوئی خواہش نہیں تھی۔ اب وہ صرف گھر جانا چاہتا تھا۔ صحیح سلامت۔۔۔!!

کچھ گھنٹے پہلے بھی گاڑیوں کا یہ قافلہ ایک شہر کے دروازے پر ڈھائی گھنٹے رکا رہا تھا۔شہر کی انتظامیہ انہیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔وہاں کے مقامی شہری حسرت سے اپنے جاننے والوں کو تلاشتے رہے۔ ان ڈیڑھ سو مسافروں میں سے صرف پانچ افراد میں بیماری کی تصدیق ہو چکی تھی۔باقی سب مشکوک تھے۔مگر انہیں کہیں جائے پناہ نہیں مل رہی تھی۔ایک شہر نے انہیں اپنے دروازے سے لوٹا دیا تھا۔ دوسرے شہر نے انہیں خود تک پہنچنے ہی نہ دیا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ دوسرے شہر کی انتظامیہ نے بھی انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا ہے تبھی وہ سب یوں رستے میں کھڑے ہیں۔اچانک پچھلی سیٹوں سے کسی کے چھینکنے کی آواز آئی۔سب پلٹ کر اسے دیکھنے لگ گئے۔مریضوں میں ایک اور کا اضافہ ہونے والا تھا۔ ٹام چپ چاپ بیٹھا پولیس اہلکاروں اور طبی عملے کی حرکات سکنات دیکھتا رہا۔کچھ دیر بعد ان میں ہلچل ہوئی تھی۔وائرلیس پر بات کرنے والے آفیسر نے اونچی آواز میں ان سب کو کچھ کہا اور وہ سب حرکت میں آ گئے۔ڈرائیورز جلدی سے بسوں کی طرف بڑھے اور اگلے چند لمحوں میں وہ ایک نئی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔مگر کون جانے وہ منزل بھی انہیں قبول کرتی ہے یا نہیں۔۔۔!!

 

Zeba Hassan Makhdoom
About the Author: Zeba Hassan Makhdoom Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.