جہاد اسلافِ اسلام کا پاکیزہ عمل

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
عن ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ قال :اتی رجل رسول اللّٰہ ﷺ فقال :ای الناس افضل قال: مومن یجاھد بنفسہ وبمالہ فی سبیل اللّٰہ قال:ثم مومن شعب من الشعاب یعبد اللّٰہ ویدع الناس من شرہ۔(متفق علیہ)
”حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا :سب سے اچھا آدمی کون ہے ؟ فرمایا: وہ مومن جو اپنی جان اور مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہا ہو ۔پوچھا : پھر کون ؟ ارشاد ہوا : پھر وہ مومن ہے جو کسی گھاٹی میں رہ کراللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اور لوگوں کو اپنے شروفساد سے بچائے ہوئے ہے ۔“

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ان فی الجنة ماة درجة اعدھا اللّٰہ للمجاھدین فی سبیل اللّٰہ ،مابین الدرجتین کما بین السماءو الارض۔”یعنی جنت میں سینکڑوں درجے (منزلیں)ہیں جو اللہ تعالیٰ نے راہ خدا کے مجاہدوں کے لئے تیار کئے ہیں ،ہر دود رجوں کے درمیان کا فاصلہ زمین و آسمان کی دوری کے برابر ہے ۔“(بخاری)

لفظ ”جہاد“ ،”جہد“سے ماخوذ ہے ۔جو بفتح (زبر) جیم ہو تواس کے لغوی معنے طاقت ،اور اگر بضمہ (پیش) جیم ہو تو اس کے لغوی معنے محنت اور کوشش کے ہیں ۔

امام راغب نے مفردات میں لکھا ہے کہ استفراغ الوسع فی مدافعة العدو۔”یعنی دشمن کی مدافعت میں پوری طاقت صرف کرنا اور شریعت کی اصطلاح میں ”جہاد“مسلمانوں کی اس اجتماعی جدو جہد کو کہتے ہیں جو انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے قوانین کو دنیا میں قائم کرنے اور بلند کرنے کے لئے کی جائے اور اس میں جس چیز کی بھی قربانی کی ضرورت پیش آئے اسے بے دریغ قربان کر دیا جائے ۔

یہا ں تک کہ اس کے لئے اپنا تمام مال و دولت ،اپنی جان قربان کرنے کی نوبت آئے تو ہزار مسرت و شوق کے ساتھ اسے بھی راہ خدا میں قربان کر دیا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ جہاد سے تعلق رکھنے والے کاموں پر جتنا ثواب ہے ۔اتنا اور کسی بھی نیکی پر نہیں ۔

ظاہر ہے کہ کسی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے کوشش اور جدو جہد کے بہت سے درجات ہوتے ہیں ۔ضروری نہیں کہ ہر جدو جہد کے اخیر میں گردن کٹانے کی نوبت آہی جائے ۔ لیکن اسلام کا سپا ہی اور اللہ کا غازی چونکہ اخیر میں اس تک کے لئے تیار رہتا ہے ،اس لیے اس کی جدو جہد کا ہر قدم جان نثار کردینے اور گردن کٹا دینے کے راستہ میں ہو تا ہے ، اس لئے اسکے ہر قدم کی قیمت اسی جذبے کے لحاظ سے مقرر کی جاتی ہے ۔ خواہ عمر بھر ایک تیر یا کوئی تلوار اور گولی بھی جسم میں لگنے کی نوبت نہ آ ئے ۔

جہاد اسلامی فرائض میں سے ایک بہت اہم فریضہ اور اسلام کے جسم کارواں دواں خون ہے۔اسلام کا غلبہ واقتدار اور ا س کی شان وشوکت کا ضامن بھی یہی ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیا ن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا: ”یعنی جو شخص اس حالت میں مرا ہو کہ اس نے نہ تو (عملاً) جہاد کیا اور نہ ہی جہاد کرنے کا خیال اس کے دل میں گزرا ہو تو وہ ایک قسم کے نفاق(منافقت) پر مرا ہے “(مسلم)

اس ارشاد نبوی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان پر لازم ہے کہ دین کی سرفرازی و سر بلندی کے لئے جہاد کرے اور اگر جہاد کرنے سے کوئی شرعی عذر مانع ہو تو کم از کم یہ عزم و ارادہ ضرور رکھے کہ میں موقع پا کر ضرور جہاد کروں گا اور جو شخص ان دونوں باتوں سے محروم ہو تو ایسے شخص کی موت اس منافق کی موت کے مشابہ ہے جو مال وجان اور عزیز و اقارب کی فکر میں اسلامی جہاد سے کنارہ کش رہتا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:”یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملاقات کرے گا کہ اس کے جسم پر جہاد کا کوئی نشان نہ ہوگا تو اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اس میں کمی ہو گی ۔“(ترمذی )

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص نے جہاد کا کوئی شعبہ بھی اختیار نہ کیا ہو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان ،مال وقت میں سے کوئی چیز بھی صرف نہ کی ہو تو ایسا شخص مرنے کے بعد ناقص دین لے کر بارگاہ ایزدی میں حاضر ہو گا کیونکہ دین کی تکمیل جہاد سے ہوتی ہے ۔حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ جناب رسول اللہ ﷺ کا ارشاد بیان کرتے ہیں کہ:”یعنی جس نے نہ تو خود جہاد کیا اور نہ کسی مجاہد کا سامان درست کیا اور نہ کسی مجاہد کے گھر والوں سے بھلائی کی تو اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے پہلے اُسے کسی سخت مصیبت میں مبتلا کر دے گا۔“

جہاد کی مختلف صورتیں:علامہ راغب اصفحانی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :اور جہاد کی تین قسمیں ہیں:
1۔ظاہری دشمن سے جہاد کرنا 2 ۔شیطان سے جہاد کرنا 3۔نفس سے جہاد کرنا۔

قرآن پاک نے اس سلسلہ میں اکثر مقامات پر دو عنوان قائم کئے ہیں :اولا:جہاد بالنفس ،یعنی جان سے جہاد کرنا۔ ثانیا:جہاد بالمال، یعنی مال سے جہاد کرنا۔

قرآن مجید میں مالی جہاد کا ذکر جانی جہاد سے زیادہ مقام پر آیا ہے ۔اس کی وجہ ظاہر ہے کہ محاذ جنگ پر جانا اور جسمانی جہاد میں شریک ہونا ہر شخص کا کام نہیں ہے۔ لیکن مالی جہاد میں حسب مقدور حصہ لینا ہر ایک کے لئے آسان ہوتا ہے اس لئے مالی جہاد کا دائرہ وسیع ہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ قتال کی ضرورت کبھی کبھی پیش آتی ہے اور مالی جہاد کی ضرورت مسلسل موجود رہتی ہے ۔

لسانی جہاد:جہاد کی ایک قسم”لسانی جہاد “ بھی ہے اور وہ ہے دلائل و براہین سے حق ثابت کرنا ،باطل کے تمام شکوک و شبہات اپنی بیانی و استدلالی قوت سے زائل کرنا۔ لوگوں کو وعظ و نصیحت اور ترغیب و تحریص سے جہاد پر آمادہ کرنا ۔چنانچہ ایک حدیث میں مالی و جانی جہاد کے ساتھ ساتھ (زبانی) جہاد کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جاہدوا المشرکین باموالکم و انفسکم والسنتکم۔”مشرکوں سے اپنے مال ،جان اور زبان سے جہاد کرو۔“(ابو داﺅد، نسائی)

قلمی جہاد بھی لسانی جہاد کے حکم میں ہے کہ عام حالات میں تحریر ،تقریر سے زیادہ موثر اور پائیدار ثابت ہوا کرتی ہے ۔کتاب اللہ میں لسانی اور قلمی جہاد کو ”جہاد بالقرآن“ (قرآن کے ذریعہ جہاد کرنا)سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ارشاد ربانی ہے :فلا تطع الکٰفرین وجاہدھم بہ جہادا کبیرا۔”کفار کے کہنے میں مت آئے اور ان سے قرآن کے ساتھ بڑا جہاد کیجئے۔“(سورة الفرقان)

جہاد اکبر: حدیث نبوی ﷺ کی روسے جہاد کی ایک قسم ”جہاد اکبر“ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ احکام الہٰی کی تابعداری اور ان کی حفاظت و اشاعت میں مزاحم ہونے والی اپنی نفسانی خواہشات کا مقابلہ کیا جائے اور دینی تقاضوں کے سامنے اپنے شخصی و اجتماعی مفاد کو نظر انداز کردیا جائے ۔

میدان کارزار میں جان دینا بیشک مشکل کام ہے لیکن احکام خدا وندی کی خاطر اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف چلنا بہت ہی مشکل عمل ہے ۔اس لئے کہ کافر کے مقابلہ میں جان دینا بہر حال ایک آنی اور وقتی چیز ہے اور اسلام کی خاطر اپنے نفس کی مخالفت کرنا ،اپنے ناسازگار ماحول ،اپنی قوم ،اپنی برادری کے خلاف کرنا، ہر ایک کے اعتراضات کا ہدف بننا،عمر بھر کی سردردی اور ساری زندگی اس میں ہی مصروف رہنا ایک کٹھن کام ہے اور اس میں استقامت دکھانا ،اسے نبھاتے رہنا سخت دشوار امر ہے ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے تو رسول اللہ ﷺ نے واپس آنے والوں سے خطاب کر کے فرمایا:”تمہارا آنا مبارک ہو! تم جہاد اصغر(چھوٹے جہاد)سے جہاداکبر (بڑے جہاد)کی طرف آئے ہوکہ بندہ کا بڑا جہاد اپنی خواہش سے لڑنا ہے۔“

حضور اکرم ﷺ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:”اور (کامل) مجاہد وہ ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کیا۔“(کنزالعمال)

کلمہ حق بلند کرنا:جہاد کی آخر ی اور اہم قسم ظالم حکمران کے سامنے حق و انصاف کی بات کہنا ہے ۔حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:افضل الجہاد من قال کلمة حق عند سلطان جابر۔”بہترین جہاد اس شخص کاجہاد ہے جس نے ظالم بادشاہ کے رو برو حق بات کہی۔“ (ترمذی)

کفار کے مقابلہ میں فتح و شکست دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ لیکن ظالم حکمران کے مقابلہ میں ”حق گو“ کے غلبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ حق گوئی کی پاداش میں اسے بالعموم مصائب و شدائد سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔اس لئے جہاد کے اس درجہ کو افضل کہا گیا ہے ۔

علمائے اسلام اور افضل جہاد:علمائے حق نے افضل جہاد کے اس فرض کو بڑی خوبی سے ادا کیا ہے اور دعوت و اعلان حق کی راہ میں بڑی قربانیاں اور سرفروشیاں کی ہیں ۔دنیا کی کسی قوم کی تاریخ حق پرستی کی ایسی مثالیں نہیں دکھا سکتی جن سے علمائے اسلام کی تاریخ کا ہر باب وصفحہ روشن ہے ۔دنیا کی کوئی طاقت و دہشت اور انسانی تاج و تخت کی کوئی ہیبت و سطوت بھی علمائے اسلام کے جذبہ اعلان حق پر غالب نہ آسکی اور دنیاوی خوف و طمع کا کوئی مظہر بھی انہیں اس راہ سے باز نہ رکھ سکا۔ دنیا میں راہ حق سے روکنے والی صرف دو چیزیں ہیں اور ساری آزمائشیں انہیں میں مضمر ہیں ۔ایک خوف، دوسرا طمع، لیکن ان (علمائے حق) کے دلوں میں خوف تھا تو صرف اللہ جبروت صاحبہ و جلال کا اور طمع تھا تو صرف اسی کی رضا و رحمت کا۔یدعون ربھم خوفا وطمعا۔”اللہ کے بندے اپنے رب کو خوف و طمع سے پکارتے ہیں۔“

پس انہیں خوف کا حربہ ڈراسکتا تھا نہ طمع کی دلفریبی ان کو لبھا سکتی تھی۔کیونکہ۔”بڑے بڑے مضبوط پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ سکتے ہیں ۔لیکن اللہ والوں نے جو عہد اپنے اللہ سے کیا ہوتا ہے ان کے دل اس سے نہ تو ہٹتے ہیں اور نہ ہی ان میں کسی قسم کا کوئی تغیر ہی رونما ہوتا ہے ۔“

ذرا آئیے ۔اسی سلسلے میں علمائے اسلام کے ادا کئے فرض کے چند مناظر آپ کو دکھائے جائیں ! آپ حضرات حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ کو دیکھئے ! کہ ظالم حکام کے حکم سے ان کی پیٹھ پر درے لگائے جارہے ہیں ۔مگر ان کی زبان صدق بیان اعلان حق میں پہلے سے بھی زیادہ سر گرم عمل ہو گئی ہے ۔۔۔۔ آپ مدینہ کی گلیوں میں امام الہجرة حضرت امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ کو دیکھئے! کہ ان کی مشکیں اس روز سے کس دی گئی ہیں کہ دونوں بازو اکھڑ گئے ہیں اور اوپر پیہم تازیانے کی ضربیں پڑ رہی ہیں ۔اس عالم میں بھی جب زبان کھلتی ہے تو اسی مسئلہ کا اعلان کرتے ہیں جس کو حق سمجھتے تھے ۔۔۔۔لیکن وقت کی حکومت اس کے اعلان کو اپنے جبرو طاقت سے روکنا چاہتی تھی ۔جب گور نر مدینہ نے تشہیر و تذلیل کے لئے اونٹ کی برہنہ پیٹھ پر سوار کر کے گشت کرایا تو ان کا یہ حال تھا کہ جب کبھی کوئی بازار یا مجمع سامنے آجاتا تو عین ضرب تا زیانہ کی حالت میں کھڑتے ہوجاتے اور پکار کر کہتے:من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا مالک بن انس اقول ھکذا۔یعنی ”جو مجھے پہچانتا ہے تو پہچانتا ہی ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ بھی پہچان لے کہ میں (امام) مالک بن انس ہوں اور جس شرعی مسئلے کو میں حق سمجھتا ہوں لیکن حکومت وقت مجھے اس کے بیان سے روک رہی ہے دیکھئے! میں اس کو عین اس ضرب و مار کی حالت میں بھی بر ملابیان کرتا ہوں۔“

آپ امام احمد بن حنبل کو دیکھئے ! معتصم با للہ جیسا قاہر و جا بر فرمانروا کے سامنے کھڑا ہے ۔نو جلا دیکے بعد دیگر ے تازیانے لگارہے ہیں ۔پیٹھ زخموں سے چور چور ہو گئی ہے ،تمام جسم خون سے رنگین ہو چکا ہے اور یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ جس مسئلہ کو وہ کتاب و سنت کے خلاف سمجھتے ہیں ۔اس کا ایک مرتبہ اقرار کر لیں ۔لیکن اس پیکر حق ،اس مجسمہ سنت ،اس صابر اعظم کی زبان صدق ترجمان سے یہی صدا نکل رہی ہے :”مجھے کتاب و سنت کا کوئی حصہ دیدو تاکہ میں یہ کہوں کہ میں نے دار اور سکندر کا قصہ نہیں پڑھا ،مجھ سے سوائے مہرووفا کی حکایت کے کچھ اور نہ پوچھو۔“

آپ حضرات امام الاعظم امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو دیکھئے! قید خانہ بغداد میں اسیر ہیں ۔لیکن اس پر بھی منصور جیسے قاہر و سفاک بادشاہ کے حکم کے سامنے ان کا سر نہیں جھکتا۔۔۔۔ آپ کو حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ اس حالت میں نظر آئیں کہ یمن سے بغداد تک قیدو اُسر کی حالت میں بھیجے جا رہے ہیں اور ان کا جرم صرف یہ ہے کہ حق کے داعی ہیں اور صدق و ہدایت پر قائم ہیں۔ آپ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ کو دیکھئے ! کہ قلعہ گوالیار میں قید ہیں ،مگر جہانگیر کے آگے سر کو جھکانے کےلئے تیار نہیں ۔ جس کو اللہ نے صرف اپنے ہی آگے جھکنے کے لئے بنایا ہے ۔یونہی دوسرے مردان حق نے اپنے اپنے دور میں کلمہ حق کہنے کا فرض ادا کیا ہے ۔مگر اے وارثان فقہائے ملت! اے وراثتِ نبوی ﷺ”علم“کے حصول میں کشاں کشاں سفر کرنے والو، اے کتاب و سنت کی تبلیغ میں سرگرداں رہنے والوں! تمہارے اندر اسلاف کا جذبہ کیوں ناپائید ہو گیا۔ تمہاری گردنیں در خدا و رسول ﷺ سے مڑکر ایوان اقتدار کی طرف کیوں جم گئیں! تم نے کلمہ حق پر مصلحت پسندی کیوں اختیار کرلی۔ملتِ اسلامیہ کی کشتی تو تمہاری ناخدائی میں ہمیشہ حق کی طرف رواں دواں رہنا تھی مگر تحفظ حدود اللہ کا مسئلہ ہویا تحفظ ناموس رسالت کا ،مسلمانوں کے قتل عام کا مسئلہ ہو یا قانون سازی میں اسلام مخالف شقوں کو شامل کرنے کا ۔فحاشی و عریانی کا بازار گرم ہو یا مخلوط نظام تعلیم و حکومت کا ،تم لوگوں نے اپنے کردار کو اسلاف کی یادگار کیوں نہ بنایا۔تمہاری رگوں میں اسلاف کا خوں رواں دواں ہے مگر اتنی سرد مہری کہ خونِ مسلم دنیا کے ہر خطے میں ناجائز بہایا جا رہا ہے اور ملت کے پاسبان خاموش تماشائی نظر آتے ہیں ۔کیا جہاد اکبر اور اعلائے کلمة الحق کا فریضہ بھول گئے ہو۔ آج ملتِ اسلامیہ اور غلبہ اسلام کے لئے مذہبی جماعتوں کے قائدین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسلام میں جو عمل افضلیت میں کمال مقام رکھتا ہے یعنی جہاد اُس کو عام کیا جائے اور جہاد دہشت گردی کا فرق واضح کیا جائے۔
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 616460 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.