آج عصر کی نماز پڑھنے کے بعد معمول کی طرح گھر کے باغیچے
میں بیٹھے بیٹھے اللہ سبحان و تعالٰی کا ورد کر رہا تھا کہ اتنے میں امی
آئی اور کہنے لگی ”کاشف چائے بنانے کے لیے دودھ لیکر آؤ" مینے جواب میں کہا
"امی سارا شہر لاک ڈاؤن ہے کرونا وائرس کی وجہ سے دکانیں کہاں سے کھلی
ہونگی؟" تو امی نے چیک کرنے کو کہا تو میں بھی نکل پڑا چیک کرنے کہ اگر
کوئی دودھ کی دکان کھلی ہوئی ہے تو لیکر آؤں، جلدی سے اٹھ کر اپنا فیس ماسک
اور ھینڈ گلوز پہن کر باہر نکل پڑا۔
باہر نکل کر دیکھا تو گلی کے سارے بچے، بوڑھے اور نوجوان گروپس بنائے کرونا
وائرس کی دہائیاں دے رہے تھےاور اپنا اپنا نقطئہ نظر پیش کر رہے تھے، ان سب
کو چھوڑ کر جب میں آگے بڑھا تو دیکھا ایک چھوٹا بچہ نیچے زمین پہ بیٹھا ہوا
تھالی میں چنے بیچ رہا تھا، میں اس بچے کے پاس گیا اور اس سے پوچھا "بیٹے
تم کون ہو اور اس کرونا وائرس جیسی وباء کے ہوتے ہوئے تم چنے کیون بیچ رہے
ہو؟ اگر خدانخواستہ وائرس لگ گیا یا کسی پولیس والے نے دیکھ لیا تو تمہیں
پتہ ہے تمہارے ساتھ کیا ھوگا؟" بچے نے معصومانہ انداز میں کہا "انکل جی
میری چار سال کی چھوٹی بہن اور میری امی دو دن سے بھوکے ہیں انکا پیٹ پالنے
کے لئے یہ چنے بیچ رہا ہوں" یہ جواب سن کر مینے قدرے حیرانگی سے پوچھا "کیوں
تمہارا ابو یا بڑا بھائی نہیں کماتے کیا؟" تو بچے نے جواب دیا "نہیں انکل
میرا کوئی بھائی نہیں ہے اور میرے والد بھی فوت ہوچکے ہیں، میری امی پڑوس
کے امیر گھروں کا کام کرتی ہے تب جاکے ہمارا گھر چلتا ہے، پر جب سے یہ
وائرس آیا ہے تو جن کے گھر میری امی کام کرتی ہے انہوں نے امی کو کہا کہ دو
ماہ تک کام پے مت آنا، یہ کہہ کر انہوں نے امی کو انکے گھر جانے سے بھی منع
کردیا اور پئسے بھی نہیں دیے کام نہ کرنے کی وجہ سے، تو پندرہ دن تو ہم نے
جیسے تیسے کرکے امی کے بچائے ہوئے پئسوں پہ کرلیا تین دن سے پئسے ختم ہوگئے
ہیں اور گھر میں کچھ بھی کھانے پینے کو نہیں ہے، تو آج میں پڑوس کے دکاندار
سے یہ چنے ادھار لیکر آیا اور امی کو پکانے کو کہا تاکہ بیچ کر جو پئسے
کماؤں ان میں سے پہلے دکاندار کو اسکے پئسے دیکر آؤں باقی جو بچے اس سے
کھانے کو کچھ گھر لیکر جاؤں" یہ سن کر میں سن ہوگیا میری آنکھوں سے آنسو
نکل آئے، تو مینے بچے سے کہا "بیٹا امیر لوگ یا یہ سیاستدان جو غریبوں کو
راشن دے رہے ہیں ان سے راشن کیوں نہیں لے رہے ہو؟" تو بچے نے دبے ہوئے لہجے
میں جواب دیا کہ "امی کہتی ہے کہ امیر لوگ صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے راشن
دے رہے ہیں، 400 کا آٹا دیتے ہیں تو آٹھ لوگ اکٹھے ہوجاتے ہیں تصویر لینے
کہ لیے، یہ لوگ راشن دیتے ہی تصویر لینے کے لیے ہیں اور امداد لینے والے کو
دنیا کے سامنے شرمندہ کردیتے ہیں، اس شرمندگی سے بچنے کے لیے خددار اور
عزتدار غریب لوگ یا تو بھوکے مرتے مرجائیںگے پر کسی امیر سے امداد لیکر عزت
کا سودہ نہیں کریںگے اور کچھ غریب لوگ ان امیروں سے امداد لیکر تصویریں
کھنچا کر اپنی عزت کا سودہ تو کردیتے ہیں پھر انکا ضمیر ہی مرجاتا ہے پھر
کئی غریب بھیک مانگنا شروع کردیتے ہیں، اور رہی بات سیاستدانوں کی تو وہ جو
بھی غریبوں کی امداد کا اعلان کرتے ہیں یا دیتے ہیں تو وہ راشن سرکاری
افسران کے لیے ہوتا ہے، کیوں کہ اکثر ایسے بے ضمیر سرکاری آفیسر ہیں جو
گاڑیاں بھر بھر کے راشن اپنے گھروں میں جمع کر رہے ہیں، تو نہ تو امیروں سے
ہمیں کوئی امیدیں وابستہ ہیں اور نہ ہی سرکار یا سرکاری افسران سے، امی
کہتی ہے کہ غریب خود کچھ کرے یا پھر فاقے پہ مرنے کو تیار رہے"۔
اس چھوٹے سے یتیم بچے کی یہ باتیں سن کر میں اندر ہی اندر ڈوب گیا کہ کیوں
ہم کسی کی امداد نہیں کرتے ایسی وباء کے وقت میں، اور اگر کرتے ہیں تو
تصویریں کھنچاکر سوشل میڈیا پہ ہم شیئر کرکے ہم کیا پیغام دینا چاہتے ہیں
کہ ہم کسی کی امداد کرکے تعریفیں سمیٹیں؟ تاکہ معاشرے میں لوگ ہمیں معزز
شخصیتیں سمجھں؟ غریبوں کے ہمدرد سمجھیں؟ یہ کیسی ہمدردی ہے کہ آپ انکی عزت
کا سرعام تماشا بنا رہے ہیں اور انکو فاقے کاٹنے پہ مجبور کر رہے ہیں۔
اور وہ سرکاری نمائندے جن کو ہم نے یہ سوچ کر ووٹ دیکر منتخب کیا کہ کسی
مصیبت میں ہمارا ساتھ دینگے، ہماری مدد کرینگے، ہمارے ہر دکھ میں ہمارے
ساتھ کھڑے ہونگے آج وہی نمائندے اس مصیبت کے وقت میں اپنے حلقوں کے لوگوں
سے لاتعلق ہیں آج کل تو نا تو انکا کوئی اتا ہی اور نا ئی کوئی پتہ اور اگر
وہ اپنے حلقوں میں موجود بھی ہیں تو لوگوں سے ایسے منہ پھیر رہے ہیں جیسے
ان کو جانتے بھی نا ہوں، پھر یہی لوگ ان ہی لوگوں کے پاس الیکشن کے وقت
ایسے ووٹ مانگنے جاتے ہیں جیسے آج اگر وہ زندہ ہیں تو صرف انکی وجہ سے۔
|