تبلیغ ، کورونا اور میڈیا !!!

کورونا وائرس کی وبا ء ملک بھر میں جیسے ہی پھیلنے لگی تھی اسی وقت اس بات کا شبہ کھلے طورپر کیا جارہاتھا کہ اس وباء کو جلد ہی فرقہ پرست مذہبی رنگ دینگے ، اس سلسلے میں کئی قلمکاروں نے اس بارے میں کافی کچھ لکھا تھاکہ کورونا کو مسلمانوں سے جوڑنے کے لئے فرقہ پرست کافی تیاری کررہے ہیںاسلئے مسلمانوں کو محتاط ہونا چاہئے ،آخر کار فرقہ پرستوںنے تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین کو کورونا کی وباء کی لپیٹ میں لے کر اسے مسلمانوں سے جوڑ ہی دیا ۔ گودی میڈیا ، حکومت اور سوشیل میڈیا کے علاوہ کچھ نام کے مسلمانوں نے بھی اس پروپگنڈے میں مسلمانوں کو مورد الزام ٹہرایا دیا اور کل تک جو پر امن جماعت قرار دی جاتی تھی اس جماعت کو دہشت گرد، قصوروار اور لاپر واہ جماعت کا الزام لگادیا ۔ تبلیغی جماعت اور کورونا کے درمیان کیا رشتہ ہے اور کس حد تک مرکز نظام الدین اس معاملے میں قصور وارہے یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جس طرح سے مسلمانوں نے سوشیل میڈیا میں اس پروپگنڈہ کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے گودی میڈیا پر مسلسل طعنے کس رہے ہیں اور اپنے دفاع میں دستاویزات پیش کررہے ہیں وہ مسلمانوں کے لئے نئے نہیں ہیں ۔ ملک میں مسلمانوں کے جتنے بھی مکاتب فکر ہیں ، جتنی بھی تنظیمیں ہیں ان پر میڈیا نے الزام تراشی کا کام کیا ہے اور منظم طریقے سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے اور ہر بار مسلمانوں نے اس میڈیا کی مذمت کی ہے اور افسوس کااظہار کیا ہے ، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے افسوس اور مذمت کو بھی لوگوں کے سامنے دکھانے کے لئے اسی گودی میڈیا کا انتظار کرنا پڑا ہے ۔ دراصل مسلمانوںنے اپنے حریف یا دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے کبھی بھی اپنے ہتھیار نہیں بنائے ہیں ۔ مثال یہی لے لیجئے کہ تبلیغی جماعت پر جو الزام تراشی ہورہی ہے اس کا جواب دینے کے لئے ہمارے پاس کچھ اردو اخبارات ہیں اور کچھ نیوز پورٹل ، یہ دونوں وسائل مسلمانوں کے حد تک محدود ہیں جبکہ قومی میڈیا کا اس سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے ۔ مولانا سعد نے تبلیغی جماعت پر لگائے جانے والے الزاما ت کی تردید کرتے ہوئے پریس ریلیز جاری کیا لیکن بتائے کہ کتنے چینلوںنے انکے اس بیان کو منظر عام پر لانے کی زحمت گنوار ہ کی ۔ ایک بھی چینل یا انگریزی اخبار نے مولانا سعد کے بیان کو جاری نہیں کیا سوائے اردو اخبارات اور کچھ اردو و مسلم ویب سائٹس نے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی آواز اگر کہیں ہے تو ہو مساجد ہیں جہاں پر ہمارے علماء کو اکثر مزمت کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور یہاں ہونے والی مذمت صرف اور صرف مسلمان ہی سنتے اور محسوس کرتے ہیں اور جنہوںنے الزام لگایا انکا اس سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا۔ بات صرف تبلیغی جماعت کی نہیں ہے بلکہ جماعت اسلامی ، اہل حدیث اور اہلسنت والجماعت کی بھی ہے جنہیں کسی نہ کسی موقع پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتارہاہےاور وقتََا فوقتََا ان پر بے بنیاد الزامات لگائے جاتے رہے ہیں مگر کسی نے بھی یہ کوشش نہیں کی کہ دشمن جس ہتھیار کا استعمال مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے اور نقصان پہنچانے کے لئے کررہاہے اسی طرح کا ہتھیار ہمارے پاس بھی رہے یا اس سے اچھا ہتھیار ہم بناکر استعمال کریں ۔ مسلمان مقابلہ کرنے اترتے ہیں خوب جم کر کرتے ہیں لیکن حقیقی دشمن اور حقیقی ہتھیاروں کے ساتھ نہیں بلکہ باہمی گروہوں کے درمیان کرتے ہیں ۔ جس وقت ذاکر نائک اور سلفی کو بدنام کرنا شروع کیاگیا تھا اس وقت مسلمانوں کا ایک طبقہ سلفییت اور ذاکر نائک کو مزید نقصان پہنچانے کے لئے کام کررہا تھا ، جس وقت سنی جماعت کو سوالیہ نشان لگاکر درگاہوں اور مسجدوں پر نشانہ لگایاگیا تھا اس وقت بھی مسلمانوں کا ایک طبقہ خاموش رہا اور جس وقت جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کے لئے پہل ہوئی تو اس درمیان بھی مسلمانوں کا ہی ایک طبقہ ان پر پابندی لگانے کے لئے کمر بستہ ہوچکے تھے ۔ حقیقت میں مسلمانوں نے اصل دشمن اور دشمنوں کے ہتھیار کو نہیں پہچانا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک مسلمان میڈیا سے دور رہے ہیں اور مسلم دانشوروں کا طبقہ میڈیا ہائوزس کا قیام کرنے یا کروانے کے بجائے خاموش بیٹھے ہوئے اسکے علاوہ انکی بھی مدد نہیں کررہاہے جو واقعی میں میڈیا کو میڈیا کی طرح استعمال کرتے ہوئے سچائی کو بیان کرتے رہے ہیں ۔ اگر مسلمانوں کے پاس قوی میڈیا کے علاوہ مقامی سطح پر بھی میڈ یا قائم کیا گیا ہوتا توآج مسلمانوں کو بدنام کرنے کا موقع ہی نہ ملتا ۔ لیکن ہم نے اسلام کو اسلامی ضروریا ت کو الگ ہی آئینے میں سجا رکھا ہے ۔ ہماری روزمرہ کی ضروریا ت ضرور بدلے ہیں لیکن وقت کے تئیں نظریات نہیں بدلے جس کا خمیازہ مسلسل اٹھانا پڑرہاہے ۔ اگر مسلمان اب بھی ایسے ہی رہیں تو یقینََا مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑسکتاہے ، آج کورونا ہے کل چلا جائیگا ، آج تبلیغی جماعت پر الزامات لگے ہیں وہ کل چلے جائینگے لیکن تاقیامت تک مسلمان رہیں گے انکی ترجماتی کے لئے مسلمانوں کو تیار رہنا ہوگا اور میڈیا کے طرز رپر ہتھیار بنانے ہونگے۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197670 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.